• KHI: Asr 5:19pm Maghrib 7:25pm
  • LHR: Asr 5:03pm Maghrib 7:11pm
  • ISB: Asr 5:12pm Maghrib 7:22pm
  • KHI: Asr 5:19pm Maghrib 7:25pm
  • LHR: Asr 5:03pm Maghrib 7:11pm
  • ISB: Asr 5:12pm Maghrib 7:22pm

آگ سے متاثرہ عمارت کنٹونمنٹ بورڈ فیصل نے ریگولرائز کی، اس پر بات کیوں نہیں ہوتی؟ میئر کراچی

شائع November 28, 2023
میئر کراچی نے کہا کہ کراچی میں آگ لگنے والی عمارت میں اگر اسپرنکلز لگے ہوتے تو آتشزدگی کو روکا جاسکتا تھا — فوٹو: ڈان نیوز
میئر کراچی نے کہا کہ کراچی میں آگ لگنے والی عمارت میں اگر اسپرنکلز لگے ہوتے تو آتشزدگی کو روکا جاسکتا تھا — فوٹو: ڈان نیوز

میئر کراچی اور پیپلز پارٹی کے رہنما مرتضیٰ وہاب نے گلستان جوہر کے علاقے راشد منہاس روڈ پر شاپنگ مال کی پیش آنے والے آتشزدگی کے واقعے کے حوالے سے کہا ہے کہ متاثرہ عمارت کو کنٹونمنٹ بورڈ فیصل نے ریگولرائز کیا تو آگ بجھانے بھی ان کو آنا چاہیے تھا۔

کراچی میں پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ جس بلڈنگ میں آگ لگی وہ عمارت بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی نہیں تھی، نقشہ انہوں نے منظور نہیں کیا تھا، کنٹونمنٹ بورڈ فیصل نے کیا تھا اس کو ریگولرائز کنٹونمنٹ بورڈ فیصل نے کیا تھا تو آگ بجھانے کے لیے بھی ان کی ٹیم کو آنے کی ضرورت تھی مگر وہ نہیں آئی، لیکن پتا نہیں کیا ایسا ابہام ہے کہ اس پر بات نہیں ہوتی۔

ان کے مطابق اگر کراچی کی آگ لگنے والی عمارت میں اسپرنکلز لگے ہوتے تو شاید آتشزدگی کو روکا جاسکتا تھا، اگر اس عمارت میں فائر سیفٹی ایگزٹ ہوتا جو نقشے میں موجود تھا لیکن حقیقت میں نہیں تھا، تو لوگ بروقت باہر نکل پاتے یا اسنارکل والوں کو کام کرنے میں آسانی ہوجاتی۔

انہوں نے بتایا کہ شہر کے اندر متعدد دائرہ اختیار ہیں، ہمارے شہر میں قانون نافذ کرنے کی سب سے بڑی پریشانی ہے اور اس متعدد دائرہ اختیاروں کا کوئی نہ کوئی حل نکالنے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ معاملات استحکام کے ساتھ حل نہیں ہوسکتے، ان کے مطابق اداروں کو ری ایکٹو نہیں پرو ایکٹو ہونا چاہیے، ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے۔

