ڈان خصوصی رپورٹ: سانحہ اے پی ایس کو 10 برس مکمل مگر زخم آج بھی تازہ
16 دسمبر 2014ء پاکستان کی تاریخ کا ہولناک باب ہے۔ اس روز پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 132 اسکول کے بچوں سمیت 147 شہید ہوئے۔
اس واقعے کو 10 سال بیت چکے ہیں لیکن اس دن کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ لواحقین اپنے غم میں جی رہے ہیں جبکہ ہم باحیثیت قوم اب بھی دہشت گردی کے ناسور سے نبرد آزما ہیں۔ ڈان ڈاٹ کام نے اس سلسلے میں ایک خصوصی رپورٹ تیار کی ہے جس کے لیے ہم نے 17 خاندانوں، 17 زندہ بچ جانے والے افراد سے بات کی جبکہ اس حوالے سے ریاستی حکام اور سیکیورٹی تجزیہ کاروں سے بھی مؤقف لیا اور عدالتی ریکارڈ کا بھی جائزہ لیا۔
حصہ اول: غم و غصہ
’ ہم نے اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے اسکول بھیجا تھا، سرحد پر شہید ہونے کے لیے نہیں’۔
دہشت گردوں کی جانب سے اسکول کے بچوں کے سفاکانہ قتل عام کو 10 سال بیت چکے ہیں۔ شہدا اور سانحے میں زندہ بچ جانے والے (جن کے ناموں پر بہت سی سڑکیں بھی منسوب کی گئی ہیں) خاندان اب بھی نہ صرف اپنے غم کو بھلا سکے ہیں بلکہ وہ غصے کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔
جب آپ ان متاثرہ والدین سے ملتے ہیں تو سب سے پہلے ان کے رویوں میں غصے کی جھلک عیاں ہوتی ہے جبکہ ان کے غم کو برہمی کی کیفیت سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
’ہم کیسے بھول سکتے ہیں؟ ہم اتنے بڑے سانحے کو کیسے بھلا سکتے ہیں؟ جس طرح ہمارے بچوں کو مارا گیا، ہم کیسے وہ سب بھول سکتے ہیں؟‘ یہ کہنا تھا ایمل خان کے والد عتیق اختر کا جن کی 18 سالہ بیٹی 12ویں جماعت کی طالبہ تھی۔
ڈان نے یہ انٹرویو اس گھر میں لیا جہاں ایمل کی پیدائش ہوئی تھی۔ اس گھر میں ایمل خان کی کوئی تصویر یا کوئی یادگار نہیں ہیں۔ ایمل کی والدہ کے ساتھ غیر رسمی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اب ان کے لیے شہید بیٹی کی تصاویر کو دیکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ انہوں نے تمام تصاویر کو اتار کر ایک بکس میں بند کردیا ہے لیکن ایک تصویر اب بھی ان کے پاس موجود ہے۔
16 دسمبر 2014ء: ’میں 16 دسمبر کو دفتر میں تھا جب میری اہلیہ جو آرمی پبلک اسکول کی ٹیچر بھی ہیں، نے مجھے صبح 10 یا 10:15 بجے کے قریب فون کرکے اسکول پر حملے کے حوالے سے مطلع کیا۔ میں فوراً اسکول پہنچا لیکن اسے مکمل طور پر سیکیورٹی فورسز کی جانب سے گھیرے میں لے لیا گیا تھا اور فوج کے اہلکار کسی کو بھی اسکول کے احاطے میں داخل ہونے نہیں دے رہے تھے۔ میں اسکول کے تمام داخلی راستوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس دوران میری بیوی اور چھوٹا بیٹا پچھلے دروازے اسکول سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے لیکن اسامہ کے بارے میں ہمیں کوئی خبر نہ ملی۔ میرے خاندان کے دیگر افراد بھی اسکول آئے لیکن ہم میں سے کوئی بھی یہ سراغ نہیں لگا سکا کہ اسامہ کہاں ہے؟ پھر میں نے سی ایم ایچ (کمبائنڈ ملٹری ہسپتال) فون کیا جہاں اسامہ پیدا ہوا تھا۔ فون پر شخص نے کہا کہ انہیں اسامہ نہیں ملا لیکن مجھے ہسپتال آنے کو کہا گیا۔ میں اور میری بیوی وہاں گئے اور تقریباً 1:15 یا 1:30 بجے ایک آدمی مجھے ہال میں لے گیا جہاں تمام لاشیں موجود تھیں۔ اس دن اسامہ نے ایک نئی براؤن جیکٹ پہن رکھی تھی جو اس نے کچھ دن پہلے خریدی تھی۔ جانے سے پہلے اس نے کہا تھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے لیکن پھر وہ خود ہی اسکول جانے کے لیے تیار ہوا۔ میں نے اسے کہا تھا کہ وہ براؤن جیکٹ نہ پہنے لیکن وہ بہ ضد تھا۔ اسی براؤن جیکٹ سے ہم نے اسامہ کی لاش کی شناخت کی‘— اسامہ اقبال (عمر 15، گریڈ 10) کے والد ظفر اقبال
تقریباً تمام والدین جن سے ہماری ملاقات ہوئی، وہ اپنے بچوں اور 16 دسمبر کے بارے میں بات کرنا چاہتے تھے۔ وہ اپنے بچوں سے وابستہ ہر چھوٹی چھوٹی تفصیل کو یاد کرتے ہیں جبکہ شہید بچے، گھروں کی دیواروں پر فریم شدہ تصاویر، پوسٹرز، اسکریپ بک، یادگاری کونوں، کتابوں اور آخری مضامین کی صورت میں اب بھی اپنے خاندانوں کے ساتھ ہیں۔
دسویں جماعت کے طالب علم حسن زیب کی والدہ ناصرہ اورنگزیب اپنے 16 سالہ بچے کو گھر میں پالتو طوطوں سے یاد کرتی ہیں۔ ناصرہ کٹی ہوئی ہری مرچیں پنجرے کے اندر رکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اگر انہیں وقت پر کھانا نہ دیا جائے تو وہ عجیب برتاؤ کرسکتے ہیں۔ یہ میرے بچوں کی طرح ہیں‘۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’شہید حسن زیب ایک دوپہر انہیں گھر لے آیا اور اس نے ان کا نام موٹو، موتی اور پولو رکھا‘۔
