• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 5:02pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 5:12pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 5:02pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 5:12pm

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹیلی کام کمپنیز کو نگرانی کیلئے فون کال ریکارڈنگ، ڈیٹا تک رسائی سے روک دیا

شائع May 29, 2024
— فائل/ فوٹو:اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
— فائل/ فوٹو:اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم الثاقب کی میبنہ آڈیو لیک کے خلاف درخواست پر ٹیلی کام کمپنیز کو سرویلینس کے لیے فون ریکارڈنگ سے روک دیا، ساتھ ہی صارفین کے ڈیٹا تک رسائی اور اس کے استعمال سے بھی روکنے کا حکم جاری کردیا۔

ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے دونوں فریقین کی درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر عدالت نے پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے وکیل سے استفسار کیا کہ پی ٹی اے نے جواب جمع نہیں کروایا ؟ وکیل نے بتایا کہ چھٹی کے باعث ہم اپنا جواب داخل نہیں کرواسکے۔

بعد ازاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل روسٹرم پر آ گئے۔

جسٹس بابر ستار نے دریافت کیا کہ یہ بتایا جائے کہ شہریوں کی کالز کس قانون کے تحت کون ریکارڈ کرتا ہے ؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکشن 54 کے تحت پی ٹی اے کو اختیار ہے کہ وہ کالز ریکارڈ کرسکتا ہے۔

عدالت نے مزید دریافت کیا کہ قانون بتائیں کس قانون کے تحت پی ٹی اے نگرانی کر رہا ہے؟ کس سیکشن کے تحت پی ٹی اے والے سرویلنس کر رہے ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ لیگل فریم ورک کے ذریعے کر رہے، عدالت نے کہا کہ جو بھی ہے آپ بتائیں شہریوں کی کالز کس قانون کے تحت ریکارڈ کر رہے ہیں؟ زبانی کلامی نہ بتائیں باضابطہ طور پر بتائیں، آپ بتائیں آپ نے کس کو اجازت دے رکھی ہے؟ کس نے اتھارٹی دی ہوئی ہے کہ لوگوں کی کالز ریکارڈ کی جائیں؟

اس پر منور اقبال دوگل نے کہا کہ مجھے تھوڑا وقت دے دیں میری استدعا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا پر عدالت برہم ہوگئی، جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کتنا وقت چاہیے؟ کب درخواست دائر ہوئیں ہیں؟ یہ 2023 میں درخواستیں آئیں ہیں، آپ کے مطابق کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی گئی، اگر آپ اب اس موقف سے پیچھے ہٹیں گے تو اس کے نتائج ہوں گے، قانون کہتا ہے کہ وفاقی حکومت اجازت دے سکتی ہے مگر آپ کے مطابق اس کی اجازت نہیں دی گئی۔

عدالے نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم آفس، وزارت دفاع، داخلہ، پی ٹی اے کہہ چکے کسی کو اجازت نہیں، تو آج کیسے اجازت دے دی؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پھر استدعا کی کہ مجھے تھوڑا سا ٹائم دے دیں۔

اس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ کو نہیں پتا تھا کہ آج کیس لگا ہوا ہے؟ ایک سال سے یہ پٹیشنز زیر سماعت ہیں، اگر وفاقی حکومت عدالت میں جھوٹ بولے گی تو بات کیسے آگے بڑھے گی؟ وزیراعظم آفس سمیت دیگر اداروں کی جانب سے رپورٹس جمع کرائی جا چکی ہیں، رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کسی کو لیگل انٹرسیپشن کی اجازت نہیں دی گئی۔

اس پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ وہ جواب پٹیشنر کی آڈیو لیکس کی حد تک تھا۔

بعد ازاں جسٹس بابر ستار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ٹیلی گراف ایکٹ کی متعلقہ سیکشنز پڑھنے کی ہدایت دی۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ غیر قانونی سرویلنس ایک جرم جس کی قانون میں سزا موجود ہے، جب وفاقی حکومت نے جواب جمع کروایا تو عدالت نے اسے سنجیدہ لیا، پی ٹی اے کہہ رہا ہے کہ ہمیں کوئی اجازت نہیں دے رہا، سرویلینس کو اتھورائزڈ اگر کیا گیا ہے تو بتائیں کہاں موجود ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس حوالے سے اگر رولز نہیں بنے ہوئے تو بننے چاہئیں۔

جسٹس بابر ستار نے مزید کہا کہ قانون کہتا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی اور دیگر گریڈ 20 کے افسر کو نوٹیفائی کریں گے جو سرویلینس کی اجازت کے لیے درخواست دیں گے، اگلا مرحلہ حکومتی وزیر کی جانب سے سپورٹنگ مٹیریل دیکھ کر سرویلنس کی اجازت دینا ہے جس کی حتمی منظوری عدالت دیتی ہے، اس قانون میں بھی پرائیویسی کو مدنظر رکھا گیا ہے، یہ بتائیں کہ اگر سرویلنس کی اجازت دی گئی تو وہ اجازت کہاں ہے؟

