• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:17pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:38pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:39pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:17pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:38pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:39pm

’برطانیہ میں نسل پرست واقعات کی حالیہ لہر تاریک ماضی کی یاد تازہ کرتی ہے‘

حالیہ نفرت انگیز واقعات کے بعد برطانیہ میں پہلی بار مجھے غیریقینی کا احساس ہوا کہ جس ملک کو آپ اپنا گھر سمجھتے ہیں وہاں بھی آپ خود کو خطرے میں محسوس کرسکتے ہیں۔
شائع August 12, 2024

گزشتہ چند ہفتوں سے جاری انتہائی دائیں بازو گروہوں کے پُرتشدد مظاہروں نے برطانیہ کی تاریک و بدنام تاریخ کو ایک بار پھر زندہ کردیا ہے۔

فسادات کا آغاز 29 جولائی کو ہوا کہ جب ساؤتھ پورٹ میں گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ کے تھیم پر مبنی ڈانس ورکشاپ میں چھ سالہ بےبے کنگ، سات سالہ ایلسی ڈاٹ اسٹین کامبی اور نو سالہ ایلس ڈیلکا ایگوئیر پر چاقو سے حملہ کیا گیا۔ ان کی موت نے غم و غصے کا طوفان برپا کیا اور نسل پرستانہ بیان بازی اور عدم برداشت کا سفاک مظاہرہ برطانیہ میں دیکھا گیا۔

پہلے پہل میں نے اس پر اتنی توجہ نہیں دی لیکن جلد ہی بے یقینی کے احساس نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ مجھے خوف اس وقت محسوس ہوا جب پیر کو فلیٹ میں میرے ساتھ رہنے والی ساتھیوں نے رات گئے مجھے غیرمتوقع طور پر مسیج کیا۔ انہوں نے مجھے گھر یا اسٹیشن چھوڑنے کی پیش کش کی اور یہی وہ وقت تھا کہ جب مجھےحالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا اور مجھے خوف محسوس ہوا۔

کام کے سلسلے میں گھر سے نکلنے اور گھر واپس جانے میں مجھے ڈر لگا وہ بھی صرف اس لیے کیونکہ میں مسلمان بالخصوص جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتی ہوں۔ جیسے جیسے رات کے سائے گہرے ہوتے گئے، تمام رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے میرے دوستوں نے مجھے پیغامات بھیجے اور تصدیق کی کہ کیا میں گھر خیریت سے پہنچ گئی ہوں۔

اس کے علاوہ انہوں نے زور دیا کہ میں اکیلے باہر نکلنے سے اجتناب کروں اور گھر سے ہی دفتر کا کام کروں۔ میری والدہ جو پاکستان میں رہتی ہیں، انہوں نے بھی مجھ سے یہی کہا اور زور دیا کہ میں اپنی حفاظت کی غرض سے گھر سے کام کرنے کی اجازت طلب کروں۔

  شمالی آئرلینڈ بیلفاسٹ میں کیفے کو نذرِ آتش کردیا گیا—تصویر: رائٹرز
شمالی آئرلینڈ بیلفاسٹ میں کیفے کو نذرِ آتش کردیا گیا—تصویر: رائٹرز

جب میری جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے اپنے دوستوں سے بات ہوئی تو سب بےچینی کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ بہت سے دوستوں نے اپنے معمولات زندگی منسوخ کردیے اور اپنی حفاظت کو ترجیح دی۔ فضا میں تناؤ کی کیفیت تھی جو اس سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہیں کی۔

تارکین وطن کے طور پر پہلی بار مجھے لگا کہ نسل اور مذہب کی بنیاد پر مجھے تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک عجیب اور بے یقینی کا احساس تھا کہ جس ملک کو آپ اپنا گھر سمجھنے لگے ہیں وہاں آپ خود کو خطرے میں محسوس کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان جسے غیرمحفوظ ملک تصور کیا جاتا ہے، وہاں سے آنے والے لوگوں کو تو یہاں تحفظ کا احساس ہونا چاہیے تھا۔