وہ کہتی ہیں، ’یہ کُل چار طوطے تھے لیکن حسن کی شہادت کے چند دن بعد ہی ایک طوطا بھی مر گیا‘۔
ناصرہ اورنگزیب نے بتایا کہ ’واک سے واپسی پر وہ ہمیشہ بیکری کے پاس بسکٹ لینے کے لیے رک جاتا تھا۔ حسن سے جب بھی ان کے مستقبل کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ کہتا کہ وہ اپنی ایک بیکری چلانا چاہتا ہے‘۔
ان کے گھر کے باہر حسن کی تصویر آویزاں ہے جس کے نیچے اس کی پیدائش اور شہادت کی تاریخ درج ہے۔
16 دسمبر 2014: ’اس دن حذیفہ اپنے دوستوں کا ٹریٹ دینا چاہتا تھا اور وہ حملے سے صرف پانچ منٹ پہلے میرے پاس پیسے لینے آیا تھا لیکن میں نے پیسے دینے سے انکار کردیا تھا کیونکہ میں نے اسے پارکنگ میں اپنی والد سے پیسے لیتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا دکھ ہے۔ میں اس کے پیچھے آڈیٹوریم میں گئی تاکہ یہ یقینی بنا سکوں کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کے بجائے لیکچر میں موجود ہے۔ میں نے اسے ہال کی طرف بھیج دیا اور چند منٹ بعد ہی ہم نے فائرنگ کی آواز سنی۔ میں ہال کے باہر ہی کھڑی تھی لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ شور کہاں سے آ رہا ہے۔ ہر کوئی حواس باختہ اِدھر ادھر بھاگ رہا تھا۔ ہمارا ایک کلرک جو بعد میں حملے میں مارا گیا، دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہا کہ وہ (دہشت گرد) چھت پر ہیں۔ پھر اس نے مجھے ایڈمنسٹریشن بلاک کی طرف جانے کو کہا۔ جب فائرنگ شدید ہوئی تو ہم اسٹاف روم کو تالا لگا کر واش روم کے اندر چھپ گئے۔ صبح 10 بجے سے شام 6 بجے تک ہم اس واش روم میں ہر لمحہ مر رہے تھے۔ عمارت کا ملبہ ہم پر گرا اور واش روم کا دروازہ کئی جگہ سے ٹوٹ گیا۔ ہم اس وقت تک دروازہ بند کیے کھڑے رہے جب تک فوج نے ہمیں بچایا نہیں۔ میں نے سب سے پہلے اپنے بچوں کے بارے میں پوچھا۔ مجھے بتایا گیا کہ حذیفہ کو اس کے والد کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ میں یہ پوچھنا بھول گئی کہ آیا وہ زندہ ہے یا مر گیا۔ آخر کار جب میں گھر پہنچی تو حذیفہ اپنی دادی کے گھر میں موجود تھا۔ اسے پانچ گولیاں لگی تھیں اور وہ جانبر نہیں ہوسکا تھا۔ اسے جس بیڈ پر لٹایا گیا تھا اس کے برابر میں جگہ خالی تھی جو کہ میرے لیے تھی لیکن میں اس دن اس کے ساتھ نہیں جاسکی‘—16 سالہ حذیفہ آفتاب کی والدہ عندلیب آفتاب جو اس سانحے میں زندہ بچ جانے والی ٹیچر بھی ہیں۔
کچھ والدین اب بھی اپنے بچوں کو اسی اسکول بھیج رہے ہیں یا مزاحمت کی علامت کے طور پر اب بھی اس اسکول میں بطور استاد پڑھا رہے ہیں جہاں وہ حملے میں شہید اپنے پیاروں کی یادوں کو یاد رکھتے ہیں۔ وہ انہیں بھلانا نہیں چاہتے، اسی لیے 10 سال بعد بھی وہ ان سے وابستہ چیزوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔
آٹھویں گریڈ کے 14 سالہ محمد غسان کو اس کے والد ڈاکٹر امین الدین خان غسان کو ایک شوقین ریڈر’ کہتے ہیں کیونکہ ان کے بیٹے کے پاس تقریباً ایک ہزار سے 1500 کتب پر مشتمل ایک لائبریری تھی۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ ’جب بھی ہم بازار جاتے، وہ ہمیشہ مجھے کتابوں کی دکانوں پر لے جانے کے لیے کہتا تھا‘۔
آج پشاور میں گھروں کے باہر اور اندر ان بچوں کے پوسٹر نظر آتے ہیں۔ سعدیہ جو اے پی ایس اسکول میں پڑھاتی تھیں، ان کے والد پروفیسر گل شہزاد خٹک نے اپنی بیٹی کی تصاویر اپنے ڈرائنگ روم کی دیوار پر لگائی ہیں جن کے نیچے اردو میں ان کی تفصیل درج ہے کہ کس طرح اپنے طالب علموں کی حفاظت کرتے ہوئے اسے 9 گولیاں ماری گئیں اور وہ شہید ہوگئیں جس کے لیے انہیں تمغے سے بھی نوازا گیا۔ تمغے کے نیچے متن اس جملے پر ختم ہوتا ہے، ’ہمیں اس قوم کی بہادر بیٹی کی شہادت پر فخر ہے‘۔