دوران سماعت عدالت نے سوالات اٹھائے کہ کیا کبھی کسی خفیہ ریکارڈنگ کے لیے اِس قانون کےتحت آج تک عدالت سے اجازت مانگی گئی؟ قانون کےتحت ہر 6 ماہ بعد کسی کی ایسی خفیہ ریکارڈنگ کےاجازت نامے پر نظر ثانی کی جائے گی، کیا کوئی ایسی نظر ثانی کمیٹی آج تک بنی؟ عدالتی اجازت کے بغیر فون ریکارڈنگ اور فون ریکارڈنگ کی فراہمی بھی قابلِ سزا ہے۔ کیا پی ٹی اے کے لائسنس کی شرائط میں یہ چیزیں شامل ہیں یا پی ٹی اے نے اس حوالے سےکوئی پالیسی دی ہے؟

انہوں نے دریافت کیا کہ اس قانون کو پچھلے ایک سال میں فالو کیا گیا ہے یا نہیں؟ بتائیں کہ غیر قانونی ٹیلی فون ریکارڈنگ پر کیا ایکشن لیا گیا؟ آپ نے کیا تحقیقات کیں کہ سوشل میڈیا پر آڈیو لیکس کیسے وائرل ہوئیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں یہ بات پوچھ کر بتا سکتا ہوں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ریویو کمیٹی ہونی چاہیے، عدالت نے کہا کہ 11 سال سے قانون تو موجود ہے ریویو کمیٹی موجود نہیں، ریویو کمیٹی کیوں موجود نہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ میں کچھ چیزیں مزید بتا دیتا ہوں، انٹیلیجنس کے لوگ بھی یہاں بیٹھے ہیں، جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کوئی بات نہیں اینٹلی جنس کے لوگوں سے شرمائیں نہیں ، انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ انٹیلیجنس کے لوگ تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔

بعد ازاں ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے کہا کہ آڈیو لیکس کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ کیا ایف آئی اے کے پاس صلاحیت موجود نہیں کہ وہ اس کی نشاندہی کریں؟ آپ لوگوں نے ابھی تک ایف آئی آر درج کی ہے؟

ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم نے بتایا کہ جب تک ہمیں سوشل میڈیا کمپنیز جواب نہیں دیں گی ہم ایف آئی آر نہیں کروا سکتے۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا پر کوئی چیز اپلوڈ ہو تو آئی پی ایڈریس سے ٹریک ہو سکتی ہے، ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں کو کہا کہ ٹریک کر کے بتائیں تو انہوں نے کہا کہ ان کے پاس یہ صلاحیت نہیں، پھر تو یہ اداروں کی ناکامی ہوئی، ایف آئی اور پولیس کا کیا کام ہے؟ اس معاملے میں ابھی تک ایف آئی آرز درج کیوں نہیں کی گئیں؟ ایک ملک میں اگر جرم ہوا ہے تو آپ انتظار کریں گے کہ کوئی آ کر شکائت کرے تو تحقیقات کریں؟

اس موقع پر ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو خط لکھا ہے اور جواب کا انتظار ہے، اس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اگر جواب مزید دس سال نہیں آئے گا تو آپ کیا کریں گے؟ ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم نے جواب دیا کہ اس معاملے کی انکوائری چل رہی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو وفاقی حکومت سے ہدایات لینے اور عدالتی سوالوں کے جواب جمع کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نےوفاق سے خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی گفتگو کے اعدادوشمار کا ریکارڈر بھی طلب کر لیے اورکہا کہ آپ اس متعلق بھی جواب دیں کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے یہ کس قانون کے تحت کیں؟

جسٹس بابر ستار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ دوگل صاحب یہ حالت ہے اسٹیٹ کی، ایک سال انکوائری چل رہی ہے، آپ ایک سال میں اس نتیجے تک نہیں پہنچے کہ جرم ہوا ہے یا نہیں؟

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو وفاقی حکومت سے ہدایات لینے اور عدالتی سوالوں کے جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

بعد ازاں عدالت نے آڈیو لیکس کیس میں بڑا حکم جاری کرتے ہوئے ٹیلی کام کمپنیز کو نگرانی کیلئے فون کال ریکارڈ کرنے سے روک دیا.

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر ٹیلی کام کمپنیز کا آلہ غیر قانونی سرویلنس کے لیے استعمال ہوا تو ان پر اس کی ذمہ داری عائد ہو گی۔

واضح رہے کہ 3 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کی جانب سے بینچ پر اعتراض واپس لینے کی متفرق درخواست خارج کردی تھی۔

29 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف کیس پر سماعت کے دوران پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (پی ٹی اے) کی جانب سے جسٹس بابر ستار سے آڈیو لیکس کیس سے علیحدہ ہونے کی متفرق درخواستیں خارج کردی تھی۔

27 اپریل کو آڈیو لیکس کیس میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار سے آڈیو لیکس کیس سے علیحدہ ہونے کی استدعا کی تھی۔

آڈیو لیکس کیس میں پیمرا، پاکستان ٹیلی پی ٹی اے، ایف آئی اے اور آئی بی نے متفرق درخواستیں دائر کردیں تھیں۔

