• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:18pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 5:02pm
  • ISB: Zuhr 12:11pm Asr 5:12pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:18pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 5:02pm
  • ISB: Zuhr 12:11pm Asr 5:12pm

امریکی راز افشا کرنے والے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو رہائی مل گئی

شائع June 25, 2024
فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو لندن کی ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہائی دیدی جس کے بعد وہ برطانیہ سے اپنے ملک آسٹریلیا کے لیے روانہ ہوگئے ہیں۔

غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق وکی لیکس نے کہا کہ جولین اسانج کو گزشتہ روز جیل سے رہا کردیا گیا اور وہ برطانیہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں، امریکا کے ساتھ ایک تاریخی معاہدے کے بعد سالوں سے چلنے والے ان کے قانونی ڈرامے کا خاتمہ ہوا۔

وکی لیکس نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں لکھا ’جولین اسانج آزاد ہے‘ جو 5 سال سے برطانیہ میں حراست میں تھے، جہاں وہ فوجی راز افشا کرنے کے الزام میں برطانیہ سے امریکا کو حوالگی کے خلاف قانونی جنگ لڑر رہے تھے۔

یاد رہے کہ جولین اسانج کو 2010 میں امریکی معلومات افشا کرنے پر سزا ہوئی تھی اور وہ 2019 سے برطانیہ کی جیل میں قید تھے۔

تاہم وکی لیکس کے بانی نے رہائی کے بدلے امریکی محکمہ انصاف سے اعتراف جرم پر آمادگی کی ڈیل کی، جس کے بعد انہیں قید سے آزادی مل گئی، اس ڈیل کے باعث اسانج کو مزید سزا نہیں سنائی جائے گی۔

عدالت میں پیش کی گئی دستاویز کے مطابق، انہوں نے قومی دفاعی معلومات حاصل کرنے اور پھیلانے کی سازش کا جرم قبول کرنے پر اتفاق کیا۔

اسانج کو مقامی وقت کے مطابق بدھ کی صبح امریکی حدود میں پیش ہونا ہے، وہ ماریانہ آئی لینڈز کی وفاقی عدالت میں پیش ہوں گے اور جاسوسی ایکٹ کے تحت عائد الزام کو تسلیم کریں گے۔

متوقع طور پر جولین اسانج کو 62 ماہ قید کی سزا سنائی جائے گی، جس میں برطانیہ میں گزارے گئے 5 سال 2 ماہ کا عرصہ شامل ہے، یعنی وہ اپنے آبائی وطن آسٹریلیا واپس جانے کے لیے آزاد ہوں گے۔

آسٹریلوی حکومت نے کہا ہے کہ اسانج کا معاملہ کافی عرصے تک چلتا رہے لیکن اس کی مسلسل قید سے کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔

وکی لیکس کے بانی کی عمر اب 52 سال ہے، جو واشنگٹن کو 2010 سے سیکڑوں ہزاروں خفیہ امریکی دستاویزات شائع کرنے کے لیے مطلوب تھا۔

واضح رہے کہ امریکی حکام عراق اور افغانستان کی جنگوں کے بارے میں فوجی راز افشا کرنے پر اسانج پر مقدمہ چلانا چاہتے تھے، لیکن اب امریکی حکام سے معاہدہ ممکنہ طور پر اسانج کا تقریباً 14 سالہ قانونی ڈرامہ ختم کر دے گا۔

2019 میں وکی لیکس کی جانب سے قومی سلامتی سے متعلق دستاویزات کی اشاعت کے بعد امریکی وفاقی گرینڈ جیوری نے 18 شماروں پر فرد جرم عائد کی تھی۔

وکی لیکس کیا تھا؟

خیال رہے کہ وکی لیکس سب سے پہلے اس وقت منظر عام پر آیا جب اس نے 2010 میں امریکی فوج کی 2007 کی ایک ویڈیو شائع کی تھی جس میں دیکھا گیا تھا کہ بغداد میں اپاچی ہیلی کاپٹروں کے حملے میں رائٹرز کے دو نیوز اسٹاف سمیت ایک درجن افراد ہلاک ہوئے۔

اس کے بعد اس نے سیکڑوں ہزاروں خفیہ فائلیں اور سفارتی کیبلز جاری کیں جو امریکی فوجی تاریخ میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی سیکیورٹی کی خلاف ورزی تھی۔

امریکی پراسیکیوٹرز اور مغربی سیکیورٹی حکام جولین اسانج کو ریاست کا ایک خطرناک دشمن سمجھتے ہیں جن کے لیک کردہ مواد میں نامزد ایجنٹوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی تھیں۔

البتہ جولین اسانج اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں اقتدار میں رہنے والوں کو شرمندہ کرنے کی سزا دی جا رہی ہے اور اگر جرم ثابت ہو گیا تو انہیں 175 سال قید کا سامنا کرنا پڑے گا، حالانکہ امریکی وکلا نے کہا ہے کہ سزا 4 سے 6 سال کے برابر ہو گی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل اگنیس کیلامارڈ نے کہا تھا کہ ’جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کی اجازت دینا اسے بہت زیادہ خطرے میں ڈال دے گا اور دنیا بھر کے صحافیوں کو ایک خطرناک پیغام دے گا۔‘

یہ قانونی جنگ 2010 کے آخر میں شروع ہوئی جب سوئیڈن نے جنسی جرائم کے الزامات پر برطانیہ سے جولین اسانج کی حوالگی کا مطالبہ کیا، جب وہ 2012 میں یہ مقدمہ ہار گئے تو لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے لی جہاں انہوں نے 7 سال گزارے۔

بالآخر اپریل 2019 میں انہیں گھسیٹ کر نکالا گیا تو انہیں برطانوی ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے پر جیل بھیج دیا گیا حالانکہ ان کے خلاف سوئیڈش مقدمہ خارج ہوچکا تھا، وہ جون 2019 سے امریکا کو حوالگی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور اب بھی جیل میں ہیں۔

ایکواڈور کے سفارت خانے میں قیام کے دوران ان کی ساتھی سے 2 بچے پیدا ہوئے جس سے انہوں نے لندن کی بیلمارش ہائی سیکیورٹی جیل میں ایک تقریب میں شادی کی تھی جس میں صرف چار مہمانوں، دو سرکاری گواہوں اور دو محافظوں نے شرکت کی تھی،

کارٹون

کارٹون : 28 جون 2024
کارٹون : 27 جون 2024