16 دسمبر 2014: ’جب دہشت گرد کلاس روم میں داخل ہوئے تو ان میں سے دو سامنے والے دروازے سے آئے اور تیسرا پچھلے دروازے سے اندر آیا۔ ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوف نہیں بلکہ بڑے بڑے ہتھیار تھے۔ جب وہ میرے قریب آئے تو میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا۔ میں اپنے طلبہ کو کو چیخ چیخ کر بھاگنے کے لیے کہہ رہا تھا لیکن ان سب نے مجھے ایسے پکڑ رکھا تھا جیسے میں ان کی حفاظت کروں گا۔ مگر میں صرف استاد تھا، میں کیا کر سکتا تھا؟ دہشت گردوں نے اندھا دھند فائرنگ کی۔ تقریباً ہم سب زمین پر گر پڑے۔ نصف کی موت ہوگئی جبکہ باقی زخمی ہوگئے۔ کاندھے، بازو اور سینے میں مجھے پانچ سے چھ گولیاں لگیں۔ میں گر گیا تھا لیکن میں ابھی بھی ہوش میں تھا اور اپنی آنکھوں کے سامنے سب کچھ ہوتے دیکھ رہا تھا۔ اس وقت میری چھٹی حس نے کہا کہ وہ دوبارہ آئیں گے۔ دہشت گرد ہمارے فلور پر دوسرے کمروں میں گئے اور ایک منٹ بعد واپس آئے اور کمرے میں موجود طلبہ پر دوبارہ فائرنگ کی۔ میں نے سب کچھ دیکھا۔ اسی لمحے کمرے میں آہ و بکا کا سلسلہ رک گیا اور خاموشی چھا گئی۔ فائرنگ کے دوسرے راؤنڈ کے دوران مجھے ٹانگ میں گولی لگی جس کے باعث میں ہلنے سے بھی قاصر تھا۔ ایک گھنٹے سے زائد گزر جانے کے بعد میں نے ایمبولینس کی آواز سنی۔ جب مجھے اسٹریچر پر لے جایا گیا تو میں ظہر کی اذان سن سکتا تھا۔ اس وقت آپریشن جاری تھا اور میں ابھی تک فائرنگ کی آواز آرہی تھی‘— ذوالفقار احمد سانحے میں زندہ بچ جانے والے اے پی ایس کے استاد ہیں۔
متاثرین کے گھروں کے دورے سے احساس ہوتا ہے کہ ان چار دیواریوں میں تواتر سے 16 دسمبر کے واقعے کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن تمام لواحقین اس حوالے سے بات کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔
ایسے ہی ایک گھر میں والد نے بتایا کہ کس طرح وہ اور ان کی اہلیہ نے اپنے چھوٹے بیٹے کو اس سانحے میں کھو دیا۔ ان کا بڑا بیٹا جو زندہ بچ گیا، اس دن سے تفصیلات بتاتے ہوئے تذبذب کا شکار تھا۔ اس گفتگو میں بڑے بیٹے نے اپنا ہیڈسیٹ آن رکھا اور جب بھی اس کے والد اس سے سوال کرتے تو وہ ’مجھے یاد نہیں‘، ’شاید‘ اور ’میرا اندازہ ہے‘ جیسے الفاظ کا جملوں میں استعمال کرتا رہا۔ اسے جیسے ہی موقع ملا وہ کمرے سے باہر چلا گیا اور تب واپس آیا جب تمام مشکل سوالات پوچھے جاچکے تھے۔
والد نے اپنے چھوٹے بیٹے اور تمغہ شجاعت کی فریم شدہ تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ کم از کم میرا بڑا بیٹا اس سانحے میں زندہ بچ گیا‘۔ حکومت کی طرف سے اے پی ایس حملے میں شہید ہونے والے تمام افراد کو تمغہ شجاعت سے نوازا گیا تھا۔
نازیہ جیسے لوگ بار بار یاد کرتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اپنے 16 سالہ بیٹے ملک اسامہ طاہر اعوان کو کھو دیا جو 10ویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’حملے کے بعد طویل عرصے تک میں خاندان کے پانچ افراد کے لیے ناشتہ تیار کرتی رہی، میں یہ بھول گئی تھی کہ اب ہم صرف چار افراد اس گھر میں رہتے ہیں‘۔ ان کے دو بچے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی بھی اس وقت اسکول میں تھے۔ ’حملے کے بعد میرے بچے واپس اے پی ایس گئے۔۔۔ وہ واپس اسی اسکول میں جانے کے لیے پرعزم تھے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ وہ اپنے بھائی کی جگہ تعلیم مکمل کریں گے‘۔
16 دسمبر 2014: ’ہم سب (پانچ بھائیوں، دو بہنوں اور والدین) نے اُس صبح ایک ساتھ ناشتہ کیا تھا جس کے بعد ذیشان میرے پاس آیا اور اے پی ایس میں کھیلوں کے ہفتے کی وجہ سے میرے نئے جوتے پہننے کے لیے مجھ سے پوچھا۔ صبح 10 بجے کے قریب ایک دوست نے مجھے بتایا کہ اسکول پر حملہ ہوا ہے۔ ابتدائی طور پر میں نے سوچا کہ یہ کوئی چھوٹا معاملہ ہوگا جو حل ہوجائے گا کیونکہ اس وقت پشاور پر حملے معمول بن چکے تھے۔ لیکن پھر کچھ منٹوں کے بعد ایک اور دوست نے کہا کہ طلبہ مارے گئے ہیں۔ میں اسلامیہ کالج میں پڑھتا تھا جہاں سے میں فوراً نکلا اور پیدل صدر پہنچا۔ میں اپنے والدین کو فون کرتا رہا لیکن وہ فون نہیں اٹھا رہے تھے۔ میرے والد کی پبی اسٹیشن پر ایک دکان ہے جہاں سے وہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچ گئے۔ جب انہوں نے کال اٹھائی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ اویس مارا گیا ہے اور مجھ سے ذیشان کو تلاش کرنے کو کہا۔ میں فوراً سی ایم ایچ گیا جہاں سفید کپڑے سے ڈھکی درجنوں لاشیں زمین پر موجود تھیں۔ تمام لاشوں کی جانچ پڑتال کے دوران میں نے وہ سفید جوتے دیکھے جو میں نے ذیشان کو صبح دیے تھے۔ میں اس کی شناخت نہیں کرسکا کیونکہ اس کے چہرے پر گولیاں لگی تھیں۔ اور میں نے اس کی شناخت جوتوں سے کی۔ میں نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور ٹیکسی میں لے گیا کیونکہ وہاں ایمبولینسز کی کمی تھی۔ ہم دونوں بھائیوں کو پشاور میں اپنے گھر لے آئے اور اگلے چند گھنٹوں میں ہم انہیں دفنانے کے لیے اپنے گاؤں کے لیے روانہ ہوگئے‘— 14 سالہ شہید اویس (گریڈ 8) اور 16 سالہ ذیشان (گریڈ 10) کے بھائی وقاص احمد۔
