• KHI: Maghrib 7:25pm Isha 8:54pm
  • LHR: Maghrib 7:11pm Isha 8:49pm
  • ISB: Maghrib 7:22pm Isha 9:04pm
  • KHI: Maghrib 7:25pm Isha 8:54pm
  • LHR: Maghrib 7:11pm Isha 8:49pm
  • ISB: Maghrib 7:22pm Isha 9:04pm

چیئرمین پی ٹی آئی کی آفیشل سیکرٹ ایکٹ، آرمی ترمیمی قانون کے خلاف درخواست

شائع September 9, 2023
چیرمین تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست شعیب شاہین کی وساطت سے دائر کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیرمین تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست شعیب شاہین کی وساطت سے دائر کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2023 اور آفیشل سیکرٹ (ترمیمی) بل 2023 کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست وکیل شعیب شاہین کی وساطت سے دائر کی ہے جس میں صدر مملکت، سیکریٹری قومی اسمبلی، وزارت قانون و انصاف اور وزارت داخلہ کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی قانون کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کے ساتھ ساتھ آئینی درخواست پر فیصلہ آنے تک دونوں قوانین کو معطل کرنے کا کہا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ آرمی ترمیمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ پر صدر مملکت نے دستخط نہیں کیے، آرمی ترمیمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ آرٹیکل 10 اے، آرٹیکل 8 اور آرٹیکل 19 کے منافی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری اپنے بیان میں صدر مملکت نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ان دونوں بلوں پر دستخط نہیں کیے۔

صدر مملکت کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب بیان سے ایک روز قبل یہ دونوں بل قانون بن گئے تھے جس کے بعد تنازع پیدا ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے صدر مملکت نے اپنے پرنسپل سیکریٹری وقار احمد کی خدمات واپس کردی تھیں۔

یاد رہے کہ دو روز قبل سندھ بار کونسل نے بھی پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2023 اور آفیشل سیکرٹ (ترمیمی) بل 2023 کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں بلز کی صدر مملکت نے منظوری نہیں دی، اس لیے وہ تاحال بل ہیں، قانون نہیں بنے۔

سندھ بار کونسل نے استدلال کیا کہ صدر مملکت نے عوامی طور پر کہا کہ انہوں نے دونوں بلوں پر دستخط نہیں کیے کیونکہ وہ ان سے متفق نہیں تھے اور اپنے عملے سے کہا کہ وہ انہیں غیر مؤثر بنانے کے لیے مقررہ مدت کے اندر بغیر دستخط کے واپس بھیج دیں۔

دوسری جانب، وزارت قانون نے مؤقف اختیار کیا کہ ایوان صدر کو بل بالترتیب 2 اگست 2023 اور 8 اگست 2023 کو موصول ہوئے، صدر مملکت کو بلز موصول ہونے کے بعد 10 روز کے اندر ان کی منظوری دینے یا واپس کرنے کا اختیار ہے۔

درخواست میں استدلال کیا گیا تھا کہ یہاں تک کہ اگر وصولی کی تاریخ کو صدر کو حاصل مدت کا پہلا دن شمار کیا جائے تو بھی منظوری کی کم ترین مدت بالترتیب 12 اگست اور 18 اگست بنتی ہے، تاہم گزٹ نوٹی فکیشنز میں کہا گیا کہ صدر نے آرمی بل 11 اگست 2023 اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ بل 17 اگست سے منظور کر لیا۔

اس میں مزید استدلال کیا گیا کہ اس طرح ان تاریخوں پر منظوری کا تصور ممکن نہیں، صرف اسی وجہ سے مبینہ قانون سازی غیر آئینی، غلط اور نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 75 (1) کے تحت بھی سمجھے جانے والے رضامندی کا کوئی تصور نہیں جبکہ منظوری کا باضابطہ تحریری طور پر اظہار ہونا ضروری ہے۔

درخواست میں زور دیا گیا کہ صدر، وفاق کے اتحاد کی عکاسی کرتے ہیں اور اسی وجہ سے انہیں کسی سیاسی جماعت کی قیادت کی اجازت نہیں ہے۔

اس طرح ان دونوں بلوں کے لیے واضح صدارتی منظوری کی عدم موجودگی سے پتا چلتا ہے کہ یہ قانون نہیں ہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ کو پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2023 اور آفیشل سیکریٹ (ترمیمی) ایکٹ 2023 صدارتی منظوری سے محروم قرار دینا چاہیے اور آئین کے آرٹیکل 75 (1) کے تحت قانون کی نظر میں کالعدم قرار دینا چاہیے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ یا سپریم کورٹ متبادل طور پر یہ قرار دے سکتی ہے کہ یہ دونوں بلز، آئین سے متصادم ہیں کیونکہ وہ ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں سمیت عام شہریوں پر فوجی قوانین کے اطلاق اور ملٹری ٹربیونلز میں ان کے کیسز کی رسائی کی اجازت دیتے ہیں جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

درخواست میں نشان دہی کی گئی کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد کسی بھی مجرمانہ الزام کے تعین میں منصفانہ ٹرائل اور مناسب دفاع کا حق آرٹیکل 8 (3) میں مخصوص شق کی وجہ سے آئینی ضمانت بن گیا ہے۔

درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل آئین کے آرٹیکل 4، 10، 10 اے، 25، 175، 202 اور 203 کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عالمی معاہدوں اور کنونشن کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی قرار دیا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 5 جولائی 2024
کارٹون : 4 جولائی 2024