غلط معلومات سے انتشار کو ہوا ملی

تینوں بچیوں کی دل دہلا دینے والی اموات کے بعد ملک بھر میں انتشار پھیلا جس میں غلط معلومات جنگل کی آگ کی طرح تیزی سے پھیلیں۔ جھوٹا دعویٰ کیا گیا کہ حملہ آور ایک مسلمان شخص تھا جس کا نام ’علی الشکاتی‘ تھا۔ جلتی پر تیل کا کام ایک سنسنی خیز کہانی نے کیا جس میں کہا گیا کہ وہ 2023ء میں ایک کشتی کے ذریعے غیر قانونی طور پر برطانیہ آیا تھا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ علی الشکاتی نام کا کوئی شخص ہے ہی نہیں۔ غلط معلومات پر مبنی اس بیانیے نے ان لوگوں کو پُرتشدد اقدامات کی جانب اکسایا جنہیں مغربی میڈیا نے ’انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند‘ قرار دیا۔ تاہم سیاسی زبان میں ان لوگوں کو محض دائیں بازو کے مظاہرین کہا جارہا ہے اور ان کی نفرت آمیز رویوں پر پردا ڈالا جارہا ہے۔ حقیقت میں یہ لوگ انتہا پسند، اسلاموفوبیا اور انتہائی اعلیٰ درجے کی نسل پرستانہ سوچ رکھتے ہیں۔

   3 اگست 2024 کو برطانیہ کے شہر ہل میں ہنگامہ آرائی کے دوران سیکورٹی فورسز عمارت کی سیکیورٹی پر مامور ہیں—تصویر: رائٹرز
3 اگست 2024 کو برطانیہ کے شہر ہل میں ہنگامہ آرائی کے دوران سیکورٹی فورسز عمارت کی سیکیورٹی پر مامور ہیں—تصویر: رائٹرز

ان مخصوص گروہوں نے برطانیہ کی سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کی، دکانوں، ہوٹلز اور تارکین وطن کو پناہ دینے والے مقامات کو ’انہیں واپس نہ بھیجنے‘ پر تباہ کردیا۔ ان پُرتشدد اور خوفناک حالات نے جلد ہی ملک بھر میں غیریقینی کی صورتحال پیدا کی جبکہ بہت سے لوگ اپنی کمیونٹیز میں خود کو کمزور محسوس کرنے لگے۔

اگرچہ تارکین وطن اور پناہ کے متلاشیوں کے خلاف انتہائی دائیں بازو کا رجحان دنیا کے سامنے ہے لیکن اس معاملے کی تفصیلات کی محتاط تصدیق کی ضرورت ہے۔

ٹام ورتھ میں ہونے والا حملہ دنیا بھر کی شہ سرخی بنا جہاں انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے ’ہولی ڈے ان‘ نامی پناہ گزینوں کے مرکز کو نشانہ بنایا۔ فسادیوں نے دھاوا بول کر عمارت کو آگ لگانے کی کوشش کی جس نے تارکین وطن کے خلاف نفرت میں وسیع اضافے کی عکاسی کی۔

یہ واقعات تارکین وطن کے خلاف بڑھتی ہوئی دشمنی کو اجاگر کرتے ہیں جن کے خلاف غلط معلومات پھیلائی جاتی ہیں اور انہیں سیاسی طور پر مفادات کے لیے قربان کردیا جاتا ہے۔ یہ نسل پرستی اور زینوفوبیا کے ساتھ برطانیہ کی پریشان کن تاریخ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ حالیہ بدامنی کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی کیونکہ برطانوی قوم میں ایک بار پھر انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی سر اٹھا رہی ہے۔

نسل پرستانہ بیان بازی

برطانیہ میں انتہائی دائیں بازو کے فسادات کو جزوی طور پر سیاسی شخصیات اور میڈیا آؤٹ لیٹس سے منسوب کیا جا سکتا ہے جو اصل مسائل سے توجہ ہٹانے اور وسیع تر معاشی ناکامیوں کے لیے تارکین وطن کو قربانی کے بکرا بنا رہے ہیں۔

