• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:18pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 5:02pm
  • ISB: Zuhr 12:11pm Asr 5:12pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:18pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 5:02pm
  • ISB: Zuhr 12:11pm Asr 5:12pm

نگرانی کیلئے ڈیٹا تک رسائی پر پابندی، اسلام آباد پولیس عدالتی حکم میں نرمی کی خواہاں

شائع June 16, 2024
— فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
— فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد پولیس نے ایڈووکیٹ جنرل پر زور دیا ہے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احالیہ حکم کو چیلنج کریں جس نے انٹیلیجنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جرائم کی تحقیقات اور دہشتگردی کی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے عملی طور پر معذور کر دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالتی فیصلے میں سیلولر کمپنیوں کو شہریوں کا ڈیٹا ایجنسیوں کے ساتھ شیئر کرنے سے منع کیا گیا ہے، یہ حکم جسٹس بابر ستار نے دیا تھا، عدالتی ہدایت پر سیلولر کمپنیوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) کا اشتراک بند کر دیا ہے۔

ذرائع نے ڈان کو انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی شریک حیات بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب کی درخواستوں کی سماعت کے دوران دیے گئے آرڈر نے ہائی پروفائل سمیت متعدد کیسز کی تحقیقات کو روک دیا ہے۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرموں، دہشتگردوں اور اغوا کاروں کے مقامات کا پتا لگانے کے لیے سی ڈی آرز پر انحصار کرتے ہیں، عدالت کا حکم ان کے کام میں ایک اہم رکاوٹ بن گیا ہے۔

سیلولر کمپنیوں کے تعاون کی کمی نے جیو فینسنگ کو ناممکن بنا دیا ہے، جیو فینسنگ ایک ٹیکنالوجی ہے جو جغرافیائی علاقوں کے ارد گرد مجازی حدود بناتی ہے، اور یہ جرائم کی روک تھام، تفتیش اور لاپتا افراد یا بچوں کے اغوا کے معاملات میں معلومات کی فوری ترسیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اپنے حکم میں، جسٹس بابر ستار نے کہا تھا کہ وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی طرف سے دائر رپورٹس اور ماہر وکیل کے دلائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت نے ٹیلی گراف ایکٹ کے سیکشن 5 یا ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کے سیکشن 54 کے تحت کسی بھی فرد، ادارے یا ایجنسی کو کالز، پیغامات تک رسائی اور پاکستان کے شہریوں کی نگرانی کرنے کا اختیار دینے کی کوئی اجازت نہیں دی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ بغیر اجازت کے ایسا کرنا ایک جرم ہے جس کی سزا ٹیلی گراف ایکٹ، ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ، فیئر ٹرائل ایکٹ اور پیکا کے تحت جرمانہ اور جیل کی سزا ہے، مزید برآں، فیئر ٹرائل ایکٹ ایک تفصیلی طریقہ کار فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے نگرانی کی جا سکتی ہے۔

جسٹس بابر ستار کے مطابق فیئر ٹرائل ایکٹ کی دفعات انٹرا ایگزیکٹو اسکروٹنی کی شکل میں چیک اور بیلنس کے ساتھ مناسب عمل اور نگرانی فراہم کرتی ہیں ( جو متعلقہ وزیر کی طرف سے کی جائے گی، اور پھر وہ نگرانی کی اجازت دے گا اور اس کے بعد ایک جائزہ کمیٹی کے ذریعے کی جائے گی جو وزرا برائے قانون، دفاع اور داخلہ پر مشتمل ہے)۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ فیئر ٹرائل ایکٹ ہائی کورٹ کے جج کے ذریعے نگرانی کے لیے درخواستوں کو منظور کرنے کا انتظام کرتا ہے، ہائی کورٹ کے جج کی طرف سے اس مقصد کے لیے جاری کردہ وارنٹ کے علاوہ کوئی فون ٹیپنگ یا دیگر نگرانی نہیں کی جا سکتی۔

جسٹس بابر ستار نے مزید کہا کہ یہ پہلی نظر میں لگتا ہے کہ ایگزیکٹو/وفاقی حکومت، انٹیلیجنس ایجنسی یا پولیس کا کوئی اہلکار پاکستان کے شہریوں کی نگرانی کرنے کا مجاز نہیں ہے، اس حد تک کے اگر حکومت یا تفتیشی یا انٹیلیجنس ایجنسی کا کوئی بھی ملازم نگرانی کر رہا ہے یا ٹیلی کام کمپنیاں اور سروس پرووائیڈر نگرانی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے اپنی سہولیات فراہم کر رہے ہیں تو ایسے تمام افراد ٹیلی گراف ایکٹ، ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ فیئر ٹرائل ایکٹ اور پی ای سی اے کی دفعات کے تحت جرائم کے لیے ذمہ دار ہیں۔

اس کے بعد انہوں نے فیصلہ دیا کہ اس طرح کی کوئی بھی غیر مجاز نگرانی آئین کے آرٹیکل 9، 10 اے ، 14 اور 19 کے ذریعے ضمانت دی گئی شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہوگی اور اس سے زیر نگرانی شہریوں کی آزادی، وقار اور رازداری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سماعت کی اگلی تاریخ تک، انٹیلیجنس ایجنسیاں، بشمول دیگر، آئی ایس آئی اور آئی بی، اور پولیس حکام کسی بھی شہری کی نگرانی نہیں کریں گے، سوائے فیئر ٹرائل ایکٹ کے تقاضوں اور وارنٹ کے مطابق جو عدالت کے جج کی طرف سے جاری کیے جائیں گے، ہائی کورٹ، اور نہ ہی پی ٹی اے اور نہ ہی ٹیلی کام کمپنیاں اپنی خدمات یا آلات کو کسی بھی نگرانی یا فون کالز یا ڈیٹا کی روک تھام کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دیں گی۔

اس معاملے کی اگلی سماعت 25 جون کو ہوگی۔

رابطہ کرنے پر اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل نے اگلی سماعت سے قبل اسی جج کے سامنے سول متفرق درخواست دائر کرنے کا اپنا ارادہ ظاہر کیا اور امید ظاہر کی کہ عدالت اس معاملے میں کوئی مناسب حکم جاری کرے گی۔

کارٹون

کارٹون : 28 جون 2024
کارٹون : 27 جون 2024