• KHI: Zuhr 12:45pm Asr 4:36pm
  • LHR: Zuhr 12:15pm Asr 3:54pm
  • ISB: Zuhr 12:20pm Asr 3:55pm
  • KHI: Zuhr 12:45pm Asr 4:36pm
  • LHR: Zuhr 12:15pm Asr 3:54pm
  • ISB: Zuhr 12:20pm Asr 3:55pm
کبوتروں کی ریس ایک دلچسپ کھیل ہے جسے سیاستدان اور کاروباری حضرات مشغلے کے طور پر اپناتے ہیں—تصویر: اے ایف پی

ملک بھر میں کبوتروں کی ریس کا بڑھتا رجحان اور ’کبوتربازی‘ کے منفی تصورات

'کبوتر پالنا اور انہیں تربیت دینا ایک مشغلہ ہے جو ہمیں اپنے مغل آبا و اجداد سے ورثے میں ملا ہے لیکن جب لوگ اسے 'کبوتر بازی' کہتے ہیں تو ہمیں بالکل اچھا نہیں لگتا'۔
شائع January 24, 2025

صبح کے 5 بج رہے ہیں اور مقابلے میں صرف دو گھنٹے باقی ہیں۔ ’چرسی‘ کو ریس کے لیے تیار ہونا ہے۔

احمد جنہوں نے چرسی کو شام میں بادام اور پستے کھلائے تھے، اب وہ چاہتے ہیں کہ وہ ہلکا محسوس کرے۔ چرسی اونچی پرواز کرنے والا ایک کبوتر ہے جسے ریس کے لیے تیار ہونا ہے۔

احمد ایک چھوٹی سرنج میں پانی بھرتے ہیں اور اسے چرسی کی چونچ میں ڈالتے ہیں تاکہ اس نے جتنا بھی اضافی کھانا کھایا جو ہضم نہ ہوسکا وہ قے کرکے پیٹ سے باہر نکال دے۔

یہ کرنے کے بعد وہ اپنے کبوتر کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔ احمد اس کے پر کھول کر دیکھتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے یا نہیں۔ اس کے پنجوں کی ہلکی ہلکی مالش کرتے ہیں اور اس کے پروں کو آہستگی سے سہلاتے ہیں، ریس سے قبل وہ چرسی کے ساتھ باتیں کرتے ہیں کہ وہ ریس پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور اپنے مالک کو ریس جتوائے۔

اور پھر وہ چرسی کو چھوڑ دیتے ہیں اور احمد اپنے دیگر کبوتروں کیوٹی، میزائل، کالو، ٹافی، کونکورڈ اور راکٹ کی جانب توجہ مرکوز کرتے ہیں جن کی وہ اسی طرح دیکھ بھال کرتے ہیں جس طرح وہ چرسی کی کرتے ہیں۔

کچھ دیر بعد امپائر چھت پر آجاتا ہے۔ احمد کے ساتوں کبوتر ریس کے لیے تیار ہیں۔ ایک دو تین کے ساتھ امپائر وقت نوٹ کرتا ہے اور پھر کبوتروں کو چھوڑ دیا گیا۔ امپائر ایک چھت سے دوسری چھت پر جا کر اور ریس دیکھتے ہوئے نوٹ کرتے رہتے ہیں۔ وہ ان اونچے مقامات کے نام لکھتے ہیں جہاں سے کبوتر چھوڑے گئے تھے، ان کی واپسی کا وقت، ہر کبوتر نے کتنا فاصلہ طے کیا اور ان کی رفتار کیا تھی وغیرہ سب نوٹ کرتے ہیں۔

