ڈان تحقیقات: کراچی کے پانیوں میں ریت کے قلعوں کی تعمیر
سمندری درخت خلا سے زیادہ بہتر دکھائی دیتے ہیں کیونکہ صرف سیٹلائٹ کی آنکھ ہی اس قدرتی ہریالی کے ساتھ انصاف کرسکتی ہے، تاہم زمین کی سطح پر ہاکس بے کے مینگرووز قدرت کی تخلیق کا ایک خوبصورت نظارہ رہے، خاص طور پر جس طرح یہ کانٹے دار جھاڑیاں پانی پر ٹھہری ہوئی ہیں، ان کا یہ راز پانی کی سطح کے نیچے چھپی ہوئی گھومتی ہوئی شاخوں پر کھڑا ہونا ہے۔
یہ تسلیم کرنا اچھا نہیں ہے لیکن کراچی کے مینگرووز کی دیکھ بھال کے لیے توجہ طلب کرنا انتہائی مشکل کام ہے، ہمیں کسی نئی رپورٹ میں ان کے غائب ہونے کی اطلاع ملے گی، ہم نے صرف ان کے بارے میں اتنا ہی پڑھا ہے کہ وہ غائب ہوتے رہتے ہیں۔
اس محفوظ مینگروو جنگل کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ شہر سے میلوں دور بحیرہ عرب کے کنارے واقع ہے جہاں سمندر کی ٹھنڈی نمکین ہوا ہے۔ کراچی کے آخری چند مقامات میں سے ایک ہونے کی وجہ سے مینگرووز سے بھری یہ جھیل خطرے سے دوچار ہے، جو اپنے بڑے سائز 650 ایکڑ رقبے کی وجہ سے غیرمحفوظ ہے۔
ان کی آنکھیں دیکھ رہی تھیں
شیراز اور دیگر بلوچ مرد حضرات 10 قدم کے فاصلے پر کھڑے ہوکر دیکھ رہے تھے، جب تقریباً 2 سال قبل جھیل کے گرد دیوار کو اونچا کیا گیا، اس دیوار کو 8 فٹ کے فاصلے سے ایچ کی شکل کے اسٹیل کے بیم لگاکر تعمیر کیا گیا اور ان کے درمیان کنکریٹ کی سلیب لگائی گئیں، کسی بھی علاقے پر قبضہ کرنے کا یہ سب سے سستا اور تیز ترین طریقہ ہے۔
شیراز اور حاجی احمد گوٹھ میں رہنے والا شخص ہاکس بے کی ہرٹس کی دیکھ بھال کا کام کرتے ہیں، ان لوگوں کو اس بات کا اندازہ تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے اور جب انہوں نے 10 بجے سے سورج کے غروب ہونے تک روزانہ کی بنیاد پر ریت سے لدے ڈمپر کی آمدوروفت دیکھی تو ان کا شک یقین میں بدل گیا۔
ایک ماحولیاتی گروپ بھی اس پر نظر رکھے ہوئے تھا کہ سمندری مٹی اور جھیل میں موجود مینگرووز تک ان کی رسائی کچھ عرصے سے سکڑ رہی تھی، اور یہ باؤنڈری وال اس بات کی علامت تھی کہ اس کا مزید حصہ بھی غائب ہوجائے گا، تاہم وہ اس تعمیر پر ’سیاسی‘ اثرو ورسوخ سے اتنے خوفزدہ تھے کہ اس بارے میں بات بھی نہیں کرسکتے تھے۔
سنہ 2008 کے بعد سے سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر اس بات کا ناقابل تردید ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ مینگرووز سے مالا مال ہاکس بے کے ’کھڑے پانی کی جگہ‘ کو جان بوجھ کر ’بھرا‘ گیا ہے تاکہ انہیں ہاؤسنگ اسکیموں کے لیے ’زمین‘ میں تبدیل کیا جاسکے، یہ تبدیلی کا عمل جزوی طور پر ریت کے جال نامی طریقہ کار کے ذریعے کیا گیا۔ (باکس دیکھیں)
تجاوزات کرنے والوں نے پانی میں پتلی گزر گاہیں بنانا شروع کردیں جو جال کے طور پر کام کرتی ہیں کیونکہ وہ اونچی لہروں کے دوران سمندر کے ذریعے جھیل میں بہنے کے بعد ریت کو باہر نہیں جانے دیتے ہیں۔
جیسے جیسے پیچھے رہ جانے والی ریت دریا کی تہہ میں بیٹھتی گئی، جھیل کی سطح وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ بڑھتی گئی، پھر انہیں صرف اس ’بحالی‘ کو اضافی بیرونی پیڈنگ کے ساتھ پورا کرنے کی ضرورت تھی۔
ایک مقامی شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس جنگل کے لیے لڑتے لڑتے مارے جاچکے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ’پہلے انہوں نے ایک گلی بنائی اور پھر اس زمین کو بڑے بڑے ڈمپر کے ذریعے ریت سے بھردیا‘۔
بیچ سٹی بنگو
