• KHI: Fajr 5:07am Sunrise 6:24am
  • LHR: Fajr 4:29am Sunrise 5:51am
  • ISB: Fajr 4:31am Sunrise 5:55am
  • KHI: Fajr 5:07am Sunrise 6:24am
  • LHR: Fajr 4:29am Sunrise 5:51am
  • ISB: Fajr 4:31am Sunrise 5:55am

’لکی ایرانی سرکس جیسا کوئی اور نہیں‘

پاکستان میں کئی نسلوں سے فعال لکی ایرانی سرکس کا سفر جاری لیکن آج کے معاشرے میں سرکس کا کیا مقام ہے؟
شائع March 28, 2025

عمران اقبال کا تعلق ضلع بہاولپور کے ایک گاؤں سے ہے۔ انہوں نے 30 سال قبل موٹر سائیکل چلانا شروع کی تھی۔ ایک دن ’موت کا کنواں‘ نامی شو کی ان کے گاؤں میں آمد ہوئی جس میں لوگ موٹر سائیکل پر خطرناک اسٹنٹ کرتے ہیں۔ عمران اقبال ایک نوجوان کے طور پر شو کے بارے میں متجسس ہوئے اور اپنے گھر سے بھاگ کر ایسے دوست کے پاس گئے جو موٹر سائیکل پر خطرناک اسٹنٹ کرتا تھا۔ پکڑے جانے کے خوف سے عمران نے اپنا نام بدل لیا تاکہ کوئی انہیں پہچان نہ سکے۔

چار سال بعد وہ اپنے والدین سے ملنے واپس آئے۔ لیکن اس وقت وہ ایک مختلف انسان بن چکے تھے اور اب وہ گھر میں رہنے والے سیدھے سادھے لڑکے نہیں رہے تھے جنہیں وہ کبھی جانتے تھے۔ اس کے بجائے عمران نے عہد کرلیا تھا کہ وہ اب موت کے کنویں میں موٹرسائیکل سوار بنیں گے اور وہ ایک پُرسکون نہیں بلکہ ایڈوینچر سے بھرپور زندگی گزاریں گے۔

دس سال پہلے عمران نے لکی ایرانی سرکس جوائن کیا جسے وہ شہر سے دیہات تک سفر کرنے والے فنکاروں، اداکاروں اور ایکروبیٹس کے لیے پیار سے ’کومپنی‘ (KOMpany) کہتے ہیں۔ یہاں عمران کو یومیہ اجرت ملتی ہے جبکہ انہیں مختلف مواقع پر پذیرائی کرنے والے حاضرین کی جانب سے ’انعامات‘ بھی ملتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ لوگ اکثر ان کی پرفارمنس کو محض تفریح کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ کبھی کبھی دیہاتی انہیں جادوگر قرار دیتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے کبھی ایسا کام کرتے ہوئے ڈر محسوس کیا ہے تو عمران نے اعتماد سے جواب دیا، ’نہیں‘۔ انہیں موت کے کنویں میں کرتب دکھانا مشکل لگتا ہے اور نہ ہی خوفناک۔

عمران سے ملاقات کے بعد میں لکی ایرانی سرکس کی دلچسپ دنیا میں داخل ہوئی جو اسلام آباد کے ایف 9 پارک میں عارضی طور پر قائم کیا گیا تھا۔

یہاں ایک بہت بڑا خیمہ لگا ہے جو پورے علاقے پر چھایا ہوا تھا جس کے اردگرد چھوٹے خیمے قائم ہیں۔ دو ٹرک قریب ہی کھڑے تھے جو تمام سامان اتار کر سرکس کے میدان میں ایک مصروف، جاندار ماحول بنا رہے تھے۔ دور سے ایسا لگتا ہے جیسے پارک کے عین قلب میں کوئی چھوٹا سا گاؤں آباد ہورہا ہو۔

