’ضبط شدہ لگژری کار بلغاریہ کے سفارت خانے کے حوالے کی جائے‘

شائع July 12, 2023
اپیلٹ ٹربیونل نے محکمہ کسٹمز کو حکم دیا کہ وہ گاڑی کو بلغاریہ کے سفارت خانے یا وزارت خارجہ کے حوالے کرے—فوٹو: ٹوئٹر
اپیلٹ ٹربیونل نے محکمہ کسٹمز کو حکم دیا کہ وہ گاڑی کو بلغاریہ کے سفارت خانے یا وزارت خارجہ کے حوالے کرے—فوٹو: ٹوئٹر

کسٹمز اپیلٹ ٹربیونل لاہور نے قرار دیا ہے کہ کسٹمز کی جانب سے گزشتہ سال کراچی سے ضبط کی گئی ’بینٹلے ملسن‘ لگژری کار ملک میں اسمگل نہیں کی گئی تھی بلکہ اسے اسلام آباد میں تعینات بلغاریہ کے سفیر کے نام پر درآمد کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دو رکنی کسٹمز اپیلٹ ٹربیونل نے لگژری کار کی ملکیت کے دعویدار کی جانب سے دائر کردہ اپیل پر منگل کے روز جاری اپنے فیصلے میں کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ زیر تنازع گاڑی کو کسٹمز ڈپارٹمنٹ نے قانونی دائرہ اختیار کے بغیر ضبط کیا۔

اپیلٹ ٹربیونل نے محکمہ کسٹمز کو حکم دیا کہ وہ گاڑی کو بلغاریہ کے سفارت خانے یا وزارت خارجہ کے حوالے کرے۔

دو رکنی اپیلٹ ٹربیونل چیئرمین عارف خان اور عبدالباسط چوہدری پر مشتمل تھا۔

ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چونکہ گاڑی برطانیہ سے چوری ہوئی اور این سی اے اس کی تحقیقات کر رہا ہے، ہمیں ابتدائی طور پر یہ انٹرپول کا کیس معلوم ہوتا ہے، اس طرح کے کیسز کی پاکستان میں نمائندگی قومی سنٹرل بیورو (این سی بی)، اسلام آباد کی طرف سے کی جاتی ہے۔

فیصلے میں نوٹ کیا گیا کہ یہ کیس این سی بی کی جانب سے این سی اے کے ساتھ مل کر ہینڈل کیا جانا چاہیے تھا۔

ٹربیونل نے مزید کہا کہ ریکارڈ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ گاڑی کی ملکیت بلغاریہ کے سفارت خانے کے نام پر ہے، اس میں کہا گیا کہ سفارت خانہ گاڑی کی ملکیت سے انکار نہیں کرسکتی اور اگر گاڑی سفارت خانے سے چوری ہوئی تو ایف آئی آر درج کرائی جانی تھی یا سفارت خانے کو گاڑی کے معاملے کو ختم کرنا چاہیے تھا۔

ٹربیونل نے مزید کہا کہ اگر بلغاریہ کے سفارت خانے نے چوری کے حوالے سے برطانوی ایجنسی کی رپورٹ جاننے کے بعد گاڑی کی ملکیت سے انکار کیا تو گاڑی کو برطانوی حکام کے ساتھ مل کر مزید کارروائی کے لیے این سی بی کے حوالے کیا جانا چاہیے تھا۔

ٹریبونل نے متعلقہ حکام کو حکم دیا کہ وہ کار کو بلغاریہ کے سفارت خانے کے حوالے کریں کیونکہ وہ اس کا ’قانونی مالک‘ ہے۔

فیصلے میں کہا گیا اگر سفارت خانے کی جانب سے زیر تنازع گاڑی اپنے قبضے میں لینے سے انکار کیا جاتا ہے تو اس بات کو تحریری طور پر درج کیا جائے اور گاڑی کو نیشنل کرائم ایجنسی (یو کے) کی رپورٹس کے ساتھ مزید ضروری کارروائی کے لیے وزارت خارجہ کے حوالے کیا جائے گا۔

ٹربیونل نے فیصلہ دیا کہ درخواست گزار جمیل شفیع کے پاس “ڈیوٹی/ٹیکس کی ادائیگی کی بنیاد پر گاڑی ریلیز کرانے کی درخواست کے لیے کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں چوری، ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی اور لگژری کار کی غیر قانونی رجسٹریشن کے الزامات کے تحت کسٹم حکام نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے ایک گھر پر چھاپہ مار کر لندن سے مبینہ طور پر چوری کی جانے اور سندھ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ شدہ بینٹلے ملسن کار برآمد کرلی تھی۔