فیس بک پر ’پیجن پیشن اسپورٹس کراچی‘ کے نام سے کبوتر کے کھیلوں کے آفیشل پیج کو مینج کرنے والے کاشان سردار کہتے ہیں، ’کچھ ٹورنامنٹس میں 7 کبوتر ہوتے ہیں، جبکہ کچھ میں 11 کبوتر ہوتے ہیں‘۔ کاشان اپنے فیس بُک پیج کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور باقاعدگی سے اس میں شہر بھر میں منعقدہ ٹورنامنٹس اور اس کے نتائج کے حوالے سے معلومات اپڈیٹ کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’کبوتروں کے مقابلے بہت سے ممالک میں عام ہیں۔ پاکستان کے علاوہ یہ مقابلے امریکا، کینیڈا، اٹلی، چین اور بیلجیئم وغیرہ میں بھی ہوتے ہیں‘۔

کاشان سردار وضاحت کرتے ہیں کہ ’اس کھیل کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے کبوتروں کی اقسام کو سمجھنا ہوگا۔ کچھ نسلیں اونچی پرواز کرتی ہیں کچھ نچلی، کچھ ریس کے لیے موزوں ہوتے ہیں کچھ کبوتر اپنی خوبصورتی کی وجہ سے منفرد لگتے ہیں۔ اگرچہ ان تمام اقسام کے کبوتروں کے لیے الگ الگ ٹورنامنٹس ہوتے ہیں لیکن سب سے اہمیت کی حامل کبوتروں کی ریس ہی ہوتی ہے جہاں اچھی صلاحیت اور زیادہ قوتِ برداشت رکھنے والے کبوتر طویل فاصلے طے کرتے ہیں۔ اس قسم کے کبوتر دیگر کبوتروں سے مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ کو پنجاب میں چھوڑا جاتا ہے اور وہ کراچی پہنچ جاتے ہیں۔ ان کی پرواز کا دورانیہ 80، 100 یا 125 گھنٹے کے درمیان ہوسکتا ہے‘۔

  کبوتر کی ریس کے دوران تماشائی اور کبوتروں کے مالکان مقابلہ دیکھ رہے ہیں—تصویر: اے ایف پی
کبوتر کی ریس کے دوران تماشائی اور کبوتروں کے مالکان مقابلہ دیکھ رہے ہیں—تصویر: اے ایف پی

کاشان سردار نے بتایا کہ ’اونچی پرواز کرنے والے کبوتروں کے بھی ٹورنامنٹس ہوتے ہیں جنہیں ہائی فلائنگ بریگیڈ کہتے ہیں۔ جب وہ اڑتے ہیں تو وہ اتنا اونچا اڑتے ہیں کہ وہ نظر بھی نہیں آتے۔ چھتوں اور اونچائی سے ان کے مالکان انہیں چھوڑتے ہیں جنہیں ہم کبوتر کے کھیلوں میں لنگو کہتے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ کے منتظمین میں ایک امپائر ہوتا ہے جسے منصف کہتے ہیں، وہ ایک چھت سے دوسری چھت پر جا کر ریس کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔

’اونچی پرواز کرنے والے کبوتروں کو شام تک رات 8 بجے سے قبل اسی مقام پر واپس آنا ہوتا ہے جہاں سے صبح انہیں چھوڑا گیا تھا۔ اگر وہ 8 بجے کے بعد واپس آتے ہیں تو مقابلے کا وقت ختم ہوجائے گا اور وہ مقابلے سے باہر ہوجائیں گے۔ اور اگر کبوتر اس وقت سے پہلے یا وقت پر آجاتے ہیں لیکن وہ منصف کو مقابلے کے دوران زمین پر اترتے پائے گئے، مقابلے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ اس کھیل کے اصولوں کے مطابق، ان کبوتروں کو اسی مقام پر واپس آنا ہوتا ہے ورنہ اس کی واپسی کا وقت نوٹ نہیں کیا جاتا‘۔

کاشان سردار مختلف مقابلوں کے لیے اصول بیان کرتے ہیں کہ ’دوسری جانب نچلی پرواز کرنے والے کبوتروں کے لیے واپسی کا کوئی وقت مختص نہیں ہوتا۔ انہیں بس ایک گھنٹے کی پرواز کے بعد امپائر کو اپنی موجودگی کا پتا دینا ہوتا ہے‘۔

وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’خوبصورت کبوتروں کی بھی ایک قسم ہوتی ہے اور ان کے مقابلے میں خوبصورت کبوتر ہوتے ہیں جن کی دُم حسین ہوتی ہے اور ان کے پر ہاتھ سے جھلنے والے پنکھے کی طرح حسین ہوتے ہیں۔ لیکن یہ پرندے زیادہ دیر فضا میں پرواز نہیں کرسکتے۔ یہ کسی شو پیس کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر ان کی قسم کے لیے کوئی مقابلہ ہوتا ہے تو ان مقابلوں کے معیارات بھی خوبصورتی اور دیکھ بھال پر مبنی ہوتے ہیں‘۔

  خوبصورت کبوتروں کے مقابلے کے معیارات بھی خوبصورتی پر مبنی ہوتے ہیں—تصویر: اے ایف پی
خوبصورت کبوتروں کے مقابلے کے معیارات بھی خوبصورتی پر مبنی ہوتے ہیں—تصویر: اے ایف پی

کبوتروں کے مقابلے کاروباری، صنعت کاروں حتیٰ کہ سیاست دانوں جیسے بڑے لوگوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ یہ انہیں ایک دلچسپ کھیل اور مشغلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ کاشان سردار کہتے ہیں، ’یہ ایک آؤٹ ڈور تفریحی سرگرمی ہے جس سے ہم سب کو مل بیٹھنے کا موقع ملتا ہے‘۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’یہاں تک کہ کراچی میں متحدہ عرب امارات کے قونصل جنرل، ڈاکٹر بخیت عتیق الرمیتھی بھی اس کھیل میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ اپنی رہائش گاہ کی چھت سے کبوتروں کو چھوڑتے ہیں جو ہمارے ٹورنامنٹس میں کبوتر پوائنٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہوتے ہے۔ کراچی میں پیجن الائنس ہوا کرتا تھا جس کے تحت کئی ٹورنامنٹس کا انعقاد ہوتا تھا لیکن ڈاکٹر بخیت نے اس کی ذمہ داری سنبھالی اور اس کا نام ابوظبی الائنس رکھ دیا جو کبوتر کے بہت سے بڑے ٹورنامنٹس کا انعقاد کرتی ہے۔

’اگر آپ کبوتروں سے محبت کرنے والے دیگر ناموں کو دیکھیں تو ان میں معروف باکسر مائیک ٹائسن بھی شامل ہیں۔ انہیں کبوتر پالنے کا بےحد شوق ہے اور ان کا یہ شوق اس وقت منظرعام پر آیا کہ جب انہوں نے پولینڈ کے ایک گاؤں کا دورہ کیا اور وہاں کی کبوتر کی نسل کے سیکڑوں کبوتر خریدے‘۔

جوہر پیجن فلائنگ ایسوسی ایشن جس کے تحت بہت سے کلبز رجسٹرڈ ہیں، اس کے چیئرمین دانش خان کہتے ہیں کہ اس کھیل سے ہماری اناؤں کو تسکین ملتی ہے۔ ’کبوتر پالنا اور انہیں تربیت دینا ایک مشغلہ ہے جو ہم نے اپنے مغل آبا و اجداد سے ورثے میں ملا ہے۔ وہ بھی پیغام رسانی کے لیے کبوتروں کا استعمال کرتے تھے‘۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’لیکن کچھ لوگ اس مشغلے کو غلط سمجھتے ہیں۔ وہ ہمیں حقارت سے دیکھتے ہیں اور اسے ’کبوتر بازی‘ کہتے ہیں جوکہ بالکل اچھا نہیں لگتا۔ یہ لوگ ہمارے مشغلے کو وقت کا ضیاع قرار دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کے خیالات سے ہمیں کوئی فرق پڑتا ہے لیکن کچھ کبوتر کے مقابلوں کو جوئے سے بھی منسلک کیا جاتا ہے‘۔