   محمد ندیم اپنا میک اپ لگا کر سینٹر اسٹیج پر جانے کے لیے تیار ہورہے ہیں
محمد ندیم اپنا میک اپ لگا کر سینٹر اسٹیج پر جانے کے لیے تیار ہورہے ہیں

لکی ایرانی سرکس مجھے یادوں کے جھروکوں میں لے جاتا ہے۔ جیسے جیسے میں اس سرکس کے قریب جاتی ہوں تو میری بچپن کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں جن میں کرتب کی کہانیاں، ہوا میں اڑنے والے ایکروبیٹس اور مشہور موت کا کنواں نمایاں ہیں۔ میں ان لمحات کو دوبارہ زندہ کرنے سے خود کو روک نہیں پائی۔ میں ایک لرزتی ہوئی سیڑھی پر چڑھ کر لکڑی کے کنویں میں دیکھا۔ فضا جوش و خروش سے لبریز تھی اور کنویں کے بیچ میں دو کالے اسپیکرز سے نصرت فتح علی خان کی خوبصورت موسیقی آہستہ آواز میں بج رہی تھی۔

پھر وہ اہم لمحہ آگیا جس کا انتظار تھا۔

دو موٹر سائیکل سوار جن میں سے ایک عمران ہیں، اپنی موٹر سائیکل کا انجن اسٹارٹ کر دیتے ہیں۔ انجن کی اونچی آواز فضا میں گونجتی ہے۔ ایک لمحے کے لیے وہ اوپر دیکھتے ہیں اور حاضرین کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں۔ پوری توجہ اور ہمت کے ساتھ وہ کنویں کی عمودی دیواروں پر اوپر کی جانب موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔ انجنز کی آواز گونج رہی ہے جبکہ حاضرین، نیچے دیکھتے ہوئے، اپنی سانسیں روکے ہوئے ہیں۔

جب وہ لکڑی کی دیوار کے اردگرد 20 چکر مکمل کررہے ہوتے ہیں تو لکڑی کا عارضی ڈھانچہ موٹر سائیکلوں کے دباؤ کی وجہ سے لرزتا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز نظارہ ہے۔ طبیعیات اور انسانی ہمت کا امتزاج، جہاں سینٹریفیوگل قوت کی طاقت اور سواروں کا مکمل عزم، اس کرتب کو ممکن بناتا ہے۔

عمران کی طرف سے مجھے سرکس شو میں شرکت کرنے کی تاکید کی گئی تھی تو میں نے اسٹیل کے ایک بڑے ڈھانچے کے اوپر بیٹھے ایک آدمی سے سرکس کا ٹکٹ خریدا۔

  روایتی طور پر ایک کلاسک سرکس کے اہم عناصر گھوڑے اور ان کے رنگ ماسٹر ہوتے تھے
روایتی طور پر ایک کلاسک سرکس کے اہم عناصر گھوڑے اور ان کے رنگ ماسٹر ہوتے تھے

سرکس کی چھت تلے تین گھنٹے کا شو شروع ہوا جوکہ جوش و خروش اور ہمت سے بھرپور تھا۔ اس شو کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوتا ہے اور اس کے بعد قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے۔ اناؤنسر، حاضرین سے ترانے کے دوران احترام میں کھڑے ہونے کے لیے کہتا ہے۔ اس کے بعد اسٹیج روشن سرخ اور سبز روشنیوں کے ساتھ جگمگا اٹھتا ہے اور جب موسیقی بڑھ جاتی ہے تو اناؤنسر کی آواز آنا بھی بند ہوجاتی ہے۔

