• KHI: Zuhr 12:44pm Asr 4:56pm
  • LHR: Zuhr 12:15pm Asr 4:21pm
  • ISB: Zuhr 12:20pm Asr 4:24pm
  • KHI: Zuhr 12:44pm Asr 4:56pm
  • LHR: Zuhr 12:15pm Asr 4:21pm
  • ISB: Zuhr 12:20pm Asr 4:24pm

دھماکے میں شہید ہونے والے مولانا حامد الحق کون تھے؟

نوشہرہ میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی جامع مسجد میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ اور دارالعلوم حقانیہ کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق سمیت 6 افراد شہید ہوئے۔
شائع February 28, 2025

خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی جامع مسجد میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ اور دارالعلوم حقانیہ کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق سمیت 6 افراد شہید اور 20 زخمی ہوئے۔

مولانا حامد الحق ممتاز عالم دین سمیع الحق حقانی کے صاحبزادے تھے، جنہیں ’بابائے طالبان‘ بھی کہا جاتا تھا، جنہیں 2018 میں قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد حامد الحق نے پشاور سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وسیع و عریض مدرسے میں بطور نائب مہتمم انتظام سنبھالا تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق دارالعلوم حقانیہ پاکستان کے بڑے اور پرانے مدارس میں سے ایک ہے، جہاں تقریباً 4 ہزار سے زائد طلبہ رہائش پذیر ہیں، جنہیں مفت تعلیم کے ساتھ کپڑے اور کھانا بھی دیا جاتا ہے، دارالعلوم حقانیہ کی ویب سائٹ کے مطابق کئی سرکردہ طالبان رہنما بشمول حقانی نیٹ ورک کے رہنما سراج الدین حقانی نے مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔

  —فائل فوٹو: رائٹرز
—فائل فوٹو: رائٹرز

سمیع الحق حقانی کی پہلی بیوی کے دوسرے بیٹے حامد الحق نے اپنی دینی اور دنیاوی تعلیم اپنے دادا مولانا عبدالحق سے مدرسہ کے احاطے میں واقع حقانیہ ہائی اسکول سے حاصل کی۔

انہوں نے نوشہرہ ڈگری کالج سے اسلامیات میں بیچلرز مکمل کیا اور 80 کی دہائی کے آخر میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا، شہید حامد الحق نے سیاسی کیرئیر کا آغاز 1985 میں جمعیت علمائے اسلام (س) کے طلبہ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ سے بطور سیکریٹری جنرل کیا۔

وہ نومبر 2002 سے 2007 تک قومی اسمبلی کے رکن رہے اور 2018 میں اپنے والد کے قتل کے بعد جے یو آئی (س) کے چیئرمین مقرر ہوئے۔

  —فوٹو: رائٹرز
—فوٹو: رائٹرز

مولانا حامد الحق دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی رہے، جو کئی سالوں سے غیر فعال ہے، یہ کونسل بنیادی طور پر جماعت الدعوۃ اور اہل سنت والجماعت کی چھتری تلے بنایا گیا تھا، دفاع پاکستان کونسل کا قیام 2011 میں پاک-افغان سرحد پر امریکی افواج کے ہاتھوں پاکستانی افواج کی شہادت کے ردعمل میں کیا گیا تھا، تاہم یہ 2018 میں بانی مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد غیر فعال رہی۔

شہید مولانا حامد الحق کی قیادت میں 2023 میں دوبارہ دفاع پاکستان کونسل وجود میں آئی، جس نے مبینہ طور پر سیاست دانوں کی طرف سے ’قومی مفادات‘ کو نقصان پہنچانے کی ’سازشوں‘ سے خبردار کیا۔

گزشتہ برس مولانا حامد الحق نے ’مذہبی سفارت کاری‘ کے ایک حصے کے طور پر افغانستان جانے والے پاکستانی علماء کے ایک وفد کی قیادت کی تھی، جہاں انہوں نے طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی تھی، دورے کے بارے میں بات کرتے ہوئے مولانا حامد الحق نے بتایا تھا کہ اس سے اسلام آباد اور کابل کے درمیان عدم اعتماد کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔

انڈیپینڈنٹ کو 2021 میں انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مدرسہ حقانیہ نے امریکی اور افغان سفیروں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم کی میزبانی بھی کی تھی، جبکہ ان کے والد نے خطے میں مفاہمت اور امن لانے کے لیے پاکستان، افغانستان اور طالبان کے درمیان اہم ثالثی کا کردار ادا کیا ۔

مولانا حامد الحق نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’بہت سارے لوگ ہیں جو ہمیں الزام دیتے ہیں اور ہمیں دہشت گردی کی یونیورسٹی کہتے ہیں کیونکہ وہ اسلام کے خلاف ہیں، ہمیں ایک دہشت گرد تنظیم کا کیمپس قرار دے کر وہ لوگوں کو ہم سے اور اسلام سے خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں۔‘

2021 میں ڈیلی ٹائمز کے ساتھ ایک اور انٹرویو میں انہوں نے زور دیا تھا کہ پاکستان کو ’صورتحال کو مستحکم کرنے‘ کے لیے کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے، مزید کہا تھا کہ اگرچہ پاکستان نے بہت کچھ کیا ہے، لیکن اسے اب بھی دہشت گرد گروپوں کی بحالی کو روکنے کے لیے ایک طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

شہید مولانا حامد الحق نے کہا تھا کہ ہمیں انٹیلی جنس پر مبنی پالیسیاں، مضبوط انسداد دہشت گردی قانونی فریم ورک اور غیر مراعات یافتہ لوگوں کی شکایات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