• KHI: Asr 4:43pm Maghrib 6:19pm
  • LHR: Asr 4:02pm Maghrib 5:40pm
  • ISB: Asr 4:03pm Maghrib 5:42pm
  • KHI: Asr 4:43pm Maghrib 6:19pm
  • LHR: Asr 4:02pm Maghrib 5:40pm
  • ISB: Asr 4:03pm Maghrib 5:42pm

زچہ اور بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے کے لیے پاکستان کیا کرسکتا ہے؟

شائع 05 فروری 2025 03:26pm

حمل، دوران پیدائش اور بعد از پیدائش خواتین کی جسمانی، سماجی، جذباتی اور ذہنی صحت کے تمام پہلو ماں کی صحت (میٹرنل ہیلتھ) کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کو زچہ اور بچے کی صحت کے حوالے سے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ بدقسمتی سے کم وسائل والے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں صورت حال زیادہ بدتر ہے کیونکہ یہاں زچہ اور بچوں کی بڑی تعداد ’لیبر‘ کے دوران یا اس کے فوراً بعد مر جاتی ہے، بچوں کی قبلِ از وقت پیدائش ہورہی ہے یا بچے مردہ حالت میں پیدا ہورہے ہیں۔

پاکستان نے مقامی صحت اور صحت عامہ کی مجموعی خدمات کو بہتر بنا کر ماں اور بچے کی صحت کا معیار بہتر کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں شیر خوار بچوں اور ماؤں میں اموات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم علاقائی بنیادوں پر صحت کی مختلف سہولیات کا فرق اب بھی موجود ہے اور بہت سے لوگ دور افتادہ علاقوں میں رہائش ہونے کی وجہ سے صحت کی وہ خدمات حاصل نہیں کر پاتے جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔

یوں بچوں اور ماؤں کی شرح اموات میں اضافہ ہوتا ہے بالخصوص دیہی علاقوں میں اموات کی شرح زیادہ ہے کیونکہ وہاں غربت، جغرافیائی اور ثقافتی عوامل زچگی کی صحت کے مسائل کو مزید خراب کرتے ہیں۔

زیادہ تر دیہی یا دور افتادہ علاقوں میں رہائش، کم آمدنی، کم عمری اور محدود تعلیم جیسے عوامل کی وجہ سے پاکستان میں زچہ اور بچے کی اموات رونما ہوتی ہیں۔ صحت کے ان مسائل کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں بہت سی خواتین تعلیم یافتہ نہیں جبکہ وہ غریب علاقوں میں رہتی ہیں۔ ان خواتین کے پاس وسائل یا آگاہی کا فقدان ہے جبکہ انہیں اچھی غذائیت بھی میسر نہیں۔ ان خواتین کو نقصان دہ سماجی و ثقافتی فرسودہ طریقے بھی اختیار کرنا پڑتے ہیں جس سے ان کی حالت مزید خراب ہوتی ہے۔

یونیسیف کے مطابق پاکستان میں روزانہ تقریباً 700 بچے ایک ماہ کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں جبکہ روزانہ 665 مردہ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ان اموات کی بنیادی وجوہات بچوں کی قبلِ از وقت پیدائش اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں ہیں۔

پاکستان کے دیہی علاقوں میں بچوں اور زچہ کی اموات کی شرح زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک ماہ سے کم عمر بچوں کی اموات کی شرح کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہری علاقوں میں ایک ہزار پیدائشوں میں سے 47 بچے ایک ماہ کی عمر کو پہنچنے سے پہلے مرجاتے ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں یہی تعداد 62 بچوں تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ فرق بنیادی طور پر ایسی ڈلیوریز کی وجہ سے ہے جو اکثر ناتجربہ کار دائیوں کے ہاتھوں صحت کے ناقص حالات میں انجام دی جاتی ہیں۔

صحت کی معیاری سہولیات کا فقدان، غربت، غذائیت کی کمی اور صنفی بنیاد پر تشدد دیہی علاقوں میں زچہ و بچہ کی شرح اموات میں اضافے کے اہم عوامل ہیں۔

پاکستان کے دیہی علاقوں میں زچگی کے لیے صحت کی خدمات حاصل کرنے میں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ معاشی عوامل کی وجہ سے معیاری صحت مشکل امر ہے۔ غربت بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ یہ حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں دونوں کے لیے غذائیت سے بھرپور خوراک، طبی خدمات، نقل و حمل اور ضروری ادویات کے اخراجات اٹھانے کی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہے۔

مطالعات سے سامنے آتا ہے کہ غربت اور قبل از پیدائش کے بعد صحت کی سہولیات کی فراہمی میں تاخیر کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ مالی حالت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی خواتین ہسپتالوں کے بجائے گھروں میں دائیوں کے ہاتھوں بچے کو جنم دینے کا انتخاب کرتی ہیں جس کے نتائج سنگین ہوسکتے ہیں۔ اس سے ایک ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جہاں زچگی کی صحت سے متعلق مسائل بڑھ جاتے ہیں اور غربت سے بچاؤ انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔

رہائش اور مالی حالات کے علاوہ پاکستان میں ماں اور بچے کی صحت سماجی اور ثقافتی عوامل کی بنا پر بھی سخت متاثر ہوتی ہے۔ بچپن کی شادی، کم عمری میں زچگی، غربت، صنفی عدم مساوات اور خاندانی نظام میں توسیع جیسی چیزیں ایک کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ عوامل اکثر ایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں جو پہلے سے مشکل صورت حال کو مزید بدتر بنا دیتے ہیں۔

بہت سے ممالک میں کم عمری کی زچگی، صحت کے ایک بڑا مسئلے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ 2020ء میں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ ایک کروڑ 30 لاکھ اور ایک کروڑ 70 لاکھ خواتین نے 20 سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل بچے کو جنم دیا۔ اس سے ماں اور بچے دونوں کے لیے صحت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں خواتین پر کم عمری میں ماں بننے کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے۔ نوعمری کی زچگی کا کم عمری کی شادی سے گہرا تعلق ہے جوکہ قبل از وقت حمل کی بنیادی وجہ ہے۔ مناسب وقفے کے بغیر بچوں کی پیدائش ہوتی ہیں اور خاندانی منصوبہ بندی کے بغیر حمل ٹھہرتے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں کم عمری کی شادیاں عام ہیں جہاں دنیا بھر کے تناسب میں 44 فیصد بچیوں کی شادی کم عمری میں کردی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جنوبی ایشیا میں ہر چار میں سے ایک لڑکی کی 18 برس عمر سے قبل شادی ہوجاتی ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان ان ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر موجود ہے جہاں کم عمری کی شادیاں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ ملک کے جنوبی علاقوں میں شدید غربت اور صنفی عدم مساوات کی وجہ سے کم عمری کی شادیاں عام ہوتی جارہی ہیں۔

سندھ کے جیکب آباد اور کشمور اضلاع میں سب سے زیادہ کم عمری کی شادیاں ہوتی ہے۔ جیکب آباد میں 15 سال کی عمر سے پہلے سب سے زیادہ شادیوں کی شرح ریکارڈ کی گئی ہے۔ اگرچہ کم عمری کی شادیاں غربت کی وجہ سے ہوتی ہیں لیکن بہت سے اضلاع میں معاشی پسماندگی کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی سے آنے والی آفات کی وجہ سے بھی کم عمری کی شادی میں اضافہ ہوا۔ یہ پہلے سے ہی پسماندگی کا شکار خواتین اور لڑکیوں کے لیے زچگی کی صحت کے خطرات کو مزید خراب کرسکتے ہیں۔

کم عمری کی شادی کے لڑکیوں کی صحت پر قابلِ ذکر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ تعلیم اور معاشی مواقع سے محروم ہوجاتی ہیں۔ کم عمر ہونے کی وجہ سے ان کے کم عمری میں ماں بننے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جبکہ وہ تولیدی صحت اور خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق فیصلے لینے میں انتہائی کمزور ہوجاتی ہیں۔ کم عمر بچیاں شادی کی وجہ سے اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوتی ہیں اور وہ چھوٹی عمر میں گھریلو کام کاج میں مصروف ہوجاتی ہیں جبکہ کم عمری میں حمل ٹھہر جاتا ہے، ان تمام عوامل کی وجہ سے ان کے لیے بہتر مستقبل کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں ماں اور بچے کی صحت کو محفوظ بنانا مشکل ہدف ہے۔ اگرچہ حمل اور بچے کی پیدائش کے دوران خواتین کو بہتر صحت کی سہولیات فراہم کرنے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے لیکن اب بھی ایسی پالیسیز کی ضرورت ہے جن کی رسائی دیہی علاقوں تک ہو جبکہ انہیں صحت کی دیکھ بھال اور خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرامز میں شامل کیا جائے۔ اس کے علاوہ صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں صنفی بنیاد پر عدم مساوات کو دور کرنا اور ان کو ختم کرنا ضروری ہے۔

زچہ کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان سماجی و ثقافتی رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو خواتین کی آزادی اور فیصلہ سازی کو محدود کرتی ہیں۔ زچگی کی صحت کے بارے میں کمیونٹی کے عقائد، طریقوں اور خاندانی فیصلوں کی تحقیق سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ وہ کون سے دیگر عوامل ہیں جن کی مدد سے ہم نتائج کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

آگاہی مہم کے ذریعے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ خواتین اور خاندانوں کو تعلیم تک رسائی حاصل ہو جبکہ خواتین کی صحت کے لیے سرگرم کارکنان کو پسماندہ علاقوں میں نوجوان لڑکیوں تک رسائی حاصل ہو تاکہ انہیں بہتر انتخاب کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ ماؤں اور بچوں کی صحت کو بہتر بنانے میں کارگر ثابت ہوگا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

نادیہ آغا

نادیہ آغا تدریس سے وابستہ ہیں، اور یونیورسٹی آف یارک، انگلینڈ سے وومین اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ Aghanadia@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 5 فروری 2025
کارٹون : 4 فروری 2025