• KHI: Fajr 5:21am Sunrise 6:38am
  • LHR: Fajr 4:55am Sunrise 6:17am
  • ISB: Fajr 5:01am Sunrise 6:25am
  • KHI: Fajr 5:21am Sunrise 6:38am
  • LHR: Fajr 4:55am Sunrise 6:17am
  • ISB: Fajr 5:01am Sunrise 6:25am

اردو ادب اور نوحہ خوانی

اردو نوحوں کے سحر کُن اور لرزا طاری کردینے والے اشعار کی وجہ سے سامعین پر یہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے ذہن میں میدانِ کربلا کے مصائب کو محسوس کرنے لگتے ہیں۔
شائع July 17, 2024

یہ زمینِ کربلا ہے، احتیاط سے چلو، یہاں آلِ محمد ﷺ مدفن ہیں’—گمنام شاعر

آرکیٹیکٹ اور ماہر شہری آبادکاری کینڈی چانگ کہتی ہیں، ’ہمارے لیے اہمیت کے حامل مقامات بالکل ویسے ہی رہتے ہیں جیسی ہم انہیں اہمیت دیتے ہیں‘۔

کراچی میں محرم کا چاند نظر آتے ہی شہر کے محلوں میں ایک مخصوص جانی پہچانی سی تبدیلی آتی ہے۔ اس حوالے سے نارتھ ناظم آباد کا ایک گھر بہت نمایاں ہے۔

ہتھوڑوں اور آری کی آوازوں سے فضا گونج اٹھتی ہے جہاں ماہرین، علم بنانے کے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں جس کی چمکدار دھات سے علم مضبوط لگتا ہے۔ گھر کے اندر سوگ کی علامت سمجھا جانے والے ایک بڑے سیاہ کپڑے کو احتیاط سے کھولا جاتا ہے اور اسے علم کے دھات سے بنے ڈھانچے پر لگا دیا جاتا ہے۔ گھر کی اوپری منزل میں موجود سیاہ کپڑے میں لپٹا گہوارہ بھی اپنے آپ میں مختلف معنی سموئے ہوئے ہے۔

یہ سب محرم کی آمد کی علامات ہیں کہ جس مہینے میں 1344 سال قبل امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان سب تیاریوں کے بعد کثرت سے نوحے پڑھے جاتے ہیں۔

اونچا رہے اپنا علم
جب تک ہے دورِ آسماں
سُن لیں گے ہر پیر و جواں
آواز پر شبیر کی بڑھتا رہے یہ کارواں
رُکنے نہ پائے ایک قدم
اونچا رہے اپنا علم

نوحہ خوانی محرم کی شہ رگ کے مترادف ہے کہ جن میں واقعہ کربلا کے المناک پہلوؤں کو یاد کیا جاتا ہے۔ اردو زبان میں تخلیق کیے جانے والے یہ نوحے شاعرانہ اقدار کی عکاسی کرتے ہیں اور محرم کے سوگ، واقعہ کربلا کی یاد، تاریخی ناانصافی، ظلم اور عزاداروں میں آزادی کی دیرینہ خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔

معروف نوحہ ’اونچا رہے علم اپنا‘ جو سب سے پہلے 1960ء کی دہائی میں نوحہ خواں علی محمد رضوی (جو سچے بھائی کے نام سے مشہور ہوئے) نے پڑھا تھا، اب ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور دنیا بھر کے نوحہ خواں اسے پڑھتے ہیں۔

دن گزرتے ہیں تو نارتھ ناظم آباد کا یہ گھر ایک مقدس، قابلِ احترام مقام میں تبدیل ہوجاتا ہے کہ جو عقیدت مندوں کو 61 ہجری میں کربلا کے صحرا میں پیش آنے والے واقعے سے جوڑتا ہے۔ جیسا کہ فرانسیسی سماجی تھیورسٹ ہینری لیفبرے نے بیان کیا ہے، اس طرح یہ صرف ایک مقام نہیں رہتا بلکہ یہ ’تصورشدہ‘ یا ’نمائندہ‘ جگہ بن جاتی ہے۔ ایک ایسی جگہ کہ جہاں سوگ اور تاریخی المیہ کی گونج سنائی دیتی ہے۔ اور ایسا ہر سال ہوتا ہے۔