ان چاروں اداروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں متفرق درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ اسی نوعیت کے دوسرے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک اور بینچ فیصلہ دے چکا ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جسٹس بابر ستار سماعت سے معذرت کرلیں۔

یاد رہے کہ 14 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی جانب سے مبینہ آڈیو لیک کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس بابر ستار نے کہا تھا کہ کیا پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کسی ایجنسی کو کوئی سہولت فراہم کر رہی ہے؟

5 مارچ کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے پی ٹی اے کے چیئرمین کو طلب کرلیا تھا۔

19 فروری کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف کیس پر سماعت کے دوران سرکاری افسران کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

13 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بشری بی بی اور نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف درخواستوں کو یکجا کردیا تھا۔

19 ستمبر کو سماعت کے دوران آڈیو لیکس کے خلاف کیس میں وزارت دفاع نے سرکاری افسران اور دیگر اہم شخصیات کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ اور لیک ہونے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

اس کے بعد 20 دسمبر کو آڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ وفاقی حکومت نے کسی ایجنسی کو آڈیو ٹیپ کی اجازت نہیں دی۔

بعد ازاں 27 دسمبر کو خفیہ ایجنسی نے یہ عندیہ دیا تھا کہ عام ہیکرز مبینہ آڈیو لیک کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔

بشریٰ بی بی، نجم ثاقب کی مبینہ ٹیلی فونک کالز لیک ہوگئی تھیں، جس کی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی، اس حوالے سے دونوں نے عدالت میں علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کی تھیں، تاہم عدالت نے نجم ثاقب اور بشریٰ بی بی کی جانب سے دائر علیحدہ علیحدہ درخواستوں کو اکٹھا کردیا تھا۔

آڈیو لیک

واضح رہے کہ 29 اپریل 2023 کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی پنجاب اسمبلی کے حلقہ 137 سے پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے والے ابوذر سے گفتگو کی مبینہ آڈیو منظر عام پر آگئی تھی جس میں انہیں پنجاب اسمبلی کے ٹکٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سنا گیا۔

مبینہ آڈیو میں حلقہ 137 سے امیدوار ابوذر چدھڑ سابق چیف جسٹس کے بیٹے سے کہتے ہیں کہ آپ کی کوششیں رنگ لے آئی ہیں، جس پر نجم ثاقب کہتے ہیں کہ مجھے انفارمیشن آگئی ہے۔

اس کے بعد نجم ثاقب پوچھتے ہیں کہ اب بتائیں اب کرنا کیا ہے؟ جس پر ابوذر بتاتے ہیں کہ ابھی ٹکٹ چھپوا رہے ہیں، یہ چھاپ دیں، اس میں دیر نہ کریں، ٹائم بہت تھوڑا ہے۔

اس حوالے سے تحقیقات کے لیے قومی اسمبلی میں تحریک کثرت رائے سے منظور کی گئی تھی، تحریک کے متن کے مطابق سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب کی آڈیو سامنے آئی ہے، مبینہ آڈیو کے معاملے کی فرانزک تحقیقات کرائی جائیں، نجم ثاقب کی آڈیو لیک کی تحقیقات کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

اس تحریک کی منظوری کے اگلے روز ہی اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے تحقیقات کے لیے اسلم بھوتانی کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی قائم کر دی تھی، کمیٹی میں شامل دیگر ارکان میں شاہدہ اختر علی، محمد ابوبکر، چوہدری محمد برجیس طاہر، شیخ روحیل اصغر، سید حسین طارق، ناز بلوچ، خالد حسین مگسی، وجیہہ قمر اور ڈاکٹر محمد افضل خان ڈھانڈلہ بھی شامل ہیں۔

کمیٹی کے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق کمیٹی اپنی تحقیقات اور انکوائری کے سلسلے میں کسی بھی تحقیقاتی ادارے کی مدد لے سکے گی اور اپنی جامع تحقیقات کرکے رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کرے گی۔

30 مئی کو نجم ثاقب نے اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بنائی گئی اسپیشل کمیٹی کی تشکیل چیلنج کردی تھی, درخواست میں نجم ثاقب نے عدالت سے استدعا کی کہ اسلم بھوتانی کی سربراہی میں پارلیمانی پینل کی کارروائی روک دی جائے کیونکہ یہ باڈی قومی اسمبلی کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنائی گئی ہے۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کمیٹی نے انہیں طلب نہیں کیا لیکن کمیٹی کے سیکریٹری نے اس کے باوجود انہیں پینل کے سامنے پیش ہونے کو کہا۔

دوسری جانب 8 دسمبر 2022 کو مبینہ طور پر پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی آڈیو لیک ہوئی جس میں دونوں کو سابق وزیر اعظم کے پاس موجود گھڑیوں کی فروخت کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔

21 سیکنڈ پر مشتمل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی آڈیو میں زلفی بخاری اور بشریٰ بی بی کو گھڑیوں کے بارے میں بات چیت کرتے سنا جاسکتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 1 جولائی 2024
کارٹون : 30 جون 2024