حصہ دوم: ماضی کی تلخ یادیں
’آج پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا‘، حملے میں بچ جانے والے خاندانوں اور اساتذہ نے اسکول کے لیے یہ جملہ دہرایا۔
جی ٹی روڈ سے آتے ہوئے بائیں جانب اے پی ایس ہے جو تقریباً 20 ایکڑ اراضی پر پھیلا ہے۔ کینٹ کے علاقے میں آرمی یونٹ کے سامنے ورسک روڈ، نسیم رضوی شہید روڈ پر یہ اسکول واقع ہے۔
اسکول کے احاطے میں دوپہر 2 بجے سے شام 4 بجے کے درمیان ہم نے پہلا دورہ کیا اور اس وقت یہ علاقہ نسبتاً پُرسکون ہوتا ہے۔ مرکزی دروازے کے باہر کم از کم تین رکاوٹیں ہیں۔ والدین کے مطابق دوسری جانب جہاں یادگارِ شہدا واقع ہے، وہاں کا گیٹ خصوصی تقریبات یا بلند و بالا جلسوں کے علاوہ نہیں کھولا جاتا۔
ڈان نے اسکول کے اندر جانے کی متعدد درخواستیں کیں لیکن انہیں اجازت نہیں ملی۔
کیمپس کی دائیں جانب کی سڑک اسکول کو کنٹونمنٹ قبرستان سے الگ کرتی ہے۔ بائیں جانب ورسک ڈیم سے ایک ندی بالکل سرحد کی طرح اسکول کی دیواروں کے ساتھ ساتھ بہتی ہے۔
ہم دائیں سڑک پر چل رہے تھے جہاں خاردار تاڑیں لگی تھیں جس کے بارے میں کچھ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ان میں کرنٹ دوڑتا ہے۔ اب اسکول کے دوسرے گیٹ تک آتے ہیں جسے سینئر سیکشن کے طلبہ استعمال کرتے ہیں۔ کم از کم دو باوردی اہلکار یہاں موجود رہتے ہیں۔
اسکول کے بائیں جانب کی سڑک سرسبز ہے۔ یہ ڈیفنس پارک پر ختم ہوتی ہے جس کے سامنے اے پی ایس کا تیسرا گیٹ ہے جسے ٹوڈلرز اکیڈمی کے طلبہ اور عملے کے اراکین استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہی گیٹ ہے جہاں سے حملے کے دن بچوں کو باہر نکالا گیا تھا۔
شاہانہ نامی والدہ جو اکثر اسکول کا دورہ کرتی ہیں کہتی ہیں کہ ’صرف اسکول کے باہر ہی نہیں بلکہ اندر بھی چیک پوسٹ بنائی گئی ہیں جہاں سپاہی دن بھر ڈیوٹی دیتے ہیں، آج کے اے پی ایس اور 10 سال پہلے کے اے پی ایس میں بہت فرق ہے‘۔
شبانہ جو اے پی ایس میں جونیئر سیکشن کی ریاضی کی ٹیچر ہیں، وہ حملے کی عینی شاہد بھی ہیں کہتی ہیں کہ ’اسکول میں سیکیورٹی کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ باقاعدگی سے سیکیورٹی کے بارے میں عملے کے تمام ممبران سے فیڈ بیک لیا جاتا ہے اور ہمیں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی خامی کی نشاندہی کریں جن کو دور کیا جا سکے‘۔
’میں یہاں بہت محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ اب اسکول پر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا‘، وہ یہ الفاظ دہراتی ہیں۔
16 دسمبر 2014ء: ’جب ہمیں اسکول کے اندر جانے کی اجازت دی گئی تو ہال کے فرش خون سے بھرے تھے اور دیواریں گولیوں سے چھلنی تھیں۔ ہم جب ایمبولینسز میں لاشوں اور زخمی طلبہ کو منتقل کر رہے تھے تب فائرنگ کا تبادلہ جاری تھا۔ اس وقت ہمیں صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوا اور ایدھی اور الخدمت جیسی فلاحی تنظیموں سے مزید ایمبولینسیں منگوائی گئیں۔ سب سے زیادہ لاشیں اسکول کے آڈیٹوریم سے نکالی گئیں۔ اسکول کے اندر وقتاً فوقتاً دھماکے ہوتے رہے۔ بچوں کے چہرے آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہیں۔ کچھ کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ ان کی آنکھیں کھلی تھیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کسی بھی لمحے زندہ ہو جائیں گے‘— ریسکیو 1122 کے ترجمان بلال فیضی
تاہم سیکیورٹی وہ واحد پہلو نہیں ہے جو پچھلے 10 سالوں میں تبدیل ہوا ہے۔
محمد ابوذر جنہوں نے نرسری سے انٹرمیڈیٹ تک اے پی ایس اسکول میں تعلیم حاصل کی، وہ اس حملے میں زندہ بچ جانے والوں میں شامل ہیں، بتاتے ہیں کہ ’اسکول کا انفرااسٹرکچر مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ نہیں چاہتے کہ ہم اس دن رونما ہونے والے واقعے سے وابستہ کسی بھی چیز کو یاد رکھیں۔ جب میں ایف ایس سی کر رہا تھا تو میں حملے سے پہلے کے پرانے اے پی ایس کو بالکل بھول چکا تھا‘۔
’حملے کے بعد چند سالوں تک شہید بچوں کی تصاویر مرکزی اسکول کے ہال میں آویزاں تھیں۔ لیکن انہیں حال ہی میں اتار دیا گیا ہے‘، یہ کہنا تھا عندلیب آفتاب کا جو اسکول میں کیمیا پڑھاتی ہیں جبکہ ان میں سے ایک تصویر ان کے بیٹے حذیفہ کی بھی تھی۔