نوحہ شہدائے کربلا سے عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے شاعرانہ کلمات ہیں جو محض واقعات بتانے سے زیادہ کا کام کرتے ہیں۔ یہ شہدائے کربلا کو یاد کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہینری لیفبرے نے دلیل دی کہ معاشرے میں کوئی مقام مختص نہیں ہوتا بلکہ سماجی قوتیں انہیں تشکیل دیتی ہیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے نوحہ خوانوں جیسے صادق حسین ، سچے بھائی، آفاق حسین، ناظم حسین، جعفر حسین، سید ناصر جہاں اور ندیم سرور نے اردو نوحہ خوانی میں اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ کچھ معروف شعرا جیسے نجم آفندی، انیس پہاڑساری، ریحان اعظمی اور ڈاکٹر ہلال نقوی نے شاعری کے کچھ پیمانے چھو کر اپنے سامعین کو غم و الم کی کیفیت اور اس کے سحر میں جکڑ لیا۔

ان نوحوں کی صدائیں نہ صرف سڑکوں پر سنائی دیتی ہیں بلکہ گھروں اور امام بارگاہوں میں لوگوں کے لیے مختص مقامات پر بھی نوحے پڑھے جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان نوحوں کا کسی مخصوص مقام سے تعلق نہیں، یہاں اپنا مقام خود بنانے والی تھیوری لاگو ہوتی ہے۔ ہینری لیفبرے کا تصور کہ ’ثقافتی عمل معاشرے کو تشکیل دیتے ہیں اور اردگرد کا ماحول ان پر اثرانداز ہوتا ہے‘۔

نوحہ خوانی اور اس کے ساتھ کیا جانے والا ماتم ایک طرح کا احتجاج ہے جسے جنگ کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔ ماتم اور نوحہ خوانی سوگواران کو میدانِ کربلا میں لے جاتی ہیں اور انہیں اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا مضبوط پیغام دیتی ہیں۔

میدانِ جنگ میں انحراف

مولانا حسن امداد کا نوحہ ’امیر لشکر حسینؓ‘ 1972ء کے اواخر میں لکھا گیا تھا۔ اسے سب سے پہلے 1973ء کے ماہِ محرم میں ڈرگ روڈ کراچی میں واقع امام بارگاہ کاظمین میں حیدریہ شبِ بیداری میں سچے بھائی نے پڑھا تھا۔

یہ ذوالفقار حیدری یہ شیر بیشئہ نجف
یہ تیغ تیز ہاشمی نشان جرات سلف
ہر اک کا مرکز نظر کفیل تشنگان طف
کنار نہر علقمہ تمام فوج کا ہدف
کسی سے پر نہ رک سکا امیر لشکر حسینؓ
ہژبر دشت نینوا امیر لشکر حسینؓ

اس نوحے میں حضرت عباسؓ اور صحرائے کربلا کے درمیان ایک خوبصورت تعلق کی منظرکشی کی گئی ہے جس میں صحرا جنگ کے میدان میں تبدیل ہوتا ہے۔ امام حسینؓ کی تلوار اور ہاشمیوں کی تلواروں کا ذکر کیا گیا ہے جوکہ یزید کی افواج کے بالکل برعکس ہیں۔

اس نوحے کے کلمات میں ایسی علامات کا بارہا ذکر کیا گیا ہے جیسے ’بہادران صف شکن‘، ’کفیل تشنگان طف‘ اور ’دلاوران تیغ زن‘ استعمال کیے گئے ہیں۔