اور پھر شو کا آغاز ہوتا ہے۔

ایکروبیٹس ہوا میں اڑتے ہیں، جمناسٹ اپنے جسم کرتب دکھانے کے لیے اپنے جسم موڑتے ہیں اور ٹریپیز فنکار کشش ثقل کی مخالفت کرتے ہوئے آسمان میں خوبصورت دائرے بناتے ہیں۔ جادوگر مہارت سے چیزوں کو ہوا میں اچھالتے ہیں جبکہ جادوگر حیران کُن کرتب دکھاتے ہیں۔ اس دوران چھوٹے گھوڑے اسٹیج کے چاروں طرف بھاگتے ہیں۔ دائرے، گیندیں اور رسیاں فن کے اوزار میں بدل جاتی ہیں اور ’پرنس آف بیلنس‘ توازن قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے جو ناممکن لگتا ہے۔ ایتھوپیا کا شخص اپنے جسم کو دو رنگز پر موڑتا ہے۔ یہ دیکھ کر سرکس میں موجود سب سے زیادہ سنجیدہ شخص بھی حیرت میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

ٹریپیز آرٹسٹ، سرخ رنگ کے کپڑے سے لٹک کر ناقابل یقین انداز میں حرکت کرتی ہے۔ سرکس میں کام کرنے والے تمام فنکار مختلف عمر کے ہوتے ہیں جن میں 70 سالہ جمناسٹ سے لے کر 6 سال کے بچے بھی شامل ہیں۔ ہر فنکار شو میں اپنا اپنا خاص جادو یا منفرد رنگ شامل کرتا ہے۔ وقت بہت جلدی گزر جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے شو اختتام تک پہنچ جاتا ہے اور اس شو کا فائنل شیروں کا شاندار کرتب ہے۔

بلا شبہ یہ سرکس کا سب سے سنسنی خیز حصہ ہے جوکہ شیروں اور رنگ ماسٹر کا شاندار کلائمکس ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جس کا حاضرین بے صبری سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ سانسیں روکے ہوئے ہیں اور اس دوران سرکس میں آپ تقریباً جوش اور تناؤ کو محسوس کرسکتے ہیں۔

جیسے ہی آٹھ شیر پنجرے کے دروازے سے اسٹیج میں داخل ہوتے ہیں، رنگ ماسٹر ایک پُراعتماد، چمکتی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ ان کا استقبال کرتا ہے۔ یہ وہ پُرسکون شیر نہیں ہوتے ہیں جو آپ چڑیا گھر میں دیکھتے ہیں، شیروں کا یہ گروپ آزادانہ طور پر اسٹیج کے گرد گھومتا ہے۔ وہ صرف حفاظتی رسی کے ذریعے محدود ہوتے ہیں۔ اس سے ایک طاقتور اور مسحور کن منظر پیدا ہوتا ہے جو دلکشی سے بھرپور ہوتا ہے۔

  نڈر سوار عمران اقبال موت کے کنویں میں
نڈر سوار عمران اقبال موت کے کنویں میں

اس کے بعد شیر کے کرتب ہوتے ہیں جو ٹرینر کے حکم پر ہوتا ہے۔ شیر آگ کے رنگز سے چھلانگ لگاتے ہیں اور رسیوں پر توازن رکھتے ہیں۔ ٹرینر کے ساتھ شیروں کا یہ منظر انسان اور حیوان کے درمیان ایک جھڑپ کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ جیسے دو طاقتور قوتیں آمنے سامنے ہیں جوکہ دونوں طاقت اور غلبہ چاہتی ہیں۔

یہ جتنا دلکش ہے اتنا ہی سوچ میں مبتلا کردینے والا ہے۔ یہ کرتب انسانوں کی جنگلی جانوروں کو قابو کرنے کی دلیرانہ خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ سرکس کے اناؤنسر کی آواز پس منظر میں گونجتی ہے، ’دیکھو ہم کیوں اور کیسے اشرف المخلوقات ہیں‘۔ وہ بڑے فخر سے اعلان کرتا ہے، ’دیکھو، شیر اپنے مالک کے سامنے بلیوں کی طرح برتاؤ کرتے ہیں!‘