ابوذر نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ آڈیٹوریم جہاں یہ اندوہناک واقعے پیش آیا، اسے ایک انڈور اسپورٹس کمپلیکس میں تبدیل کردیا گیا ہے جبکہ اسکول کے میدانوں کی شکل بدل دی گئی اور شہدا کے اعزاز میں ایک یادگار تعمیر کی گئی ہے۔
اے پی ایس کی یادگارِ شہدا 40 فٹ اونچا ہے جوکہ تین پتھر کی دیواروں پر مشتمل ہے جس میں کوفی نوشتہ (حضرت علیؓ کا طرزِ تحریر) میں شہدا کے نام کندہ ہیں۔
یادگار کو ڈیزائن کرنے والے معمار نیئر علی دادا کہتے ہیں، ’یہ یادگار علامتی اور جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ اس عظیم یادگار کو لوگوں کو تاریخی واقعہ کی یاد دلانا چاہیے‘۔ وہ افسوس کرتے ہیں کہ عام لوگوں کو اس تک رسائی نہیں۔
16 دسمبر کو ہر سال اے پی ایس کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تقریب کا انعقاد ہوتا ہے جس میں والدین، سول سوسائٹی کے اراکین اور حکومتی اور فوجی حکام شرکت کرتے ہیں۔ والدین اور اسکول انتظامیہ یادگار پر قرآن خوانی کرتے ہیں، شمعیں روشن کرتے ہیں اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں حملے کی یاد میں ہونے والی تقریبات کا سلسلہ کم ہوچکا ہے جس کے حوالے سے کئی خاندانوں نے شکایات کی ہیں اور وہ اسکول میں ’اجنبیت‘ کے احساس کو بیان کرتے ہیں۔
15 سالہ اسامہ کے والد ظفر اقبال نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تصدیق کے بعد اپنے شہید بچوں کی یادگار پر جانے کی اجازت دی جاتی ہے’۔ والدہ نازیہ کہتی ہیں کہ ’گارڈ آف آنر ہماری غیر موجودگی میں پیش کیا جاتا ہے، ہمیں اس کی اطلاع تک نہیں دی جاتی‘۔
پشاور میوزیم کو عبور کرنے کے بعد شہید طاہرہ قاضی لیڈیز پارک آتا ہے جو شہید اے پی ایس پرنسپل کو حکومت کی جانب سے خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منسوب کیا گیا ہے۔ ایک ہفتے کے دوران پشاور بھر کے دورے میں کالجز، اسکولز اور سڑکوں پر پر چند قدم کے فاصلے پر مرحومین کے نام دیکھے جا سکتے ہیں۔
باڑہ روڈ پر ایمل خان کے گھر سے چند سڑکوں بعد ان سے منسوب گورنمنٹ شہید ایمل خان ہائر سیکنڈری اسکول ہے۔ 18 سالہ ایمل اے پی ایس میں 12ویں جماعت میں پری انجینئرنگ کی طالبہ تھیں۔ حیات آباد میں گورنمنٹ شہید حذیفہ آفتاب اسکول دسویں جماعت کے شہید طالب علم کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہے۔ قصہ خوانی بازار کے قریب گورنمنٹ شہید اسامہ ظفر ماڈل ہائی اسکول ایک اور شہید کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ پشاور بھر میں کم از کم 60 تعلیمی ادارے ہیں جن کے بورڈز 16 دسمبر 2014ء کے بعد تبدیل کیے گئے تھے۔
حصہ سوم: زندگی کی جدوجہد
جمعے کی ایک سرد شام ہم طارق جان، ان کی اہلیہ شگفتہ اور دیگر والدین کے ساتھ اے پی ایس شہدا فورم کے اراکین کی میٹنگ میں شریک ہوئے۔ یہ اراکین وقتاً فوقتاً ماضی کو یاد کرنے اور ایک دوسرے کے حالیہ دنوں کے احوال دریافت کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
شگفتہ کھانے کی میز پر کبابوں کا ایک ڈبہ رکھتی ہے اور پھر ناصرہ کے ساتھ ہال کی طرف جانے لگتی ہے تو خواتین انہیں آواز دیتی ہیں کہ ’اسفند شہید کی ماں! کچن سے باہر آ کر ہمارے ساتھ بیٹھو‘۔
’میں اس واقعے کو دو پہلوؤں سے دیکھتا ہوں، جسمانی اور روحانی۔ جسمانی طور پر ہم یہ تکلیف برداشت نہیں کرسکتے لیکن روحانی طور پر ہمارے بچے شہید ہوئے ہیں اور ہم شہدا کے والدین ہیں۔ اس امر نے اے پی ایس شہدا فورم کی شکل میں ہمیں ایک نیا خاندان بنا دیا ہے۔ اس پلیٹ فارم کو کمزور کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں لیکن ہم نے آخری دم تک ساتھ رہنے کا عزم کیا ہے‘— 14 سالہ غسان (جماعت 8) کے والد ڈاکٹر امین الدین خان۔
شام 8 بجے تک شاہانہ کا ہال خواتین سے بھر جاتا ہے اور ان کی میز پر پلاسٹک کے کنٹینرز بھر جاتے ہیں جو خواتین اپنے ساتھ لاتی ہیں۔
’آپ نے ابھی تک اس کی تصاویر دیوار پر کیسے لگائی ہوئی ہیں؟‘ سیما نے شاہانہ سے پوچھا جس پر اردگرد بیٹھی خواتین نے ایک ساتھ سر ہلایا جیسے وہ بھی یہی سوال کرنا چاہ رہی ہوں۔ شگفتہ نے بتایا، ’میرے پاس صرف ایک فوٹو فریم ہے اپنے پلنگ پر‘ جبکہ ناصرہ نے بتایا کہ انہوں نے تمام تصاویر ایک باکس میں بند کردی ہیں جو اب اس کی الماری کے اوپر پڑا ہوا ہے۔ عذرا بی بی نے اعتراف کیا کہ ’جب بھی میں تصویروں کو دیکھتی ہوں تو میں رو پڑتی ہوں‘۔