دانش خان بتاتے ہیں، ’ہم دنیا کے جس حصے میں رہتے ہیں، یہاں یہ سچ ہے اور میں کبوتروں کے کھیلوں اور اس سے جڑی انا کے حوالے سے بتانا چاہوں گا۔ بہت سال قبل کبوتر کے مقابلے کے شوقین فرد جو پرندوں کو تربیت دینے پر فخر محسوس کرتا تھا، اس نے شرط لگائی کہ اس کا کبوتر فلاں ریس ہار گیا تو وہ اپنی بیٹی کی شادی جیتنے والے کبوتر کے مالک سے کردے گا۔ اور اسے ایسا کرنا پڑا‘۔

وہ ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’وہ لڑکی خود فخر سے بتاتی ہے کہ اس کی شادی کیسے ہوئی‘۔

دانش خان کہتے ہیں، ’وہ بہت مختلف دور تھا جہاں بیٹیاں اپنے والدین کی پسند اور ان کے فیصلوں پر اعتراض نہیں کرتی تھیں۔ لیکن حالیہ دنوں ہم صرف انعامی رقم تک محدود رہتے ہیں‘۔

جیتنے والے کبوتر کی سب سے اونچی بولی لگتی ہے۔ دانش خان کے مطابق، ’میرے ایک کلب ٹورنامنٹ میں ایک مالک نے اپنا سب سے اونچا اُڑنے والا کبوتر 2 کروڑ روپے میں فروخت کیا۔ اسی طرح ایک اور کبوتر جس نے ایک ہزار 200 کلومیٹر کی مسافت طے کی، وہ 2 کروڑ 20 لاکھ میں فروخت ہوا‘۔

  بہت سے بین الاقوامی ممالک میں بھی لوگ کبوتروں کو پالنے کا شوق رکھتے ہیں—تصویر: اے ایف پی
بہت سے بین الاقوامی ممالک میں بھی لوگ کبوتروں کو پالنے کا شوق رکھتے ہیں—تصویر: اے ایف پی

وہ کہتے ہیں، ’یہ کبوتر پالنے اور ان کے کھیلوں کے شوقین افراد کے لیے ہے کہ وہ اپنے پرندوں کی ٹھیک طرح دیکھ بھال کریں۔ مقابلے میں حصہ لینے کے لیے کبوتروں کی دیکھ بھال اور انہیں اچھی خوراک فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ہم ان کبوتروں پر اسی طرح کام کرتے ہیں جیسے کوئی باڈی بلڈر اپنے مسلز بنانے کے لیے محنت کرتا ہے۔ ہم انہیں خشک پھل کھلاتے ہیں اور کم مقدار میں جڑی بوٹیاں جیسے کستوری کھلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ امبرگریس جسے وہیل کی قے کہہ سکتے ہیں اور مشک کافور بھی کبوتروں کو دیتے ہیں‘۔

دانش خان مزید کہتے ہیں کہ ’ایک طویل ریس کے بعد کچھ مالش تجویز کی جاتی ہیں جن سے کبوتر جلد ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ہم ان کے پنجوں کی مالش کرتے ہیں۔ اُڑنے کی وجہ سے ان کے پروں میں گرد جم جاتی ہے، ہم اسے صاف کرتے ہیں‘۔

دانش خان اور کاشان سردار دونوں کے خیال میں کبوتروں کے مقابلوں کا رجحان ملک میں اس حد تک پھیل چکا ہے کہ حکومت کو ان پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کاشان سردار کہتے ہیں، ’محض سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ حکومت کی معاونت سے پاکستان قومی و بین الاقوامی سطح پر بھی کبوتروں کے کھیلوں میں ایک بڑا نام بنا سکتا ہے‘۔

دانش خان نے کہا کہ ’اس کھیل میں پہلے ہی بہت سے سیاست دان دلچسپی لیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم ابھی تک ’کبوتربازی‘ سے متعلق منفی تصورات کو ختم نہیں کرپائے، کاش یہ بھی اتنی آسانی سے ختم ہوپائیں جس طرح طویل پرواز سے آنے والے کبوتر کے پروں سے ہم گرد صاف کردیتے ہیں‘۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

شازیہ حسن

لکھاری ڈان اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