ریلیوں میں ’ہژبر دشت نینوا‘ جیسے کلمات میدانِ جنگ میں جبر کی بھرپور نفی کرتے ہیں۔ یہ زندہ رہنے کے حق اور عقیدت مندوں کے دلوں میں ایک آگ کو جنم دیتا ہے۔ تصور کریں کہ نوحوں کی آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ جن میں ایسے الفاظ ہوں، تو ایسے میں یہ ایسا مقام بن جائے گا کہ جو امام حسینؓ اور ان کے رفقا کی انصاف اور آزادی کے لیے لازوال جدوجہد کی علامت سمجھا جائے گا۔ یہ یزید کی آمریت اور تسلط کے بالکل برخلاف ہوگا۔

’ہژبر دشت نینوا‘ اس معرکے کی طاقتور گواہی دیتا ہے، یہ ثبوت دیتا ہے کہ مزاحمت کو تشکیل دینے میں علامات کتنا طاقتور کردار ادا کرتی ہیں۔

   نوحہ پڑھتے ہوئے سچے بھائی کی ایک پینٹنگ—تصویر: فیس بُک
نوحہ پڑھتے ہوئے سچے بھائی کی ایک پینٹنگ—تصویر: فیس بُک

میدانِ جنگ کی ایک اور وضاحت

نجم آفندی کی جمع کردہ کلمات کی تصنیف (جو 1977ء میں شائع ہوئی) میں شامل ایک مرثیہ کا عنوان ’اے اسلام کی طاقت کا جوہر، چھوٹا جنگجو‘ سید ناصر جہاں نے نوحہ کے طور پر پڑھا۔ یہ امام حسینؓ کے شیر خوار فرزند حضرت علی اصغر کی شہادت کی جھلک پیش کرتا ہے۔

اے معرکہ قوت اسلام کے جوہر
چھ ماہ کی مدت میں قیامت کے برابر
ننھے سے مجاہد، علی اصغر علی اصغر
بابا کے سب انداز ہیں دادا کے طریقے
نیند آگئی ریتی پہ، نہ تکیہ ہے نہ بستر
اے ننھے سے مجاہد، علی اصغر علی اصغر

اس نوحے میں سانحے کو قیامت سے واضح تشبیہ دی گئی ہے۔ اس میں حضرت علی اصغر کی معصومیت کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو شہادت کے وقت محض 6 ماہ کے تھے۔ یہاں ایک بار پھر نوحے کے اشعار میدانِ جنگ کی منظرکشی کررہے ہیں۔ یہاں یہ میدانِ جنگ لڑائی کے بجائے ننھے شہید کے گہوارے میں تبدیل ہوگیا ہے۔

نوحے میں ’نیند‘ کو، موت، ’صحرا کی تپتی ریت‘ میں جنگ کی تلخ حقیقت کے درمیان شہادت اور مصائب کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ الفاظ کا یہ امتزاج مقامِ کربلا کی عکاسی کرتا ہے کہ جو اُس وقت مصائب اور قربانی کی علامت بنا ہوا تھا۔ تکیہ اور بستر نہ ہونے کی بات ظاہر کرتی ہے کہ ایک ننھے بچے کو اس وقت وہ چیزیں میسر نہیں تھیں جن کی ایک ’عام‘ بچے کو سونے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔

غم کے گہرے سائے

ایک اور اردو نوحہ ’مصیبت کی گھڑی اور شام کے بڑھتے سائے‘ 1990ء دہائی کے اوائل میں سچے بھائی نے لکھا اور پڑھا۔ یہ اس غم اور نقصان کی عکاسی کرتا ہے کہ جس سے امام حسینؓ کے خاندان والے گزرے بالخصوص حضرت علی اکبر کی شہادت کے بعد۔

مصیبت کی گھڑی
گزر جانا ہی لکھا ہے جوانی اگر یا رب
گزرنے سے علی اکبر کے پہلے ماں گزر جائے
کوئی اندازہ کرسکتا ہے دردِ قلبِ لیلا کا
نظر کے سامنے جس کے بیٹے نوکِ سنا کھائے
مصیبت کی گھڑی