یہ سب سے زیادہ کرتب متنازع بھی ہے۔ اس کرتب پر دنیا بھر کے کئی سرکسز میں پابندی لگادی گئی ہے کیونکہ اس بارے میں بحث ہورہی تھیں کہ انسانوں کا جانوروں سے کیسا تعلق ہونا چاہیے۔ جبکہ سرکس کے کرتب کی عجیب اور پریشان کن نوعیت خوف اور سحر انگیزی کو جنم دیتی ہے۔ یہ خاص منظر خوف اور سنسنی دونوں کے متضاد احساسات کے ساتھ ساتھ اہم سوالات کو جنم دیتے ہیں جن پر گہرا غور و فکر کرنا چاہیے۔

  ہوا میں معلق، یوکرائنی ٹریپیز آرٹسٹ کشش ثقل کی مخالفت کرتی ہے اور ہوا میں بلند ہوتی ہے
ہوا میں معلق، یوکرائنی ٹریپیز آرٹسٹ کشش ثقل کی مخالفت کرتی ہے اور ہوا میں بلند ہوتی ہے

جیسے ہی شیر، اپنے ٹرینر کی ہاتھ میں پکڑی چابک کے ذریعے اسٹیج کو چھوڑ کر پنجرے کی طرف واپس جاتے ہیں تو شو آہستہ آہستہ ختم ہوجاتا ہے۔ سرکس کی رونقیں ختم ہوجاتی ہیں لیکن سنسنی خیز پرفارمنسز کے علاوہ میں خود سے سوال کیے بغیر نہیں رہ سکی کہ لکی ایرانی سرکس واقعی کیا ہے؟

عظیم الشان خیمے کے دروازے پر بیٹھے منیجر طاہر بتاتے ہیں کہ لکی ایرانی سرکس کی جڑیں 1970ء کی دہائی سے ملتی ہیں۔ اس کی بنیاد میاں فرزند علی نے رکھی تھی اور اب اس کا انتظام ان کے بیٹے میاں امجد فرزند سنبھالتے ہیں۔ طاہر فخریہ انداز میں کہتے ہیں، ’آج ہمارے ساتھ تیسری نسل کے فنکار کام کر رہے ہیں۔ پورے خاندان ہمارے ساتھ رہتے ہیں اور سفر کرتے ہیں، اپنے بچوں کو فن سکھاتے ہیں‘۔

سرکس میں ایتھوپیا اور یوکرین کے غیر ملکی فنکاروں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو دو سال کے معاہدے پر کام کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر 50 اداکار اور 200 کارکنان شامل ہیں جو لاجسٹکس کا کام کرتے ہیں اور پردے کے پیچھے تمام انتظامات سنبھالتے ہیں۔

  مسخرے چھوٹے گھوڑوں پر بیٹھے اسٹیج کے گرد چکر لگاتے ہیں
مسخرے چھوٹے گھوڑوں پر بیٹھے اسٹیج کے گرد چکر لگاتے ہیں

طاہر سرکس کی انفرادیت کے حوالے سے پرجوش انداز میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’لکی ایرانی سرکس جیسا کوئی اور نہیں ہے‘۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ ایک فیملی فرینڈلی شو ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’ہمارے شو میں کچھ بھی فحش نہیں ہے۔ ہم اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ بچوں کو دینی تعلیم ملے اور ہمارے ساتھ ساتھ مسجد بھی سفر کرے‘۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ایک خیمے کی جانب اشارہ کیا جس کا نام مسافر جامع مسجد ہے۔ وہ میرے پوچھے بغیر مجھے یہ معلومات دے رہے تھے۔

’سرکس کا نام لکی ایرانی سرکس کیوں رکھا گیا ہے؟‘ میں نے طاہر سے پوچھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ نام سرکس کے ابتدائی دنوں سے آیا جب ایرانی فنکاروں کے ایک گروپ نے میاں فرزند علی کے ساتھ مل کر لاہور میں سرکس شروع کیا۔ اس تعاون نے تفریح کی دنیا کے ایک ادارے کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر ایک مایہ ناز نام بنا۔س