کوئی خاتون بھی یہ توقع نہیں کررہی تھی کہ شاہانہ ان کے سوال کا جواب دیں گی جو کھانا لگانے میں مصروف تھیں۔ شاہانہ پوچھتی ہیں کہ ’شہید حسن زیب کی والدہ! کیا آپ مجھے کٹورا دے سکتی ہیں؟‘ اور یوں موضوعِ گفتگو بدل جاتا ہے۔
کھانے سے پہلے وہ تمام شہدا کے لیے خصوصی دعا کرتے ہیں۔
’اگر آج ہم زندہ ہیں تو یہ دوسرے شہدا کے خاندانوں کی وجہ سے ہے۔ ہم مہینے میں کم از کم دو بار ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔ ان ماؤں کا اپنا واٹس ایپ گروپ بھی ہے۔ ہم عام لوگوں کے سامنے رو نہیں سکتے کیونکہ وہ نہیں سمجھیں گے۔ یہ ہمیں سمجھ سکتے ہیں کیونکہ وہ بھی ہماری طرح کرب سے گزرے ہیں‘— 14 سالہ شہیر (جماعت 8) کے والد طارق جان
رات کے کھانے کے دوران شاہانہ نے اس دیوار پر نظر ڈالی جو ابھی چند لمحے پہلے زیرِ بحث تھی۔ اس پر ایک درجن سے زائد تصاویر اور یادگاریں آویزاں ہیں۔ اسفند کا اسکول میں پہلا دن، اسفند اپنے بہن بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ تصویر جبکہ اسفند کی شہادت سے چند روز پہلے کی تصویر بھی دیوار پر لگی ہے۔
باقی تمام ماؤں کے گھروں میں ایسی ہی دیواریں ہیں۔ ’لیکن حال ہی میں یہ تصاویر دیکھنا بہت ہی مشکل ہوگیا ہے کیونکہ اب درد تقریباً ناقابلِ برداشت ہوچکا ہے‘۔ سیما نے تبصرہ کیا اور کمرے میں موجود باقی سب ماؤں نے اثبات میں سر ہلایا۔
پچھلے 10 سال سے یہ والدین مہینے میں کم از کم دو بار اپنے شہید بچوں کا سوگ منانے کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔ یہ خاندان جو حملے کے دن تک ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں تھے، اب غم کے جذبے نے انہیں ایک مضبوط رشتے میں باندھ دیا ہے۔
چنانچہ جب سیما درد اور بے خواب راتوں کے بارے میں بات کرتی ہیں تو شگفتہ انہیں مشورہ دیتی ہیں کہ وہ گھر سے زیادہ باہر نکلیں۔ ناصرہ نے مشورہ دیا کہ انہیں اپنے بچوں کی شادی کر دینی چاہیے جس پر شاہانہ کی بیٹی مزاحیہ انداز میں کہتی ہیں کہ ’شہید ایمل خان کی والدہ! آپ رشتے والی آنٹی کیوں نہیں بن جاتیں؟‘ اور خواتین ہنسنے لگتی ہیں۔
’آج جو چیز مجھے امید اور طاقت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ میں پاکستان کا ہیرو ہوں۔ میں نے اس ملک کے لیے خون بہایا ہے اور میرے بچے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کے والد نے پاکستان کی بنیاد میں کردار ادا کیا ہے پھر چاہے کوئی اسے تسلیم کرے یا نہ کرے‘— اے پی ایس کے استاد اور زندہ بچ جانے والے ابو بکر وسیم
جیسے جیسے رات گزرتی رہتی ہے، فورم کے والدین ’خود غرض سیاست دانوں‘ سے ’لا پروا فوج‘ اور ’معذور عدالتوں‘ پر گفتگو کرنے لگتے ہیں اور پھر اگلی میٹنگ کی تاریخ طے کرتے ہیں۔
فورم کے اراکین شہدا کی سالگرہ ضرور مناتے ہیں لیکن صرف سالگرہ نہیں بلکہ گزشتہ سال پروفیسر گل شہزاد خٹک کی سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی کے وقت بھی تمام اراکین مہندی لے کر ان کے گھر پہنچ گئے تھے۔ گل شہزاد کی سب سے بڑی بیٹی شہید سعدیہ اے پی ایس میں انگریزی کی ٹیچر تھیں۔
ناصرہ کہتی ہیں، ’یہ واحد موقع ہے جب میں گھر سے باہر جاتی ہوں‘۔ پروفیسر خٹک نے کہا، ’فورم ہی ہمارا واحد خاندان ہے کیونکہ دوسرے ہمارے درد کو نہیں سمجھتے‘۔ سیما کے شوہر عتیق نے مزید کہا، اگر یہ فورم نہ ہوتا تو اولاد کو کھونے کا غم میری اہلیہ کو کھا جاتا’۔
’صرف ایک چیز جس نے مجھے قوت دی وہ میرا ایمان ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص جسے دو بار کینسر ہوا ہو لیکن وہ اسے شکست دے سکے؟ یہ امید دیتا ہے کہ خدا ایک ہے۔ دنیا میں رہنے کا کیا فائدہ اگر آپ اپنے ساتھی انسانوں کے لیےکچھ نہیں کرسکتے؟ جس دن سے میرے بیٹے کا جنازہ ہوا آج تک میرے اللہ نے میری نگہبانی کی ہے۔ میرے والدین نے میرا ساتھ دیا۔ ان کی زندگی میرے لیے مشعل راہ ہے۔ میری زندگی کے ان پہلوؤں نے مجھے امید بخشی اور مجھے شفا دی‘— اے پی ایس کی ٹیچر اور حملے میں زندہ بچ جانے والی عندلیب آفتاب جو 16 سالہ شہید حذیفہ کی والدہ ہیں۔
حصہ چہارم: درد سے نجات ممکن ہے؟
پشاور میں گزارے گئے ایک ہفتے کے دوران ان خاندانوں کے جذبات واضح طور پر ہم نے دیکھے۔ ان کے گھروں کی دیواروں پر لگے پوسٹرز میں ان کا درد، اپنے پیاروں کے فوٹو فریم کو دیے جانے والے بوسوں میں ان کے جذبات اور شہدا کے یونیفارم، میڈلز یہاں تک کہ ان کے لکھے ہوئے مضامین کی صورت میں انہوں نے اپنے بچوں کی یادوں کو زندہ رکھا ہے۔