نوحے کا آغاز ’شام کے بڑھتے سائے‘ سے ہوتا ہے جو غم کی گھڑی کی منظر کشی کرتا ہے، ایک ایسی جگہ جسے حضرت علی اکبر کی شہادت کا دکھ اپنے گھیرے میں لیے ہوئے تھا۔ ’تڑپتی رہ گئی ماں‘ اور ’جوان کی لاش پیری میں اٹھانا ایک قیامت ہے‘ اس جسمانی اور جذباتی کرب کو ظاہر کرتے ہیں جن سے اہلِ بیت بالخصوص ایک ماں گزری۔

یہ ان چند نوحوں میں سے ایک ہے جو اپنے سحر کُن اور لرزا طاری کردینے والے اشعار کی وجہ سے سامعین پر وہ کیفیت طاری کردیتا ہے کہ وہ اپنے ذہن میں میدانِ کربلا کے مصائب کو محسوس کرنے لگتے ہیں۔

کربلا کی صدائیں

معروف نوحہ ’اب آئے ہو بابا‘ شاہد نقوی نے لکھا۔ کہا جاتا ہے کہ لیجنڈری عزت لکھنوی نے اس کا ڈیبیو کیا اور یہ وہ پہلا نوحہ تھا جوکہ پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا۔ اس نوحے میں امام حسینؓ کی ہمشیرہ سیدہ زینبؓ اور زندہ بچ جانے والی خواتین اور بچوں کے رنج کی نمائندگی کی گئی ہے جس کا حضرت زینبؓ نے ثابت قدمی سے مقابلہ کیا۔

اب آئے ہو بابا
جب لوگ بچا لے گئے لاشے شہدا کے
حق اپنا جتا کے
بس ایک تن شبیر کا پامالی کی زد پر
اب آئے ہو بابا

ایک بار پھر کربلا میں رونما ہونے والے المیہ کی گواہی دی جارہی ہے کیونکہ یہ میدان لڑائی کے بجائے مقتل گاہ بن چکا ہیں، خیمے اجڑ گئے تھے اور حضرت زینبؓ سوگ منا رہی ہیں۔

نوحے میں مختلف مقامات سے بھی موازنہ کیا گیا ہے۔ جیسے ’اماں کا بھرا گھر‘ ، رشتوں سے بھرے گھرانے، سکون اور تحفظ کے احساس کی نشاندہی کرتا ہے۔ جو ’پردیس‘ کی تلخ حقیقت سے بالکل پرے ہے کہ جو بلاشبہ جنگ کا میدان ہے، ایک ایسا مقام جو بالکل بیگانہ ہے اور جہاں انہوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے۔

یہ ایک بار پھر کربلا کی، تکالیف سے بھرے مقام کے طور پر نمائندگی کرتا ہے۔ خیمہ جو پناہ اور عارضی تحفظ فراہم کرتا ہے، اسی کو پامال کیا گیا، لوٹ کر جلا دیا گیا۔

  عزاداران کراچی میں نکالے گئے محرم کے جلوس میں نوحے پڑھ کر قاوعہ کربلا کو یاد کرتے ہیں—تصویر: اے ایف پی
عزاداران کراچی میں نکالے گئے محرم کے جلوس میں نوحے پڑھ کر قاوعہ کربلا کو یاد کرتے ہیں—تصویر: اے ایف پی

انگاروں پر چلنا

’نوحہ کشت عالم میں زینب کو بھلا آرام کہاں‘، ریحان اعظمی نے تحریر کیا جبکہ ناصر زیدی نے اسے پڑھا، خاندانِ رسالتﷺ کے مصائب کی بھرپور منظرکشی کرتا ہے۔ نوحے کے کلمات میں واقعہ کربلا کے المناک پہلوؤں، بشمول حضرت امام حسینؓ، حضرت عباسؓ، حضرت علی اصغر اور حضرت علی اکبر کی شہادت کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس نوحے میں خاندانِ رسالتﷺ کی خواتین اور بچوں کی آپ بیتی بھی شامل ہے جنہیں تپتے صحرا میں خوراک اور پانی کے بغیر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس نوحے میں یزید اور اس کے ساتھیوں کی جانب سے جبر، ناانصافی، کرب اور اپنے پیاروں کو کھو دینے کے دکھ کو بیان کیا گیا ہے۔