اس وقت سامنے آنے والی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ غیر ملکی جاسوسوں نے کار کی موجودگی کے مقام کا پتا لگا کر کسٹم حکام کو مطلع کیا جنہوں نے ڈی ایچ اے کے گھر سے 2 افراد کو حراست میں لے کر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔

محکمہ ایکسائز پر 30 کروڑ روپے سے زائد کی ٹیکس چوری میں ’سہولت کاری‘ کا الزام لگایا گیا جبکہ صوبائی حکومت نے لگژری گاڑی کو رجسٹر کیا تھا، وزارت خارجہ کی اجازت اور کسٹم کی جانب سے جاری کردہ این او سی کے بغیر کار کی درآمد کے وقت اس کی قیمت 4 کروڑ 14 لاکھ روپے ظاہر کی گئی تھی۔

گرفتار ملزمان جمیل شفیع، نوید بلوانی اور محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سندھ کے ایک نامعلوم سہولت کار اور دیگر افراد کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق کسٹمز انفورسمنٹ آفس کلکٹریٹ کو دوست ملک کی خفیہ ایجنسی سے ’قابل اعتماد‘ معلومات موصول ہوئیں جس میں بتایا گیا تھا کہ لندن سے چوری شدہ بینٹلے کار ڈی ایچ اے، کراچی میں ایک گھر (15-بی ساؤتھ، 10اسٹریٹ) میں کھڑی ہونے کا شبہ ہے۔

اس سلسلے میں کسٹم حکام نے معاملات کا جائزہ لیا اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد خاتون افسر کے ہمراہ گھر پر چھاپا مارا اور وہاں کھڑی کی گئی گاڑی کا سراغ لگایا۔

حکام نے ’مالک‘ جمیل شفیع سے گاڑی کی قانونی دستاویزات فراہم کرنے کا کہا جس پر اس نے قانونی دستاویزات پیش کرنے کے بجائے بیان دیا کہ مذکورہ گاڑی انہیں نوید بلوانی نامی شخص نے اس معاہدے کی شرائط کے ساتھ فروخت کی تھی کہ وہ نومبر 2022 تک متعلقہ حکام سے مطلوبہ دستاویزات کی منظوری کے تمام معاملات کے ذمہ دار ہوں گے۔

ایف آئی آر کے مطابق مالک کا بیان تسلی بخش نہ ہونے اور مذکورہ گاڑی کی دستاویز پیش نہ کر سکنے پر گاڑی کو قبضے میں لے لیا گیا۔

اس تمام کارروائی کے دوران نوید بلوانی بھی وہاں دیکھے گئے، گاڑی کے قانونی دستاویزات پیش کرنے کے لیے کہے جانے پر نوید بلوانی نے مطلوبہ دستاویزات فراہم کرنے میں اپنی ’ناکامی‘ ظاہر کی اور ’تسلی بخش جواب‘ دینے میں ناکام رہے۔

ابتدائی تفتیش کے دوران نوید بلوانی نے کسٹم کو بتایا کہ اس نے صرف جمیل شفیع اور نوید یامین نامی ایک اور شخص کے درمیان رقم اور کاغذات سے متعلق ڈیل کرانے میں مدد کی تھی جب کہ نوید یامین نے گاڑی کی ادائیگی کے طور پر جمیل شفیع سے نقد رقم اور پے آرڈر وصول کیے تھے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مذکورہ گاڑی کو موٹر رجسٹریشن ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ حکومت سندھ کی ویب سائٹ سے چیک کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ گاڑی پہلے سے ہی موٹر رجسٹریشن ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ ہے جو کہ قانون کے خلاف ہے جبکہ اس معاملے میں، وزارت خارجہ سے فروخت کی اجازت، پاکستان کسٹمز سے این او سی کے ساتھ ساتھ ڈیوٹی کی ادائیگی اور ٹیکس کی ضرورت تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیاکہ گاڑی کی مشکوک رجسٹریشن موٹر رجسٹریشن ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کے عملے کی ملی بھگت کی نشاندہی کرتی ہے۔

کسٹم ڈپارٹمنٹ نے 1969 کے کسٹم ایکٹ کے متعلقہ قوانین کے تحت درج مقدمے میں نوید یامین اور ایکسائز ڈپارٹمنٹ کے نامعلوم اہلکار کو نامزد کیا ہے۔

کسٹم حکام سمجھتے ہیں کہ نامزد افراد نے مذکورہ گاڑی کو ’غیر قانونی طور پر‘ قبضے میں رکھا اور ڈیوٹی اور ٹیکسز کی مد میں 30 کروڑ 74 لاکھ 27 ہزار 997 روپے کا گھپلا کیا۔

کارٹون

کارٹون : 6 اکتوبر 2024
کارٹون : 4 اکتوبر 2024