فیمنزم، اقربا پروی جیسی باتیں مغربی ہیں، ان پر آنکھیں بند کرکے یقین نہ کریں، واسع چوہدری

شائع August 11, 2023
—فوٹو: اسکرین شاٹ
—فوٹو: اسکرین شاٹ

واسع چوہدری کہتے ہیں کہ لوگوں کو بغیر سوچے سمجھے کسی مہم یا ’کینسل کلچر‘ کا حصہ نہیں بن جانا چاہیے، فیمنزم، اقربا پروی جیسی باتیں مغربی ہیں، ان پر آنکھیں بند کرکے یقین نہ کریں، اس پر پہلے ہمیں خود سوچنا چاہیے۔

واسع چوہدری نامور اداکار، ہدایت کار، میزبان اور کامیاب لکھاری تصور کیے جاتے ہیں، انہوں نے کئی نامور فلموں کے اسکرپٹس لکھے، اسکرپٹ کامیڈی کا عنصر شامل کرکے انہوں نے خوب داد سمیٹی۔

تاہم گزشتہ چند سالوں کے دوران وہ اداکاری نہیں کررہے ہیں اور نہ کسی فلم کے لیے کام کرتے نظر آرہے ہیں، اکثر مواقع پر وہ ڈراموں اور فلمی کہانیوں کے ناقص معیار کے حوالے سے بات کرتے نظر آتے ہیں۔

واسع چوہدری نے حال ہی میں ایکسپریس ٹی وی کے پروگرام میں شرکت کی جہاں انہوں نے فلم اور ڈراما انڈسٹری سے متعلق اہم پہلوؤں کی نشاندہی کی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ٹیلی ویژن ڈرامے یا فلمیں دیکھتے ہیں تو انہوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے بتایا کہ زیادہ تر ڈراموں میں ایک جیسی کہانیوں ہوتی ہیں لیکن وہ کچھ ایسے پروگرامز دیکھتے ہیں جو مختلف ہوتے ہیں۔

ڈراموں کی کہانیوں کے معیار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے واسع چوہدری نے کہا کہ ’میں اب ٹی وی اسکرپٹ نہیں لکھتا، اب ہمارے چینلز اور پروڈکشن ہاؤسز مالی پہلوؤں کی وجہ سے ان معیاری کہانیوں میں سرمایہ کاری نہیں کرتے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ہر کسی کو رائٹر بنادیا ہے، ہر کوئی لکھاری نہیں ہوسکتا۔‘

انہوں نے کہا کہ ہماری انڈسٹری میں خود مختاری نہیں ہے اور یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔

واسع چوہدری نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر میرا ایک ڈراما مشہور ہوجاتا ہے اور پھر وہ مزید 6 ممالک میں نشر ہوتا ہے، یوٹیوب میں لاکھوں ویوز آتے ہیں، تو اس کے بعد شاید میں 4 ڈرامے لکھنے کے بجائے صرف 2 ڈرامے لکھوں، لیکن اگر میں صرف چند پیسے کمانے کے لیے 4 ڈرامے لکھوں تو ان میں سے 3 ڈرامے ضرور خراب ہوں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اداکار اس بارے میں بات نہیں کرتے، مجھے ہنسی آتی ہے کیونکہ اداکار سوشل میڈیا، انٹرویوز پر جانوروں، پولیس ناانصافی، عدلیہ، سیاست اور کسی بھی سماجی مسئلے کے بارے میں بہت زیادہ باتیں کرتے ہیں لیکن اپنی انڈسٹری اور اپنے حق کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اگر آپ بزنس کلاس سفر اور سوشی کی تصاویر لگا سکتےہیں، تو اس بارے میں بھی بات کرلیا کریں‘۔

