ٹرمپ-زیلنسکی مباحثہ: ’امریکا کو سمجھنا ہوگا کہ وہ تنازعات سے دوری اختیار نہیں کرسکتا‘
ٹی وی پر براہ راست دکھائی جانے والی اوول آفس کی کارروائی میں جب بحث چھڑ گئی تو اس نے پوری دنیا کو ششدر کردیا۔ امریکی صدر اور ان کے مہمان یوکرینی صدر اونچی آواز میں ایک دوسرے سے جملوں کا تبادلہ کرتے رہے جبکہ یہ بحث امریکی نائب صدر کے تبصرے کی وجہ سے شروع ہوئی جو یوکرینی صدر پر انگلی اٹھا کر تنقید کرتے نظر آئے۔
اگر دنیا کو اس حوالے سے کسی اور ثبوت کی ضرورت تھی کہ آج ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیز 105 برس پہلے کے سابق امریکی صدر وارن ہارڈنگ کی پالیسیز (تجارت، ٹیرف اور عالمی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا) سے مماثل ہیں جو 1920ء میں وائٹ ہاؤس میں تھے، تو یہ ثبوت ہم نے دونوں صدور کی ملاقات کے دوران دیکھا جہاں جے ڈی وینس نے اس موازنے کو مزید پختہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے یوکرینی صدر کو ایسے جال میں پھنسایا کہ وہ غلطی کر بیٹھے۔ جی ہاں، بہ ظاہر یہ اچانک شروع ہونے والی بحث تھی لیکن میرے خیال میں یہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔ یہ صورت حال ٹرمپ کے ’میک امریکا گریٹ اگین‘ کے حامیوں کو خوش کرنے کے لیے پیدا کی گئی تھی۔ امریکی دائیں بازو کے میڈیا نے اس بحث پر جیسا ردعمل دیا، تعریف کی کیونکہ اس سے ان کے اس مؤقف کو تقویت ملی جو وہ بارہا اختیار کررہے تھے کہ امریکا ایک بےمعنی جنگ میں اپنا پیسہ جھونک رہا ہے۔
جہاں ’آزاد دنیا‘ کے نئے علمبردار یورپ کے کئی ممالک کے سربراہان جیسے برطانیہ کے کیئر اسٹارمر، فرانس ایمانوئل میکرون، اسپین کے پیڈرو سینچیز، پولینڈ کے ڈونلڈ ٹسک سمیت دیگر یورپی رہنما ولادیمیر زیلنسکی کے دفاع اور حمایت میں آواز اٹھاتے نظر آئے وہیں ہنگری کے وکٹر اوربان جو خود کو ٹرمپ کا قریبی اتحادی قرار دیتے ہیں، واحد یورپی سربراہ تھے جنہوں نے زیلنسکی کی مخالفت میں بیان دیا۔
ایک جانب ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے اپنے لیڈر کو اپنے وعدوں پر ثابت قدم دیکھا وہیں یورپ جس نے نیٹو کو مشرق کی جانب پولینڈ سے یوکرین تک وسعت دینے کے لیے ہمیشہ ہی سخت دباؤ ڈالا تھا، اب ایک چھتری تلے جمع ہورہا ہے لیکن ساتھ ہی یورپ کو یہ احساس بھی ہے کہ امریکا نے اسے تنہا چھوڑ دیا ہے۔
اگرچہ یورپ، یوکرین کو نیٹو کا حصہ بنانا چاہتا ہے لیکن اس نے یوکرین کے دفاع میں اتنی رقم خرچ نہیں کی جبکہ وہ ہمیشہ امریکا کی جانب دیکھتا ہے کہ وہ اخراجات میں بڑا حصہ ڈالے۔ اب تک تو امریکی صدر خوشی خوشی اپنے غیرمعمولی طور پر بڑے دفاعی بجٹ سے یوکرین کو امداد دے رہے تھے لیکن ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امداد کا یہ سلسلہ رک جائے گا۔
ٹرمپ ملکی معاملات کو کاروبار کی طرح چلانا چاہتے ہیں اور ان کی پالیسیز نجی سیکٹر کے ایسے سی ای او کی طرح ہے جو ’لین دین‘ پر یقین رکھتا ہے۔ وہ متعدد بار یہ پوچھتے نظر آتے ہیں کہ آخر امریکا کیوں یورپ کی سلامتی کے لیے ادائیگیاں کرے جبکہ وہ خود خسارے کا شکار ہے؟ ٹرمپ مبالغہ آرائی کرتے ہیں حتیٰ کہ اعداد و شمار کے معاملے میں جھوٹ بھی بولتے ہیں جیسے انہوں نے کہا کہ امریکا نے یوکرین جنگ پر 350 ارب ڈالرز خرچ کیے جبکہ حقیقت میں یہ رقم 185 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔
گزشتہ ہفتے جب فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون سے ملاقات میں امریکی صدر میک امریکا گریٹ اگین کے حامیوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے نظر آئے کہ وہ تنہا جنگ کے اخراجات اٹھا رہے ہیں، تب میکرون، ٹرمپ کے بازو پر ہاتھ رکھ کر انہیں تحمل سے یہ بتاتے نظر آئے کہ یورپ نے بھی جنگ کے اخراجات میں تقریباً 60 فیصد حصہ ڈالا ہے۔
اس کے باوجود بہت سے عالمی رہنماؤں میں امریکا کو یہ بتانے کی جرأت نہیں ہے کہ وہ جو قیمت ادا کررہا ہے وہ اس کی سامراجیت اور تسلط پسند پالیسیز کی مرہونِ منت ہے کیونکہ وہ عالمی سطح پر اپنے سرمایہ دارانہ نظریات کو آگے بڑھانے کے لیے فوجی کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ میکرون بھی اوول آفس میں اسی صورت حال میں تھے جس میں زیلنسکی نظر آئے۔