بچے جو خاک پہ گرتے ہیں کُچل جاتے ہیں
غم سے دل ماؤں کے سینے سے نکل جاتے ہیں
کوئی سُنتا نہیں بیواؤں کی فریاد و بُکا
آرام کہاں

پورے نوحے میں ایسی بہت سی چیزوں کا ذکر ہے کہ جس سے اس مقام کی آپ کے ذہن میں مکمل تصویر کشی ہوگی اور وہاں واقعات کیسے رونما ہورہے تھے۔ خاک، مقتل اور دریا اس وقت مقامِ جنگ کو بیان کرتے ہیں۔ نوحے میں کچھ الفاظ ایسے ہیں کہ جن سے میدانِ جنگ میں موجود افراد کی جذباتی کیفیت کی عکاسی ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر نوحے میں کچھ کلمات کا مفہوم یہ ہے کہ نبیﷺ کے خاندان کے ’بچے جو خاک پہ گرتے ہیں کُچل جاتے ہیں‘ اور خواتین غم کے دریا میں ڈوب رہی تھیں۔ دریا اور صحرا جیسے الفاظ نے ایسی منظرکشی کی ہے کہ سننے والا خود کو اسی ماحول میں پاتا ہے۔ یہی منظرکشی کربلا کے المیے کو بہتر انداز میں لوگوں تک پہنچانے میں اہم کردار کرتی ہے۔ نبی محمد ﷺ کی عیال ایک وسیع دنیا میں کہیں کھو سی گئی ہے اور جانی دشمنوں نے انہیں گھیرے میں لیا ہوا ہے۔

آرام کہاں
قافلہ جاتا ہے اب شام کے بازاروں میں
چلتے ہیں اہلِ حرم ظلم کے انگاروں میں
ہر قدم ہوتی ہے بیمار پر اِک تازہ جفا
آرام کہاں

یہاں انگاروں پر چلنے کے استعارے کو ایسے راستے کے معنی میں لیا جاسکتا ہے جو تکالیف اور ذہنی اذیت سے بھرپور ہے۔ انگاروں پر چلنا ایک طرح سے آپ کو دیگر لوگوں سے ’منفرد‘ بناتا ہے۔ تو چلنے کے عام انسانی عمل میں انگارہ شامل کرکے اس کے اس موقع کے تجربات کو ظاہر کیا گیا ہے۔

بازار کو اس معاشرے کے چھوٹے سے حصے کے طور پر بتایا گیا کہ جہاں اہلِ حرم اور ان کے رفقا کو مصائب سے گزرنا پڑا، جبر کے انگاروں سے بھرپور یہ راستہ بار بار یاد دلاتا ہے کہ انہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے۔ وہ ایک ایسے علاقے سے گزرنے پر مجبور ہیں جوکہ ان کے دشمنوں کے ماتحت ہے اور انہیں وہاں مسلسل توہین اور مصائب سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ مقامی سطح کا یہ ماحول اہل حرم اور ان کے مخالفین کے درمیان طاقت کے عدم توازن کو تقویت دیتا ہے۔

دربار میں جنبش

نوحہ ’شام کا بازار، عابد بیمار‘، پہلی بار 1982ء میں کراچی حسین آباد، گلبہار (گولیمار) میں انجمن تبلیغِ امامیہ کے معروف نوحہ خوان ناظم حسین نے شب بیداری میں پڑھا تھا۔ یہ نوحہ واقعہ کربلا میں زندہ بچ جانے والے واحد مرد حضرت امام زین العابدینؓ پر کیا گزری ہوگی، اسے بیان کرنے کی کوشش ہے۔ تاہم درج ذیل اشعار میں اہلِ بیت کی خواتین کے یزید کے دربار میں آمد سے متعلق ہیں۔