ظاہر ہے، اس زمین کی بحالی کے پیچھے جو لوگ ہیں، وہ اپنے کام کی حفاظت کرنا چاہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ 2022 میں جھیل کے کناروں کے ارد گرد چار دیواری اونچی ہونا شروع ہوئی، لیکن ان کے دماغ میں ایسا کون ہے جو اس ’ندی‘ کو خریدے گا اور سمندر کے بہاؤ سے لڑنے کے علاوہ ٹن کے حساب سے ریت پھینکنے جیسی پریشانی کا سامنا کرے گا؟
صرف ایسا کوئی جو کراچی میں ریئل اسٹیٹ کی قدر جانتا ہو۔
اس راز سے پردہ اٹھانے کے لیے ڈان ڈاٹ کام نے اس باؤنڈری وال والی زمین کا دورہ کیا اور وہاں موجود سیکیورٹی اہلکاروں سے زمین کے مالک اور منصوبے سے متعلق پوچھا، ایک سکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ یہ یہ حاجی آدم جوکھیو کا ہے تاہم ساتھ ہی انہوں نے واضح کردیا کہ وہ اس حوالے سے مزید معلومات فراہم نہیں کریں گے۔
جس کے بعد ڈان ڈاٹ کام نے حاجی جوکھیو کا موقف جاننے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا، اس سلسلے میں پہلی بار 6 اکتوبر 2023 کو ان کے وکیل ضیاالحق مخدوم کے ذریعے کوشش کی گئی، جنہوں نے کسی بھی سوال کا جواب دینے یا رابطے کی سہولت کاری سے انکار کردیا۔ اس کے بعد ایک رپورٹر نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور وہاں موجود سکیورٹی اہلکاروں سے کہا کہ وہ ان کی بات زمین مالک سے کروادیں جس پر سیکیورٹی کے سربراہ نے 29 اکتوبر 2023 کو رابطہ کرکے یہ وعدہ کیا کہ وہ حاجی جوکھیو سے ان کی ملاقات کا انتظام کرائیں گے تاہم یاد دہانی کے باوجود کوئی ملاقات نہیں ہوسکی۔
اس تحقیقات کے دوران سرکاری دستاویزات میں ریکارڈ آف رائٹس، حکومت سندھ کے لینڈ یوٹیلائزیشن ڈیپارٹمنٹ (ایل یو) کی جانب سے جاری کردہ خطوط، کراچی شہر کے لیے پراپرٹی رجسٹریشن، صوبائی حکومت کے لینڈ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ قبضے کے کاغذ، پیمنٹ چالان جیسی اہم چیزیں سامنے آئیں، جس سے یہ پتہ چلا کہ اس زمین کے مالکان ’عثمان ولد صادق اور دیگر‘ اور ’اری ولد حاجی مہران اور دیگر‘ تھے جب کہ حاجی آدم جوکھیو کے پاس صرف اختیارات تھے۔ ڈان ڈاٹ کام نے دونوں فریقین سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
جولائی 2024 میں ڈان ڈاٹ کام نے سندھ حکومت کے خلاف جوکھیو کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کی نگرانی کرنے والے وکیل حسیب جمالی سے رابطہ کیا، جس پر انہوں نے کہا کہ وہ صرف اس کیس کے حقائق بتا سکتے ہیں۔
ڈان ڈاٹ کام نے زمین کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن کرنے والے محکمے ’لینڈ ایڈمنسٹریشن اینڈ ریونیو مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم‘ (ایل اے آر ایم آئی ایس) سے بھی رابطہ کیا اور جائیداد کے مالکان کے بارے میں تفصیلات طلب کی ہیں، تاہم محکمہ کے ایک افسر نے کہا کہ اس زمین ’دیہہ لال باکھر‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جسے باضابطہ نوٹیفائی نہیں کیا گیا لہٰذا ان کے پاس اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں، انہوں نے مزید وضاحت کی کہ جائیداد کی الاٹمنٹ برطانوی دور کے دوران بنائے گئے نقشوں پر مبنی تھی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ مستقبل میں جائیداد کو ڈیجیٹلائز نہیں کیا جاسکے گا کیوں کہ ’پرانے نقشے‘ محکمہ کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔
ڈان ڈاٹ کام نے ایک اور کوشش کرتے ہوئے جوکھیو سے ان کے فون نمبر اور کریم ہاؤسنگ میں ان کے دفتر پر رابطہ کیا لیکن وہاں سے بھی کوئی جواب نہیں ملا، آخر کار 13 مئی کو حاجی آدم جوکھیو کے ایک بیٹے لالہ جوکھیو سے رابطہ ہوا، زمین کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ یہ کہا کہ اس پر ان کے والد بھی یہی جواب دیں گے۔
تو پھر یہ حاجی آدم جوکھیو کون ہیں اور وہ ہاکس بے میں زمین کے اس ٹکڑے سے کیسے جڑے ہوئے ہیں؟
یہ زمین آپ کی (نہیں) ہے
اب تک ہمارے پاس واضح تصویر آچکی تھی کہ آدم جوکھیو کون تھا، جس کی بنیاد اس کی سابقہ لین دین پر مبنی اخباری رپورٹس سے حاصل کردہ معلومات، اس کے خلاف نیب کے مقدمات کی تفصیلات اور اس سے وابستہ ان کے افراد کے انٹرویوز تھے جو اسے جانتے تھے یا اس کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ کاروباری لین دین میں ملوث تھے۔
تاہم اس سوال کا جواب جاننا ضروری تھا کہ وہ ہاکس بے کی زمین سے کیسے منسلک ہوا؟
اس جواب کی تلاش میں ہم نے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کیماڑی جنید اقبال خان سے رابطہ کیا، جن کا ایک سال سے زائد عرصے تک چارج سنبھالنے کے بعد حال ہی میں تبادلہ کیا گیا تھا، وہ کیس کی طویل تاریخ سے کسی حد تک واقف تھے اور ہمارے سوالات کے جوابات دینے کے لیے سرکاری اور عدالتی دستاویزات کا حوالہ دے رہے تھے۔
1950 کی دہائی کے اوائل میں، ہاکس بے کے بیک واٹر (ٹھہرا پانی) میں نمک کے کارخانے ہوتے تھے – جن کے نام لکشمی، نوسروان جی، خورشید اور سرکاری کارخانہ شامل تھا۔ جب نمک خشک ہو گیا تو حکومت سندھ نے اس علاقے کو اپنی تحویل میں لے لیا کیونکہ یہ لیاری ندی کے دائیں کنارے پر کے 28، فیز ٹو، ٹرانس لیاری نامی اسکیم کا حصہ تھا۔
ڈپٹی کمشنر کیماڑی نے بتایا کہ’یہ گیلی زمین (ساحلی جھیل) اس اسکیم کا حصہ تھی’۔ مینگرووز کے جنگلات سے متصل اس ساحلی جھیل کو تعمیرات کے قابل بنانے کے لیے بھرا جارہا ہے۔
تاہم، یہ اب بھی تعمیراتی جگہ پر سیکیورٹی اہلکاروں کے دعوے کو ثابت نہیں کر سکا، لہٰذا ہم نے سرکاری دستاویزات کی چھان بین شروع کی، جہاں یہ کہانی سیکڑوں صفحات پر پھیلی ہوئی تھی۔
سنہ 1993 میں اس زمین کے دو مالکان عثمان اورر دیگر اور اری اور دیگر ضلع شرقی (اب ضلع ملیر) کے دیہہ کونکر اور دیہہ کھرکھاؤ میں اپنی 2 جائیدادوں سے دستبردار ہوگئے تھے کیونکہ حکام کو فائرنگ رینج کے لیے ان کی ضرورت تھی۔
اس کے بدلے میں سابق وزیر اعلیٰ مظفر حسین شاہ نے انہیں ضلع غربی (اب ضلع کیماڑی) میں زمین (جس پر ہم اس وقت بات کر رہے ہیں) الاٹ کی۔
چونکہ ضلع غربی کے مقابلے میں ضلع ملیر کی زمین کم قیمتی تھی، لہٰذا مالکان نے لاگت کو پورا کرنے کے لیے اضافی ادائیگی کی۔ زمین کے اس ٹکڑے کے لیے اضافی ادائیگی کا تخمینہ تین روپے فی مربع گز لگایا گیا تھا، جسے تفریقی ’ملکانو‘ کہا جاتا ہے۔
ڈان ڈاٹ کام کو دستیاب قبضے کی دستاویزات —جو اس کے وقت ڈپٹی کمشنر فضل الرحمٰن کے دفتر سے حاصل کی گئی تھیں—کے مطابق مالکان نے جوکھیو کو پاور آف اٹارنی دے دیا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ زمین پر تعمیر اور دستاویزات کے حوالے سے تمام سرکاری کام کر سکتے ہیں ، بس اسے فروخت کرنے کا اختیار انہیں حاصل نہیں تھا۔
آدم جوکھیو نے 12 ستمبر 1993 کو کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (اب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی) سے بیچ سٹی ہاؤسنگ انٹرپرائز کے نام سے ایک رئیل اسٹیٹ منصوبے کی تعمیر کے لیے عدم اعتراض سرٹیفکیٹ (این او سی) اور لے آؤٹ پلان کی منظوری حاصل کی۔