’فلمی اداکاروں کو ڈرامے نہیں کرنا چاہیے‘

واسع چوہدری نے فلموں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ دو فلمیں لکھ چکے ہیں لیکن ابھی تک ڈائریکٹر یا پروڈیوسر کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا، انہوں نے کہا کہ ہمایوں سعید اور ندیم بیگ سے پوچھیں کہ فلمیں کیوں نہیں بن رہی؟

وہ کہتے ہیں لکھاری کے طور پر انہوں نے اپنے کام کرلیا ہے، اداکار کے طور پر وہ تبھی جاسکتے ہیں جب انہیں بلایا جائے گا،

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ سینسر بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے دوبارہ واپس آگئے ہیں۔

آج کل کی فلمیں ڈراموں کی طرح لگنے کی وجہ پر بات کرتے واسع کہتے ہیں کہ ’ہمارے ملک میں فلمی اداکار ڈرامے بہت کرتے ہیں، پہلے زمانے میں فلمی اداکار ڈرامے نہیں کرتے تھے، ڈراموں کے اداکار اور فلمی اداکار میں فرق ہونا چاہیے۔ ’

انہوں نے بتایا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ڈرامے کے اداکار فلم میں نظر آرہے ہوتے ہیں اس لیے ناظرین فلم کو ڈرامے کی طرح محسوس کرتے ہیں، اصولی طور پر فلمی اداکاروں کو ڈرامے نہیں کرنا چاہیے’۔

’فیمنزم، اقربا پروی جیسی باتیں مغربی ہیں، ان پر آنکھیں بند کرکے یقین نہ کریں‘

میزبان نے سوال پوچھا کہ آپ کینسل کلچر پر کیا رائے رکھتے ہیں؟ مثال کے طور پر ایوارڈ شو میں کسی نے مزاق میں کوئی جملہ کہہ دیا اور پھر وہ انہیں سنجیدہ لے لیتے ہیں اور حساس ہوجاتے ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کیا کامیڈی کو محدود کردیا گیا ہے، اتنی پابندیاں لگا دی ہیں کہ کوئی شخص اظہار بھی نہیں کرسکتا ؟

اس سوال پر واسع چوہدری نے جواب دیا کہ اس سوال کے دو جواب ہیں، اگر میں اداکار یا میزبان کی حیثیت سے جواب دوں تو کینسل کلچر عجیب تصور ہے، آپ کسی پر مکمل پابندی نہیں لگا سکتے، ایک creative کی حیثیت سے یہ پابندیاں بہت خطرناک ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ ایک احترام لازمی ہوتا ہے لیکن ایک creative آرٹسٹ کو رسک لینا پڑتا ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر میں عام پاکستانی کے طور پر اس کا جواب دوں تو یہ ہے کہ بھائی آرام سے بیٹھ جاؤں، اقربا پروری، اشرافیہ، فیمیزم یہ سب مغربی باتیں ہیں، سوشل میڈیا ایکٹیوزم چھوڑدیں، آرام سے سوشل میڈیا استعمال کریں، ان چکروں پر پڑنا چھوڑ دیں۔‘

واسع چوہدری کہتے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران حساس موضوع کے حوالے سے ان کے کام میں بہتری آئی ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو بغیر سوچے سمجھے کسی مہم کا حصہ نہیں بن جانا چاہیے، کسی مہم کا حصہ بننے سے پہلے ہمیں خود سوچنا چاہیے اور پھر فیصلہ کریں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنے لکھنے کے انداز میں تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے، گزشتہ 6 یا 7 سالوں سے میرے شو میں ٹرانسجینڈر کے لیے مخصوص لفظ استعمال نہیں ہوتا، اگر وہ لفظ کسی نے استعمال کیا تو اس شخص پر ایک ہزار روپے کا جرمانہ عائد ہوتا ہے، اسی طرح دیگر مخصوص الفاظ کا استعمال نہیں کیا جاتا۔‘

کارٹون

کارٹون : 6 اکتوبر 2024
کارٹون : 4 اکتوبر 2024