یوکرین جنگ اور کورونا کے اثرات نے برطانیہ کی معیشت کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے۔ کچھ سیاست دانوں نے عوامی توجہ ایک بڑے مسئلے کے طور پر تارکین وطن کی جانب مرکوز کرنے کی کوشش کی حالانکہ حقائق اس کے منافی ہیں۔ اس بیان بازی نے نہ صرف عداوت اور بغض کو جنم دیا بلکہ اس دوران اہم چیلنجز کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔ معاشی اور سماجی پریشانیوں کی وجہ تارکین وطن کو قرار دینے نے نفرت کی فضا پیدا کی جس سے کمیونٹیز میں خوف اور تقسیم نے جنم لیا۔

حالیہ واقعات سے تارکین وطن اس دور کو یاد کرتے ہیں جب ’پاکی بیشنگ‘ عروج پر تھی اور جنوبی ایشیائی ممالک کے لوگوں کو سڑکوں پر انتہا پسندوں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کا خوف لاحق ہوتا تھا۔

’پاکی بیشنگ’ کی اصطلاح پہلی بار 1970ء میں مشرقی لندن سے سامنے آئی۔ یہ ایک ایسا دور جب انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند جنوبی ایشیائی تارکین وطن، بالخصوص پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آنے والے تارکین وطن پر حملہ کرتے تھے۔ ان کمیونٹیز کو جسمانی حملوں، زبانی بدسلوکی اور نظام کی بنیاد پر امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مہم نیشنل فرنٹ جیسے انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کے ذریعے چلائی گئی۔ اس کی وجہ سے خوف کی فضا قائم ہوئی جس نے نسلی مساوات اور نفرت انگیز جرائم کے خلاف تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔

’پاکی‘ ایک نامناسب اصطلاح تھی جو 1960ء کی دہائی میں اس وقت سامنے آئی کہ جب نسلی کشیدگی بڑھ رہی تھی اور جنوبی ایشیائی تارکین وطن برطانیہ آرہے تھے۔ یہ اصطلاح انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کے لیے 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں جبر اور نسلی دشمنی کے وسیع تر ایجنڈے کی علامت بنی۔

  3 اگست 2024 کو لیورپول میں رات تک ہنگامے جاری رہنے کے بعد مظاہرین نے آتش بازی کی—تصویر: رائٹرز
3 اگست 2024 کو لیورپول میں رات تک ہنگامے جاری رہنے کے بعد مظاہرین نے آتش بازی کی—تصویر: رائٹرز

لندن چیسٹ ہسپتال جہاں ایک تہائی عملہ جنوبی ایشیائی لوگوں پر مشتمل تھا، وہ ان حملوں کا مرکز بن گیا۔ ایک رات دو جنوبی ایشیائی ملازمین جو کام پر جارہے تھے، ان پر انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے وحشیانہ حملہ کیا۔

اس واقعے کی کوریج میں دی آبزرور نے پہلی بار ’پاکی بیشنگ‘ کا عوامی تذکرہ کیا جس میں انتہا پسندوں کی کارروائیوں کو ہٹلر کے نوجوانوں سے تشبیہ دی گئی تھی۔ کچھ ہی دن بعد ایک 50 سالہ جنوبی ایشیائی شخص توصیر علی جو اپنے گھر جارہے تھے، انتہا پسندوں نے قتل کردیا۔ یہ خوفناک واقعہ برطانیہ کی شہ سرخی بنا۔

1978ء میں التاب علی کا قتل ایک اور المناک سنگ میل ثابت ہوا۔ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ٹیکسٹائل ورکر التاب کو لندن میں نسلی بنیاد پر قتل کردیا گیا تھا۔ ان کی موت نے مقامی کمیونٹی کو نسلی تشدد کے خلاف مؤقف اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ بربریت کے اس عمل نے برطانیہ میں نسل پرستی کو بڑے پیمانے پر اجاگر کیا۔ بالخصوص مشرقی لندن میں انتہائی دائیں بازو کے عناصر اکثر جنوبی ایشیائی باشندوں کو دہشت میں مبتلا کررہے تھے۔