لیکن اس کے بعد بیچ سٹی، جو زیر بحث ساحلی جھیل پر تعمیر کیا جانا تھا، کے 28، فیز ٹو، ٹرانس لیاری کے 313 ایکڑ رقبے پر محیط تھا، میں خرابی پیدا ہو گئی۔
کے۔28 کے کئی مالکان
اگر کراچی میں رئیل اسٹیٹ منصوبوں کے ساتھ کوئی ڈراؤنا خواب جڑا ہوا ہے تو وہ زمین کی ملکیت کا تنازع ہے اور بیچ سٹی ہاؤسنگ انٹرپرائز بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھا۔
جب جوکھیو نے زمین پر خیمے لگائے اور’بیچ سٹی ہاؤسنگ انٹرپرائز’ منصوبے کی تشہیر شروع کی تو کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے ملازمین ، جو اسی زمین کی لیز کی مد میں اتھارٹی کو سالانہ 2 لاکھ روپے ادا کر رہے تھے، انہیں کہا گیا کہ اس زمین پر ’کے پی ٹی یونائیٹڈ فرنٹ ورکرز ہاؤسنگ سوسائٹی‘ تعمیر کی جائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ خشک ہونے سے پہلے یہ زمین کراچی کے بیک واٹر (کھڑے پانی)کا حصہ تھی۔ یہ بیک واٹر اس علاقے کا حصہ تھے جو برطانوی حکومت نے 1886 میں کے پی ٹی ایکٹ کے تحت کے پی ٹی کو دیا تھا تاکہ وہ بندرگاہ کا انتظام سنبھال سکے۔
ڈان ڈاٹ کام نے کے پی ٹی کے دائرہ اختیار کے دعووں کی تصدیق کے لیے کے پی ٹی کے دفتر سے نقشے کی درخواست کی تھی لیکن کے پی ٹی کے پی آر او کی جانب سے انہیں وزارت میری ٹائم افیئرز کو بھیج دیا گیا تھا۔ اکتوبر سے نومبر 2023 تک وزارت کے پی آر او سے رابطہ کرنے کی متعدد کوششوں کے باوجود، ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔
کے پی ٹی کا ماننا ہے کہ وہ زمین کے مالک ہیں اور انہیں فیصلہ کرنا ہے کہ اسے کس طرح استعمال کیا جائے گا۔ اس طرح 1990 میں جب ان کے بیک واٹر ایریا کا ایک حصہ خشک ہو گیا تو کے پی ٹی نے 500 ایکڑ زمین پر’کے پی ٹی یونائیٹڈ فرنٹ ورکرز ہاؤسنگ سوسائٹی’ کا آغاز کیا۔
بیچ سٹی ہاؤسنگ انٹرپرائز کے اشتہارات کے بعد کے پی ٹی نے ایک عوامی نوٹس جاری کیا، جس کی ایک کاپی ڈان ڈاٹ کام کے پاس موجود ہے، جس میں عوام کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس زمین سے متعلق کوئی لین دین نہ کریں کیونکہ یہ ان کی ملکیت ہے۔
ڈان کی رپورٹ کے مطابق کے پی ٹی کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی نے ایک پریس ریلیز جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے بیچ سٹی ہاؤسنگ انٹرپرائز کے اسپانسرز کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہے۔
کے پی ٹی حکام نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
خوش قسمتی سے آدم جوکھیو اور کمپنی کے لیے چیزیں یہاں ختم نہیں ہوئیں۔
قسمت پلٹ گئی
تقریباً 6 سال بعد، حکومت نے سندھ گورنمنٹ لینڈ (الاٹمنٹ، تبادلوں اور تبادلوں کی منسوخی) آرڈیننس 2000 کے نام سے ایک آرڈیننس متعارف کرایا جس کے ذریعے حکومت نے 1985 اور 2000 کے درمیان اپنے افسران کی جانب سے کی گئی زمینوں کی تمام الاٹمنٹس، تبدیلی یا تبادلے کو منسوخ کر دیا۔
یہ آرڈیننس سرکاری افسران اور منتخب نمائندوں کی جانب سے کی جانے والی کرپشن کا توڑ کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا، جس میں انہوں نے بااثر افراد کو مارکیٹ ویلیو سے کم نرخوں پر ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین الاٹ کی تھی۔
ایک سال بعد، ایک کمیٹی کو زمین کی’حقیقی’ قیمت طے کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، اگر وہ شخص جس نے ابتدائی طور پر اونے پونے داموں زمین خریدی تھی، وہ اصل قیمت ادا کرکے اس کا مالک بن سکتا ہے، کے۔28 کے کچھ پلاٹ مالکان نے نقد رقم کی ادائیگی کرکے اپنی زمین واپس لے لی، ان میں جوکھیو اور اس کے ساتھی بھی شامل تھے۔