’35 لوگوں کی جان بچانے والے عملے کے خلاف ایف آئی آرز کاٹ دی گئی‘

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ آگ بجھانے والے عملے کو شاباشی دینے کے بجائے ایس پی صاحب نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی، ڈی سی صاحب کا رویہ بھی ان کے ساتھ خوشگوار نہیں تھا، اور بعد میں آگ بجھانے والے عملے کے خلاف ایف آئی آرز بھی کاٹ دی گئی جنہوں نے 35 لوگوں کی جان بچائی، یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہم سنسنی پر یقین کرتے ہیں مگر مسائل کو حل کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ جو امدادی عملہ ہے، یہ وہاں اس دن اپنے فرض کی ادائیگی کر رہا تھا، جو لوگ اس گرمی کی شدت، اس آگ میں اترتے ہیں اگر آپ ان کو سلام پیش کرنے کے بجائے ان پر ایف آئی آرز کاٹ دیں گے تو مجھے پتا ہے کل کو یہ لوگ کہہ دیں گے کہ ہم نہیں جارہے کام پر، یہ معاملات کا حل نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آپ دیکھتے ہیں دنیا بھر میں آگ بجھانے والوں کو ہیرو کہا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں ہم انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے، میں ان کو سلام دیتا ہوں کہ جس مشکل حالات میں یہ لوگ کام کرتے ہیں یہ عزت اور محبت کے مستحق ہیں۔

کراچی کی 432 عمارتیں مخدوش قرار

میئر کراچی نے بتایا کہ 432 عمارتوں کو ایس بی سی اے نے مخدوش قرار دے دیا ہے لیکن لوگ عمارتوں کے خطرناک ہونے کے باوجود اسے چھوڑتے نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کا گھر ہے تو یہ معاملات حل کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے جائیدادوں کے مسئلے کو حل کیا جائے اور خدانخواستہ عمارتوں کے گرنے سے جو جانوں کا خطرہ ہے اس سے بھی نمٹا جاسکے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں آج فیصلہ کرنا چاہیے کہ کراچی کی تمام صنعتوں اور دفاتروں کے معیار کا جائزہ لیں، ادارے تعاون کریں اور پھر میڈیا کی توسط سے ہم لوگوں کو بتائیں کہ کس ادارے نے تعاون کیا اور کس نے نہیں کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اب جو بھی عمارت بنے گی اس میں فائر سیفٹی لازمی کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے گی، عمارتوں کے حوالے سے فائر سیفٹی سروے کروانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، ان کے مطابق کراچی میں فائر سیفٹی سے متعلق آگاہی کی ضرورت ہے، یہ انتہائی اہم ہے۔

یاد رہے کہ 25 نومبر کو کراچی میں راشد منہاس روڈ پر شاپنگ مال میں آگ لگنے کے سبب دھوئیں کے باعث دم گھٹنے سے 10 افراد جاں بحق اور 22 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

26 نومبر کو سرکار کی مدعیت میں شاہراہ فیصل تھانے میں کے-الیکٹرک، فائر بریگیڈ اور دیگر اداروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس میں قتل بالسبب، لاپرواہی، نقصان رسانی اور دیگر دفعات شامل ہیں۔

27 نومبر کو کراچی پولیس نے بتایا کہ شاپنگ مال میں پیش آنے والے آتشزدگی کے واقعے کی تحقیقات کے لیے پولیس ٹیم ماہرین سے مدد لے گی۔

ایس ایس پی عامر سعود مگسی نے کہا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ آگ کہاں لگی اور کیسے پھیلی، تحقیقات سے ہی تمام پہلوؤں کی وضاحت ہوجائے گی جب حتمی رپورٹ تیار کرلی جائے گی۔

قبل ازیں رواں ماہ 13 نومبر کو کراچی کے آئی آئی چندریگر روڈ پر قائم کثیرالمنزلہ عمارت میں آتشزدگی سے ایک خاتون زخمی ہوگئی تھیں۔

چند روز پہلے کراچی میں منعقدہ ایک سمپوزیم میں سٹی پلانرز، انجینئرز اور بلڈنگ پلانز کے ماہرین نے اس بات پر توجہ دلائی تھی کہ کراچی کے تقریباً 90 فیصد رہائشی، تجارتی اور صنعتی عمارتوں میں آگ سے بچاؤ اور آگ بجھانے کا نظام موجود نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سمپوزیم میں موجود تمام ماہرین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا تھا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) جیسے ریگولیٹری اداروں کی مجرمانہ غفلت نے شہر میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 جولائی 2024
کارٹون : 4 جولائی 2024