التاب علی کی موت ایک تحریک کی بنیاد بنی جس کے نتیجے میں منظم مظاہرے شروع ہوئے اور بالآخر وائٹ چیپل کے ایک پارک کا نام تبدیل کرکے اسے التاب سے منسوب کیا گیا جس نے نفرت کے خلاف کمیونٹی کی جدوجہد کی یادگار کے طور پر کام کیا۔

تاہم گزرتے سالوں میں تشدد کی یہ کارروائیاں تواتر سے ہونے لگیں جس میں ’پاکی بیشنگ‘ برطانیہ بھر میں ایک ہولناک حد تک عام رواج بن گیا۔ 1970ء اور اور چند سالوں بعد اس کا دائرہ برطانیہ سے باہر بھی پھیل گئی اور اس کے واقعات ٹورنٹو، کینیڈا میں بھی رپورٹ ہوئے۔ اس مضموم مہم کا ایک اہم لمحہ وہ تھا کہ جب بیلفاسٹ میں ایک خاتون نے اپنی بیٹی کے ساتھ سڑکوں پر پریڈ کرتے ہوئے ’پاکیز آؤٹ، پاکیز آؤٹ‘ کا نعرہ لگایا جو نسل پرست نفرت کے ایک ہولناک پہلو کی نشاندہی کرتا ہے۔

کیا بہتری کی کوئی امید ہے؟

انتہائی دائیں بازو کی، اسلامو فوبک تنظیم انگلش ڈیفنس لیگ جیسے گروپ ٹیلی گرام اور دیگر پلیٹ فارمز کو اپنے حامیوں کو متحرک کرنے اور پناہ گاہوں، امیگریشن دفاتر کے ساتھ ساتھ مساجد کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ دھڑے اپنے تفرقہ اور اشتعال انگیز ایجنڈے کا پرچار کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔

پُرتشدد واقعات میں اضافے کے بعد برطانیہ بھر میں ہزاروں افراد نے ریلی نکالی جس میں اتحاد اور رواداری کا پیغام دیا گیا۔ انتہائی دائیں بازو نے بھی مارچ کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن وہ ناکام رہے کیونکہ لندن، برمنگھم اور مانچسٹر جیسے شہروں میں ان کی مخالفت میں بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر آئے۔

  7 اگست 2024ء کو لندن میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرہ کیا—تصویر: رائٹرز
7 اگست 2024ء کو لندن میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرہ کیا—تصویر: رائٹرز

7 اگست کو لندن میں انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کے خلاف ایک بڑے مظاہرے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ یہ ریلی اسی دن منعقد کی گئی کہ جس دن انتہا پسند نفرت کا پرچار کرنے ریلی نکالنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ مظاہرین نے وسطی لندن میں مارچ کرتے ہوئے ’نازیوں کو ختم کرو‘ اور ’نفرت کے لیے کوئی جگہ نہیں‘ جیسے نعرے لگائے۔

مانچسٹر میں ایک اور مظاہرے میں بھی انتہائی دائیں بازو کے پروگرام کی مخالفت کرنے والے مظاہرین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مظاہرین ’نازیوں کو ختم‘ اور ’نسل پرستی ختم کرو‘ کے نعروں کے بلند کررہے تھے جس سے ظاہر ہوا کہ وہ انتہائی دائیں بازو کے نظریات رکھنے والی کمیونٹی کو وہ مسترد کرتے ہیں۔

ان مظاہروں میں متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو غیر انسانی اور پرتشدد بیانیے کی مخالفت میں اکٹھے ہوتے دیکھا گیا۔ انتہا پسندوں کی مخالفت کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے نفرت کو مسترد کرنے اور کثیر الثقافت کو برقرار رکھنے کے اجتماعی عزم پر زور دیا۔ بہت سے لوگوں نے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے بجائے یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا۔