جوکھیو فوری طور پر اسکیم کے-28 میں پلاٹ مالکان کے گروپ سے منسلک ہوگیا، جس کا مقصد زمین کی حقیقی قیمت کا پتا لگانا اور اصل قیمت ادا کرنے کی اپنی صلاحیت پر اعتماد تھا۔
2009 تک کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اگر جوکھیو زمین کے لیے 92 روپے فی مربع گز ادا کرتا ہے تو وہ اسے واپس کر دی جائے گی۔
اس زمین کی الاٹمنٹ پر سوال اٹھائے جانے کے باوجود لینڈ کمیٹی نے اس پلاٹ کی ریگولرائزیشن کی قیمت کے بارے میں ایک حکم جاری کیا جس کی و جہ شاید نگرانی کا فقدان تھی۔
دریں اثنا، جوکھیو اور ان کے ساتھیوں کو ادائیگی کرنے کے لیے مشکل کا سامنا کرنا پڑا اور ایک دہائی بعد 2019 تک بھی وہ مجموعی اراضی کے صرف نصف کی قیمت ادا کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
تاہم اس وقت جب سرکاری حکام جائیداد کو قانونی شکل دینے سے پیچھے ہٹے تو جوکھیو نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا، جس نے حکومت کو زمین کو قانونی شکل دینے اور متاثرہ فریقین کو بقیہ رقم ادا کرنے کا حکم دیا۔
2023 میں جوکھیو نے بقیہ 160 ا یکڑ زمین بھی 92 روپے فی مربع گز کی قیمت کے عوض خرید لی اور دونوں جائیدادوں کے ریگولرائزیشن کاغذات حاصل کرلیے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2009 میں 92 روپے کو مناسب مارکیٹ پرائس کے طور پر پیش کیا گیا تھا، حالانکہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد مارکیٹ کی مناسب قیمت میں یقینی طور پر انقلابی اضافہ دیکھا گیا ہوگا۔
مثال کے طور پر 1990 کی دہائی میں رہائشی علاقے کی زمین کی قیمت – علاقے میں ایک ہاؤسنگ اسکیم کے اشتہار کے مطابق – 200 سے 450 روپے فی مربع گز تھی، رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کے مطابق آج اس مقام پر اسی رہائشی زمین کی قیمت تقریباً 24 ہزار 755 روپے فی مربع گز ہے۔
زمین پر دعویٰ کرنے کے3 دہائیوں بعد جوکھیو اور ان کے ساتھی اس کی موجودہ قیمت کا ایک چھوٹا سا حصہ ادا کرکے اس کے قانونی مالک بن گئے، اس کے فوری بعد انہوں نے اس کے ارد گرد ایک چار دیواری تعمیر کرنا شروع کر دی جسے اب پلاٹ کہا جاتا ہے۔
سوائے اس کے کہ زمین کے لیے اس کے منصوبے ایک بار پھر پھنس گئے ہیں۔
یہ ہماری ملکیت ہے، حالانکہ ہمارا کوئی حق نہیں
سنہ 2022 میں جب اسی زمین پر دیوار کی تعمیر شروع ہوئی تو کے پی ٹی کے انسداد تجاوزات کے ایک اہلکار نے اپنے عملے کو تحقیقات کے لیے بھیجا لیکن انہیں پیچھے ہٹنا پڑا کیونکہ دوسرے فریق کے پاس مسلح محافظ تھے، کے پی ٹی حکام کا کہنا تھا کہ وہ ایس ایس پی کیماڑی فدا حسین جنواری کو ایف آئی آر درج کرانے کے لیے قائل نہیں کرسکے۔
4 جولائی 2022 کو کے پی ٹی کے سیکریٹری نے چیف سیکریٹری سندھ اور کمشنر کراچی کو ایک خط (جو ڈان کو دستیاب ہے) لکھا اور شکایت کی کہ چند لوگ کے پی ٹی ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی پر قبضہ کر رہے ہیں۔
2020 میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے اپنے ایک حکم میں واضح کیا تھا کہ بندرگاہ کے حکام کے پاس کے پی ٹی کی جائیداد یا زمین کو اپنے عملے کو لیز پر دینے، منتقل کرنے یا فروخت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کراچی پورٹ کے ٹرسٹیز صرف اس وقت حکومت کی جانب سے کام کرتے ہیں جب بندرگاہ کے انتظام سے متعلق معاملات کی بات آتی ہے، لہٰذا کے پی ٹی یونائیٹڈ فرنٹ ورکرز ہاؤسنگ سوسائٹی غیر قانونی ہے، عدالتی حکم کے بعد چار دیواری پر کام بھی روک دیا گیا تھا۔