اس رپورٹ کا ایک اور مقصد یہ جاننے کی کوشش کرنا تھا کہ 16 دسمبر 2014ء کو پیش آنے والے افسوس ناک سانحے سے شہدا کے اہل خانہ، زندہ بچ جانے والے اساتذہ یا طلبہ اور پاکستانی معاشرے کے زخم کس حد تک بھرے ہیں۔ ملاقات کے دوران متاثرین نے ہم سے دو سوال پوچھے، کیا اتنے بڑے صدمے سے باہر آنے کا کوئی صحیح یا غلط طریقہ ہے؟ کیا آپ کبھی مکمل طور پر صدمے سے نکل پاتے ہیں؟
ڈان ڈاٹ کام نے جن 3 ماہر نفسیات سے بات کی، ان کا ماننا ہے کہ کسی بھی خاندان کے لیے اپنے بچے کو کھو دینے سے کرب ناک کوئی چیز نہیں ہوسکتی لیکن جب بچوں کو اس طرح اچانک اور اتنے گھناؤنے انداز میں نقصان پہنچتا ہے تو اس سے ملنے والا غم بھی طویل عرصے تک برقرار رہتا ہے اور کبھی کبھی پوری زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔
اے پی ایس حملے کے چند سال بعد اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی کلینیکل سائیکولوجسٹ ڈاکٹر فائزہ ہارون نے پشاور میں چند شہدا کے والدین سے ملاقات کی، ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یاد ہے کہ کس طرح ان والدین نے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے متعلق مسکراتے ہوئے بات کی تھی۔ وہ یہ کبھی نہیں بھول سکتے‘۔
ماہر نفسیات حمیر یوسف کا کہنا ہے کہ ’اپنی اولاد کو کھونا بہت مختلف طرح کا دکھ ہے۔ یہ وہ غم ہے جو ہمیشہ ساتھ رہتا ہے، بس متاثرین اس کے ساتھ جینا سیکھ جاتے ہیں‘۔
ان خاندانوں کے گھروں کے اندر اور باہر لگی شہدا کی تصاویر سے متعلق حمیر یوسف نے بتایا کہ ’انہیں لگتا ہے انہیں بھولنا ان سے غداری کے مترادف ہوگا، اس لیے وہ اپنے بچوں کی تصاویر اور دیگر سامان کو محفوظ رکھتے ہیں تاکہ وہ ان کی یادوں میں زندہ رہیں‘۔
جب وہ ہر روز اپنے بچوں کے نام سے منسوب سڑک اور اسکول کے پاس سے گزرتے ہیں تب بھی وہ انہیں احساسات سے گزرتے ہیں۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر حنا پاشا نے کہا، ’کسی بھی قسم کی یاد جس کا مقصد کسی ایسے شخص کو خراج عقیدت پیش کرنا جو افسوسناک حادثے میں انتقال کرگیا ہو، ان کی موت کو معنیٰ دیتا ہے اور اہلخانہ کو تسکین پہنچاتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’جب ایسے لوگوں کو بھولنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ طریقہ عارضی طور پر تو کام آمد ثابت ہوسکتا ہے لیکن زخم اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔ ان کی رائے میں انہیں بھلانا زخم بھرنے کا درست طریقہ نہیں بلکہ اس کے لیے آپ کو انہیں بھلائے بغیر ہی زندگی میں آگے بڑھنا ہوگا۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ پشاور میں بہت سے لوگ یہی کررہے ہیں اور ان میں الطاف حسین بھی شامل ہیں جنہوں نے اے پی ایس حملے میں اپنی 6 سالہ بیٹی خولہ بی بی کو کھودیا جس کا اسکول میں پہلا دن تھا۔ حملے میں الطاف حسین کے پھیپھڑوں کو بھی نقصان پہنچا لیکن سانس لینے میں تکلیف کے باوجود اب بھی وہ ہفتے کے 5 دن 28 بچوں کی کلاس کو ریاضی پڑھانے اے پی ایس جاتے ہیں۔ اپنی بچی کو کھونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دیگر والدین کی طرح الطاف حسین اس واقعے کو ایسے یاد کرتے ہیں کہ جیسے یہ کل ہی رونما ہوا ہو۔
ڈاکٹر حمیر یوسف نے چھ ماہ سے زائد عرصہ چلنے والے غم کو ’غیر معمولی‘ قرار دیا ہے۔ ’جب کوئی شخص اپنی زندگیوں کو آگے بڑھاتا ہے تعلقات، کیریئر اور خاندان پر کام کرتا ہے تو انہیں کتنے عرصےتک سوگ منانا ہے، یہ ان کے معمولات زندگی پر منحصر ہوتا ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں یہ کہنے والے کہ غم کتنا ہے اور کیوں زیادہ ہے؟ سوال یہ پوچھا جانا چاہیے کہ کیا وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھے ہیں یا نہیں‘۔
ڈاکٹر حنا پاشا کا کہنا ہے کہ ہم سب انسان مہذب ہو چکے ہیں لیکن بنیادی سطح پر ہم سب کو زندہ رہنے کی ضرورت ہے، ہمارا جسم اور دماغ زندہ رہنے کے لیے مختلف طریقوں سے کام کرتے ہیں۔ یہ مختلف دفاعی میکانزم پیش کرتا ہے تاکہ ہم خود کو درد اور صدمے کے احساسات سے الگ کرسکیں یا ان سے لاتعلق رہ سکیں اور کسی نہ کسی طرح ان کے دلوں میں گہرے درد کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ والدین اپنے معمولات زندگی پر کیسے واپس آئے۔