نئی حکومت کو دباؤ کا سامنا ہے۔ نو منتخب وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے COBRA (کیبنٹ آفس بریفنگ روم) کا اجلاس بلایا اور نسل پرستانہ بیان بازی کی مذمت کی۔ انہوں نے فسادات، تشدد اور نفرت انگیز جرائم کے لیے 15 سال تک قید و دیگر سخت سزائیں تجویز کی ۔

  —تصویر: رائٹرز
—تصویر: رائٹرز

اگرچہ اسٹارمر کی نسل پرستی کا مقابلہ کرنے کا عزم واضح ہے لیکن COBRA کے غور و خوض اور قانون سازی کی تجاویز کی تفصیلات سامنے آنی چاہئیں اور سرکاری بیانات سے ان کی تصدیق کی بھی ضرورت ہے۔

اس طرح کے پرتشدد بیانات اور کارروائیوں کا یوں دوبارہ سر اٹھانا برطانیہ کو اپنے پریشان کن ماضی میں دھکیل رہا ہے۔ یہاں نسل پرستی گہرائی تک سرایت کرچکی ہے جسے ختم کرنے کے چینلج کا سامنا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئندہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں۔

میں 2017ء میں پاکستان سے لندن بہتر تعلیمی اور پروفیشنل مواقع کے لیے آئی تھی اور مجھ جیسے اور بھی لوگ ہیں جو انہیں مقاصد کے تحت برطانیہ آئے ہیں۔ میری فیملی پاکستان میں ہی ہے جبکہ میرا سفر جدید دور کے تارکین وطن کے پیٹرن کی نشاندہی کرتا ہے۔

گزشتہ ہفتوں کے پُرتشدد واقعات نے مجھ جیسی پاکستانی خاتون کو انتہائی پریشان کیا جو برطانیہ کی دلی احترام کرتی ہے کیونکہ اس ملک میں مجھے میرا دوسرا گھر ملا۔ میڈیا پلیٹ فارمز اور چند سیاست دانوں کی جانب سے غلط معلومات اور اشتعال انگیز بیان بازی نے نہ صرف جنونی ایشیائی لوگوں کو بلکہ دیگر رنگ ونسل کے لوگوں کو ببھی خدشات میں مبتلا کیا ہے۔

اپنے پیاروں کی صورتحال جاننے کے لیے بار بار ان کی خیریت دریافت کرنا خود اپنی خیریت انہیں بتانا اچھا احساس نہیں جبکہ خوف کی وجہ سے ہمیں گھروں میں رہنے کے مشورے دیے جارہے ہیں۔ میڈیا پلیٹ فارمز جنہوں نے نفرت انگیز تقریر کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے صرف بیگانگی اور خطرے کے احساس کو مزید گہرا کرتے ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کے مخالف مظاہروں کا مشاہدہ کرنے اور اپنے دوستوں کی طرف سے ملنے والی محبت سے مجھے امید اور حوصلہ ملا۔ ان کی یکجہتی اور خیال کو دیکھ کر مجھے خوشی ملی۔ وسیع پیمانے پر منفی اور نفرت کے پرچار کے باوجود برطانیہ میں میرے دوستوں نے مجھے یاد دلایا کہ ایک بہت بڑی اکثریت انسانیت، اتحاد اور مضبوط اخلاقی اقدار کے لیے کھڑی ہے۔

شدید تعصب کے باوجود اپنے دوستوں کے رویوں سے مجھے احساس ہوا کہ رحمدلی اور اتحاد کے لیے امید مضبوط اور پائیدار ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

منال اعجاز

لکھاری سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں تعلیم یافتہ ہیں اور وہ جنوبی ایشیائی، مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیائی، امریکا اور برطانیہ کی سیاست پر خصوصی نظر رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ معروف برطانوی ٹاک شو ‘Piers Morgan Uncensored’ پر ٹی وی پروڈیوسر کے طور پر کام کر رہی ہیں جہاں وہ عالمی سیاست سے لے کر تفریح ​​تک تمام موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