کیماڑی کے ڈی سی نے بھی کہا کہ جھیل کے ارد گرد دیوار کی تعمیر عارضی طور پر روک دی گئی ہے، انہوں نے بتایا تھا کہ ڈویژنل بینچ اس معاملے کی دوبارہ سماعت کرنے جارہا ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’معاملے کا دوبارہ جائزہ لینے کا فیصلہ اس وقت آیا جب سنگل بینچ نے نوٹ کیا کہ عثمان و دیگر، اری اور دیگر کے لیے زمین کو ریگولرائز کرنے کا حکم دینے والا ڈویژنل بینچ شاید سپریم کورٹ کی زمین کے اسٹیٹس کو ’جوں کا توں‘ برقرار رکھنے کی ہدایت سے واقف نہیں ہے۔
اس معاملے میں زمین کا حصول جتنا آسان تھا، اتنا ہی اس کے لیے حکومت کے اداروں کے باہمی تنازعات میں پھنس جانا بھی آسان تھا، کراچی میں ناقص ’گورننس‘ کی نوعیت ایسی ہے کہ ایک ہاتھ جو دیتا ہے وہ دوسرا چھین لیتا ہے۔
اس کے علاوہ، کے پی ٹی واحد سرکاری ادارہ نہیں ہے جس نے زمین پر دعویٰ کیا ہے، ایک اور اتھارٹی جو ملکیت کا دعویٰ کرتی ہے وہ لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) ہے، جو علاقے کی تعمیر و ترقی کی ذمہ دار ہے۔
ایل ڈی اے نے بورڈ آف ریونیو کے خلاف عدالت سے رجوع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ حکومت، کے۔28، فیز ٹو میں زمین الاٹ نہیں کر سکتی تھی کیوں کہ اس علاقے میں اس کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ مزید برآں، کے 28، فیز ٹو کی الاٹمنٹ ایل ڈی اے کی ہاکس بے اسکیم 42 کے لیے مختص علاقے سے مطابقت رکھتی ہے، یہ مقدمہ 2009 سے زیر التوا ہے۔
اس طرح اس علاقے کی ملکیت سے متعلق ابہام کو کئی عدالتی مقدمات میں حل کیا جا رہا ہے، اس مضمون کے مقاصد کے لیے، ہمیں 74 دستاویزات اور 9 نقشوں کو تلاش کرنا پڑا (اور یہ صرف وہ دستاویزات تھیں جن کو ہم سامنے لانے کے قابل تھے)۔
جتنی زیادہ دستاویزات آپ کے سامنے آئیں گی، آپ اتنا ہی گہرا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بدعنوانی پھیلی ہوئی ہے۔ اگر آپ غیر سرکاری تنظیم (این جی او) ’شہری‘ جن کا سلوگن ’بہتر ماحول کے لیے شہری‘ ہے، کی امبر علی بھائی سے پوچھیں جو کراچی کی عدالتوں میں زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف لڑتی ہیں، تو وہ بتاتی ہیں کہ ’کئی بار سچائی کو چھپانے کے لیے بہت زیادہ دستاویزات تیار کی جاتی ہیں‘ امبر علی بھائی کا کہنا ہے کہ دنیا کے کسی بھی دوسرے حصے میں متعدد سرکاری کاغذات صداقت کی نشانی ہوں گے لیکن کراچی میں ایسا نہیں ہے۔
جوں جوں ہمارے سرکاری اور عدالتی ریکارڈ کے دائرے موٹے ہوتے گئے، ان لوگوں کی فہرست سکڑتی گئی جو اس کہانی کے ریکارڈ پر جائیں گے، جب ہاکس بے کے 28، فیز ٹو، ٹرانس لیاری کی بات آتی ہے تو کوئی بھی اس کا حوالہ نہیں دینا چاہتا، ڈائریکٹر فاریسٹ آپریشنز شہزاد صادق نے کہا کہ ایک دہائی قبل بھی اسی طرح کی پیش رفت ہوئی تھی اور جب میں نے تصاویر لینے کی کوشش کی تو مجھے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ڈان جی آئی ایس نے جب ’کے 28‘ اسکیم کے فیز ٹو اور اس زمین کا نقشہ تیار کیا جو ضلع کیماڑی آفس سے جوکھیو کو الاٹ کی گئی تھی، تو معلوم ہوا کہ یہ پلاٹ اسکیم کی اصل حدود کا حصہ نہیں تھا۔
تعمیر شدہ دیوار کی بنیاد پر سرحدوں کی نشاندہی کرنے سے، یہ پتا چلا کہ آدم جوکھیو نے اپنی ابتدائی الاٹمنٹ 313 ایکڑ چھوڑ دی تھی اور تقریباً 600 ایکڑ زمین کی ملکیت کا دعوی کیا تھا۔
ہوا میں ریت کے قلعے