جیسا کہ ڈاکٹر حمیر یوسف کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگوں کے لیے نئے معمول کا مطلب اسکول کے قریب سے نہ گزرنا ہے۔ دوسروں کے لیے یہ سانحہ اے پی ایس کی یادگاری تقریب میں شرکت نہ کرنا ہے۔ بہت سے لوگ روحانیت میں سکون تلاش کرتے ہیں۔ تو ہر فرد کا غم سے نمٹنے کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔ درد کو بانٹنا، شاید صدمے کو کم کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ خوش قسمتی سے ان والدین کو ایک دوسرے کا ساتھ میسر ہے‘۔
دورے کے دوران ہم نے جس میٹنگ میں شرکت کی، اس میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح جوڑوں نے بات چیت کی جس سے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ لوگ رشتہ داروں سے زیادہ آپس میں تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے درمیان واقفیت ہے جبکہ متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ اس سانحے کے بعد یہ فورم انہیں آپس میں جوڑتا ہے۔
ڈاکٹر حمیر یوسف اس فورم کو ایک سپورٹ گروپ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ان لوگوں کے ساتھ رہنا جو آپ کے جیسے تجربے سے گزرے ہیں، شفا بخش ہے اور غم سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے‘۔
زندہ بچ جانے والے طالب علم بھی ایک ساتھ بڑے ہوئے ہیں۔ وہ وقتاً فوقتاً ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ان میں سے کچھ نے گہرے تعلقات قائم کیے ہیں۔’گہرے تعلق‘ کا مطلب ہے کہ میں حملے کے علاوہ بھی زندگی کے دیگر معاملات میں وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہ عید کے موقع پر ملتے ہیں، ساتھ ٹینس کھیلتے ہیں، شاپنگ کرتے ہیں، لیکن میں وہی شخص ہوں جو اس حملے میں زندہ بچ جانے والوں میں آپ کے ساتھ شامل تھا۔
ڈاکٹر حنا پاشا کہتی ہیں ’جیسا کہ عدالتی کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں ذکر کیا ہے کہ شہدا کے والدین اور ان کے بہن بھائیوں نے بے حساب، مصائب اور تکالیف برداشت کی ہیں۔ ان حالات میں، ان کی زندگیوں کو ٹھیک کرنے اور بحالی کی کوشش کے طور پر تھراپی بھی لازمی ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا گیا ہے کہ حکومت اور مسلح افواج کو بھی اس عزم میں ساتھ دینا چاہیے۔
اسکول کے ساتھ ’آرمی‘ کا لفظ جڑا ہے تو ظاہر ہے بہت سی شکایات فوج سے بھی کی جاتی ہیں لیکن کیا ایک ایسا ادارہ جو جنگی صلاحیتوں کی طاقت رکھتا ہے اور دشمنوں سے بدلہ لیتا ہے، کیا وہ جذباتی طور پر سپورٹ فراہم کر سکتا ہے؟ ماہرین نفسیات کی اکثریت نے اس سوال کا نفی میں جواب دیا۔ ایک ادارے کے طور پر یہ ہمدردی نہیں کرسکتا۔ وہ احترام کا مظاہرہ کر سکتے ہیں اور خراج تحسین پیش کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
اور جیسا کہ ڈاکٹر حمیر یوسف بتاتے ہیں کہ حکومت کو صرف ایک ہی کام کرنا چاہیےکہ خاندانوں کی آواز سنیں۔ ’حکومت کو ان کا احوال چاہیے اور پھر ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے تھا لیکن جب نفسیاتی تھراپی کی ضرورت پوری نہیں ہوتی تو آپ کے خاندان کے سب ہی لوگ، دادا، چاچا و دیگر، تھراپسٹ کا کردار ادا کرنے لگتے ہیں۔ آپ ان کے ساتھ چیزیں شیئر کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن وہ بھی اپنے مسائل سے نمٹ رہے ہوتے ہیں تو وہ سپورٹ فراہم نہیں کرپاتے جس کی ضرورت ہوتی ہے‘۔
پاکستان اور بالخصوص پشاور سانحات اور دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ مساجد اور بازاروں میں ہونے والے حملوں میں بچے مارے جاتے ہیں جن کی حفاطت ہمیشہ تشویش میں مبتلا کرتی ہے۔ تو پھر کیا چیز ہے جو اے پی ایس کے سانحے کو مختلف بناتی ہے؟
ڈاکٹر حنا پاشا کہتی ہیں کہ ’اس حملے سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوا سوائے درد کے۔ ہر ایک یہ بات جانتا ہے کہ ہمارے کمزور ترین حصے کو نشانہ بنایا گیا ہے‘۔
ڈاکٹر یوسف کہتے ہیں کہ اے پی ایس حملے نے ’بے حس معاشرے‘ کو ہلا کر رکھ دیا کیونکہ شہدا میں اکثریت بچوں کی تھی۔ ’مجھے نہیں لگتا کہ ہم اس سے آگے بڑھ سکتے ہیں، یہ ایک اجتماعی صدمہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں تشدد عام ہوچکا ہے۔ ہم صرف اس کے بارے میں بھول جانے اور آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ہم بے حس ہو چکے ہیں‘۔
ترجمہ: خولہ اعجاز
تدوین: فرحان محمد خان
اس تحریر کو انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