ٹرمپ، وینس اور زیلنسکی کے درمیان بحث اس وقت ہوئی کہ جب ٹرمپ کی جانب سے یوکرینی صدر کو آمر قرار دیے جانے کو چند ہی روز گزرے تھے۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ زیلنسکی کی مقبولیت میں 4 فیصد کمی ہوئی ہے (جوکہ ایک اور جھوٹ تھا)۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ زیلنسکی کو نایاب زمینی معدنیات کے معاہدے کی صورت میں امریکا کو 500 ارب ڈالرز کی ادائیگی کرنی ہے۔
کئی دنوں تک انہیں مشتعل کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ولادیمیر زیلنسکی معاہدے پر دستخط کرنے امریکا پہنچے۔ بدلے میں وہ چاہتے تھے کہ انہیں سلامتی کی مضبوط ضمانتیں دی جائیں۔ تاہم ٹرمپ صرف یہ کہہ رہے تھے کہ معدنیات کی کھدائی کے منصوبوں میں امریکی موجودگی سے امن کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی کیونکہ ولادیمیر پیوٹن اس بات کو سمجھتے ہیں۔
یہ یقین دہانی یوکرین کے لیے کافی نہیں تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ جال بچھایا گیا تاکہ امریکی عوام کو بتایا جاسکے کہ زیلنسکی کتنے ضدی ہیں، وہ کسی بھی طرح کی ’رعایت‘ کے لیے آمادہ نہیں اور انہوں نے امریکی رہنماؤں، وائٹ ہاؤس اور کانگریس کے لیے ’تضحیک آمیز‘ رویہ اپنایا۔
یہ وہ تناؤ کی صورت حال تھی جسے پوری دنیا نے براہ راست دیکھا۔ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق زیلنسکی مشتعل ہوگئے اور نتیجتاً انہیں وائٹ ہاؤس سے جانے کے لیے کہا گیا جبکہ معاہدے پر دستخط، مشترکہ پریس کانفرنس اور ظہرانہ سب منسوخ کردیا گیا۔
جلد ہی ٹرمپ کے مضبوط اتحادی اور امریکی کانگریس کے ممتاز ری پبلکن رہنما لِنڈسے گراہم نے بھی زیلنسکی کے لہجے کو ’امریکا کی تذلیل‘ قرار دیا اور ساتھ ہی یوکرینی صدر سے استعفے کا مطالبہ بھی کر ڈالا۔ اس منظرنامے میں اس حوالے سے کہنا مشکل ہے کہ اب معاہدے پر عمل درآمد ہوگا یا نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ غیر یقینی ہے کہ آیا یہ ملاقات امریکا کو باقی دنیا سے دوبارہ علحیدہ کرنے کا باعث بنے گی یا نہیں۔
آخری دفعہ جب دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان نے امریکا کے پرل ہاربر پر حملہ کیا تب امریکا نے پہلی جنگ عظیم کے بعد اختیار کی جانے والی علحیدگی پسند پالیسیز کو ترک کیا جس کے تحت اس نے عالمی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنے کا اعادہ کیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا میک امریکا گریٹ اگین کے حامیوں کو یہ سمجھنے کے لیے ایک اور پرل ہاربر جیسے واقعے کی ضرورت ہے کہ اُس وقت کی نسبت آج کی دنیا امریکا کی عالمگیریت کے زیادہ زیرِ اثر ہے اور ایک دوسرے سے زیادہ منسلک ہے؟
یا تاریخ کا زاویہ کوئی اور طے کرے گا؟ مثال کے طور پر کیا زیلنسکی ٹرمپ اور پیوٹن کی شرائط پر معاہدے پر آمادہ ہوجائیں گے جس کا مطلب دونباس کی موجودہ صورت حال اور کریمیا کے روس میں الحاق کو تسلیم کرنا ہوگا؟
مجھ جیسے دیگر کالم نگاروں کا ’مغربی جمہوریت‘ پر یقین اُس وقت متزلزل یا شاید ٹوٹ چکا تھا کہ جب مغرب نے فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے سے انکار کیا اور حال ہی میں غزہ میں نسل کشی نے آسان بنادیا ہے کہ ہم مغرب میں ہونے والی ان پیش رفت پر زیادہ خدشات میں مبتلا نہ ہوں۔
اسے دو ایسے گروہوں کے درمیان لڑائی سمجھ کر نظرانداز کیا جاسکتا ہے جو فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے، ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے اور سب سے بدتر ان کی قتل و غارت گری کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن کیا ہمارا یہ نقطہ نظر بہت زیادہ سخت ہوگا؟
اس تمام تر معاملے میں واحد مثبت چیز یہ تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر جنگ کے لیے ناپسندیدگی ظاہر کی۔ پیوٹن کے لیے ان کا رویہ ہمیشہ سے دوستانہ اور مفاہمت پسند رہا ہے اور اب تو وہ زیلنسکی کو اس جنگ میں تنہا چھوڑ دینے کے اشارے بھی دے رہے ہیں۔ کیا ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ٹرمپ کی تنازعات سے دور رہنے کی پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسرائیل اور بنیامن نیتن یاہو کو بھی روکیں گے؟ یقیناً آپ کہیں گے کہ اس کی صرف خواہش ہی کی جاسکتی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