یہاں تک کہ اگر آدم جوکھیو اور بیچ سٹی، عدالتی معاملات کو کلیئر کر دیتے ہیں تو انہیں سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر (سیپا) کیماڑی کامران خان کے مطابق سیپا نے بلڈر کو طلب کیا ہے، کیونکہ ہاؤسنگ پروجیکٹ میں کوئی ماحولیاتی اثرات کا تخمینہ نہیں ہے — ایک دستاویز جو منصوبے کے علاقے کی موجودہ ماحولیاتی صورتحال کا جائزہ فراہم کرتی ہے، ممکنہ ماحولیاتی اثرات کو ظاہر کرتی ہے جو فائدہ مند اور نقصان دہ ہوسکتی ہیں، فائدہ مند اثرات کو بڑھانے کے بارے میں تجاویز کے ساتھ، ممکنہ نقصان دہ اثرات کو کم یا کم سے کم کریں۔
اگر ماہرین بیچ سٹی کی تعمیر کے اثرات کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے تو، وہ یقینی طور پر اس منصوبے کو ناکام قرار دیں گے۔ فاریسٹ آپریشنز کے ڈائریکٹر، صادق کے مطابق، سب سے پہلے، محکمہ جنگلات نے متنازع علاقے میں مینگرووز کو ’محفوظ جنگل‘ قرار دیا ہے، جس کی وجہ سے کسی بھی قسم کی کٹائی کا انجام ’جرمانہ‘ ہے۔
زمین کے دوبارہ حصول کی چالوں نے اب تک اس کے آبی ذرائع کے ساتھ گڑبڑ کرکے علاقے کے ماحولیاتی نظام کو متاثر کیا ہے، مینگروو جنگل اور ’ویٹ لینڈ‘ کے درمیان ایک رکاوٹ کھڑی کی گئی تھی، اس سے پانی کے دو طرفہ قدرتی بہاؤ میں خلل پڑا، اونچی لہروں کے موسم کے دوران، سمندری پانی مینگروو کے جنگل میں بہہ جاتا تھا، جس سے ساحلی جھیل میں پانی بھر جاتا تھا، متبادل کے طور پر، جب بارش ہوتی ہے، تو آس پاس کے علاقے کا وہ پانی مینگروو ویٹ لینڈ میں جمع ہو جاتا ہے اور آخر کار سمندر میں چلا جاتا ہے۔
سمندری پانی کے علاوہ اس’ سنک نما ساحلی جھیل’ کو شہر کی 3 ندیوں سے بھی پانی ملتا ہے، اور چونکہ یہ جغرافیائی طور پر نچلی سطح پر ہے، لہذا یہ ایک قدرتی ’کیچمنٹ ایریا‘ کی طرح کام کرتا ہے (جو پانی کو ’پکڑتا ہے‘)۔
بحریہ یونیورسٹی میں ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز کی سینئر ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمیٰ حمزہ کا کہنا ہے کہ ’آس پاس کی پہاڑیوں سے آنے والا سیلابی پانی سمندر میں بہنے سے پہلے یہاں جمع ہوتا ہے، یہ بارش کا پانی مینگرووز کے جنگل کی ضروریات کو پورا کرتا ہے، جسے 50 فیصد میٹھے پانی اور 50 فیصد نمکین پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
ڈائریکٹر فاریسٹ آپریشنز صادق نے کہا کہ اگر مینگرووز جنگلات کے قدرتی آبی راستوں کو مسدود کر دیا جائے تو اعلان کردہ محفوظ مینگرووز جنگلات صرف تھوڑی دیر کے لیے زندہ رہیں گے، ان پودوں کو زندہ رہنے کے لیے اس نازک سوڈیم توازن پر منحصر سمندر اور آسمان سے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
حال ہی میں مینگروو کے جنگلات کا دورہ کرنے والے میرین بائیولوجسٹ ڈاکٹر شیر خان نے کہا کہ ’زمین اور پانی کا رنگ کھارا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین پر سلفر کی مقدار بہت زیادہ ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’چونکہ مینگرووز بڑے ہو چکے ہیں، اس لیے وہ سلفر سے زیادہ متاثر نہیں ہوتے، لیکن میوفونا، چھوٹے کیڑے جو بیک واٹر میں رہتے ہیں۔ خطرناک حد تک غیر حاضر ہیں، اگر اس علاقے میں ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی جائے تو وہاں کے لوگوں کو سانس کے مسائل اور جلد کی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں، انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’یہ بہتر ہے کہ یہ علاقہ انسانوں اور علاقے کی حیاتیاتی تنوع دونوں کے لیے غیر ترقی یافتہ رہے‘۔