دربار میں سر عریاں آتے ہیں گریاں
اٹھنے گا اک طوفان محشر کا سا ہے سما
جنبش میں ہے دربار، شام کا بازار، عابد ہے بیمار

یہ کلمات اس ماحول کو بیان کرتے ہیں کہ جہاں وہ دربار لگا تھا۔ ’دربار‘ جسے عام معنوں میں انصاف سے منسلک کیا جاتا ہے، وہاں اس وقت احتجاج میں آوازیں اٹھ رہی ہیں اور قابلِ احترام اہلِ حرم کی تقاریر گونج رہی ہیں۔ یہ تجربات سماجی ماحول پیدا کرتے ہیں اور کیسے اقتدار کے ڈھانچے اور واقعات ہمارے ماحول اور تصورات کو تشکیل دیتے ہیں۔ شاید یہ احتجاج سماجی نظام کو چینلج کررہا تھا۔

جنبش میں ہے دربار ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت طاقت کا ڈھانچہ خود کو کتنا کمزور محسوس کررہا تھا۔

تاریخ کا بوجھ

مذکورہ نوحے اردو ادب میں موجود نوحوں کے وسیع خزانے کی صرف ایک جھلک ہیں۔ اس کے علاوہ جن نوحوں کا قابلِ ذکر ہیں ان میں نجم آفندی کا تحریر کردہ ’مسافروں کو مدینہ سلام کہتا ہے‘ جسے ناصر جہان نے پڑھا، نواب عارف کا تحریر کردہ ’یہ سوچتا ہوں‘ جسے استاد فتح علی خان اور اسد امانت علی نے پڑھا، شوکت بلگرامی کا لکھا اور صابرہ کاظی کی آواز میں ’بیوہ شبیر کی رو کر پکاری‘، سچے بھائی کی جانب سے پڑھا گیا ’تقدم ولدی‘ جسے مولانا حسن امداد نے لکھا، ریحان اعظمی کا لکھا کلام ’اچھی نہیں یہ بات‘ جسے ندیم سرور نے پڑھا اور ناصر جہان کی جانب سے پڑھا گیا ’گھبرائے گی زینب‘ جو کہ چندو لال دلگیر نے لکھا، شامل ہیں۔

نوحہ کے کلمات، اشعار، اس میں موجود علامات اور منظرکشی کی طاقت معاشرے کے افراد کو ایک مشترکہ شناخت دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پھر چاہے وہ کربلا کے صحرا، شہدا کا مقتل ہو، خیمے لوٹنا سب کی منظرکشی کرتے ہیں لیکن یہ مصائب کے ساتھ ہی لازوال بہادری، اور قربانی کے اس جذبے کو بھی ظاہر کرتے ہیں جو حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں نے دکھایا۔

ثقافتی ماہرِ بشریات لیلیٰ احمد نے ایک بار کہا تھا، ’ماتمی جلوس میں نوحے کی گونج، اس کے شرکا سے بھری گلیوں کو یادوں میں لے جاسکتی ہے اور اس کے شرکا کو تاریخ کے بوجھ کو تسلیم کرنے پر مجبور کرسکتی ہے‘۔

وقت کا تقاضا ہے کہ اس مقبول، غیر محسوس اور اہم ورثے کو علمی اعتبار سے اہمیت دی جائے تاکہ لوگ اس کے ادبی پہلوؤں کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔

اپنے اپنے صنف و سن کے کیسے نمائندے نکلے
کرب و بلا کے تپتے بن میں چھانٹ کے جن کو لائے حسینؓ
شام و کوفہ منزل منزل سر تھا نیزے پر ہمراہ
زینب کا کیا ساتھ دیا تھا، زینب کے بھائی حسینؓ


ہیڈر: 1990ء میں ایم ایف حسین کی جانب سے بنائی گئی پینٹنگ ’کربلا‘۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

منصور رضا

لکھاری پی ایچ ڈی اسکالر اور کراچی میں مقیم اکیڈمک اور اربن ریسورس سینٹر کراچی کے بورڈ ممبر ہیں۔ آپ سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