گوگل ارتھ کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ اس علاقے میں 1990 سے 2023 کے دوران مینگروو جنگلات سکڑ گئے ہیں، جنگلات کی کٹائی کا جائزہ لینے کے لیے ڈان نے جی آئی ایس کے اعداد و شمار کے لیے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشینوگرافی سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے کم معیار کی تصاویر کا حوالہ دیتے ہوئے انکار کر دیا، جب اس بات پر زور دیا گیا تو ایک ماہر نے اسے ’بہت زیادہ سیاسی‘ قرار دیا۔
شیراز کہتے ہیں کہ ’جب پانچ گھنٹے بارش ہوتی ہے، تو پورا علاقہ اتنا زیر آب آ جاتا ہے کہ ہم گاڑی نہیں چلا سکتے اور نہ ہی سڑک پر چل سکتے ہیں، لیکن بارش کا پانی کچھ گھنٹوں کے بعد صاف ہو جاتا ہے کیونکہ یہ سمندر میں چلا جاتا ہے، مچھلی چوک تک پانی ’ہڈیوں کے مجسمے‘ سے بھر جاتا ہے، لیکن پھر یہ سمندر میں بہہ جاتا ہے۔‘
اگر وہ پٹی کے پیچھے ’ساحلی جھیل‘ میں دلدل اور مینگرووز میں تعمیر کرتے ہیں، تو پانی کی نکاسی نہیں ہوگی کیونکہ ماحولیاتی ڈھانچہ مستقل طور پر تبدیل ہوجائے گا۔ شیراز کے مطابق انہوں نے برساتی نالے (نکاسی نالے) بنائے لیکن ان کی جانچ نہیں کی گئی کیونکہ اس سال بارش نہیں ہوئی تھی، وہ کہتے ہیں کہ یہ چھوٹے نالے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے یا سنبھالنے کے لیے کافی نہیں ہوں گے، کیونکہ دباؤ بہت زیادہ ہے۔
اس دلدلی اراضی کی ملکیت کے بارے میں قانونی تنازع عدالتوں میں جاری ہے، چار دیواری پر تجاوزات کے خلاف کارروائیوں کی متعدد کوششوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم، جیسا کہ شہر قائد کے زیادہ تر سبز یا تاریخی اثاثوں کا معاملہ ہے، ان پر اپنی شہری مرضی کو نافذ کرنے کی ہماری صلاحیت تیز تر رفتار کے برعکس متناسب ہے جس پر ان کا وجود ختم ہوجاتا ہے، آپ کو صرف یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی رئیل اسٹیٹ پروجیکٹ مینگروو جنگل میں فلیٹس فروخت کرنا شروع کرتا ہے تو، آپ وہاں نہ رہنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔
خصوصی شکریہ ڈان جی آئی ایس ٹیم، ماہم مہر، ایڈووکیٹ زبیر ابڑو، این جی او شہری (سٹیزنز فار بیٹر انوائرمنٹ)۔
- ڈان ڈاٹ کام نے اس حوالے سے بات کرنے کے لیے متعدد بار سیکریٹری وزارت میری ٹائم افیئرز سے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آسکا۔
- ڈان ڈاٹ کام نے اس حوالے سے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان تک رسائی حاصل کی، تاہم کوئی جواب یا درکار ڈیٹا فراہم نہیں کیا گیا۔
- نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشینوگرافی پاکستان نے معاملے کو ’بہت سیاسی‘ قرار دیتے ہوئے تبصرے سے انکار کردیا۔
- ڈان ڈاٹ کام نے ڈائریکٹر جنرل سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) سے متعدد بار رابطہ کیا لیکن ان کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آسکا۔
- ڈان ڈاٹ کام نے سابق نگران وزیر برائے بورڈ آف ریونیو، یونس ڈھاگا سے بھی رابطہ کیا، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو بقااللہ انڑ سے بات کی کوشش کی، تاہم ان دونوں کی جانب سے بھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آسکا۔
یہ رپورٹ انگریزی میں یہاں پڑھیے۔
مصنفہ KAS-Dawn.com کی میڈیا فیلو ہیں۔ گورننس اور سماجی مسائل میں دلچسپی رکھتی ہیں، @Hawwa_Fazal سے ٹوئٹ کرتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