وہ مجھے جاوید خان کے خیمے کی طرف لے کر گئے جنہیں وہ عقیدت سے خلیفہ کہتے ہیں۔

جاوید خان 75 سالہ تجربہ کار فنکار اور سرکس کے قابل احترام انسٹرکٹر ہیں۔ جب سے یہ سرکس شروع ہوا ہے، وہ اس سرکس کا کلیدی حصہ رہے ہیں۔ کامیابیوں اور جدوجہد سے بھرے اپنے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کی آنکھیں فخر سے چمک اٹھیں۔ چیلنجز کے باوجود وہ زندگی بدل دینے پر سرکس کے مالکان کے شکر گزار ہیں جن کے تعاون کی بدولت ان کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

  فائر شو ہمیشہ حاضرین کو ششدر کردیتا ہے
فائر شو ہمیشہ حاضرین کو ششدر کردیتا ہے

میں نے جاوید سے پوچھا، ’ڈیجیٹل تفریح کے دور میں وہ کیا امر ہے جو سرکس کو زندہ رکھتا ہے؟‘ جاوید نے جواب دیا کہ وہ مانتے ہیں کہ تفریح کی دنیا میں سرکس ایک منفرد اور اہم مقام رکھتا ہے۔ وہ اپنے کام کے مثبت اثرات پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اسے لوگوں کو خوشی دینے کے ذریعے کے طور پر دیکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’اس سے وہ اپنے زندگی کی پریشانیوں کو کچھ دیر کے لیے بھول جاتے ہیں‘۔ ان کا ماننا ہے کہ سرکس انسانیت کی حقیقی خدمت ہے۔

اتفاق سے میری ملاقات ایک خاتون ٹریپیز آرٹسٹ علیزہ سے بھی ہوئی۔ علیزہ نے مجھے اپنے خیمے میں مدعو کیا جوکہ ایک سادہ، عارضی جگہ تھی جس کے ایک طرف پرانا ٹی وی، کونے میں ایک اسٹیل کا بکس رکھا تھا جبکہ دو چھوٹے بچے قریب ہی کھیل رہے ہیں۔ ہم جامنی رنگ کے بیڈ کور سے ڈھکے چارپائی پر بیٹھے اور انہوں نے اپنی زندگی کے بارے میں کچھ کہانیاں بتانا شروع کیں۔

  ’دی جوکر‘ اپنے مخصوص میک اپ کو احتیاط سے لگاتے ہوئے اپنی پرفارمنس کی تیاری کررہا ہے
’دی جوکر‘ اپنے مخصوص میک اپ کو احتیاط سے لگاتے ہوئے اپنی پرفارمنس کی تیاری کررہا ہے

علیزہ سرکس میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اسی بڑے خیمے کے نیچے پرفارم کرنے کا اپنا شوق دریافت کیا جہاں ان کے والدین کام کرتب پیش کیا کرتے تھے۔ والدین کی میراث نے علیزہ کے دل میں اسٹیج کے لیے محبت کو بھڑکایا۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ صرف چار سال کی تھیں جب وہ سرکس کی ٹیم میں فضائی اداکاری کرنے والی پہلی بچی تھیں۔ انہوں نے ایک روسی جمناسٹ سے تربیت حاصل کی اور اپنی تکنیکوں کو مکمل کیا۔ 25 سال بعد وہ اب بھی اسی ٹولے کے ساتھ سفر کرتی ہیں اور پرفارم کرتی ہیں، ان کی زندگی سرکس سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔

  لکی ایرانی سرکس رات کو ایک خاص انداز میں جگمگاتا ہے
لکی ایرانی سرکس رات کو ایک خاص انداز میں جگمگاتا ہے

دو چھوٹے بچوں کی ماں، علیزہ بطور ماں اور اپنے کریئر میں توازن کے بارے میں بتاتی ہیں، ’یہ ہمارے لیے فطری ہے۔ ہم حمل کے دوران بھی کرتب کا مظاہرہ کرتے ہیں، ہمارے جسم اس کے عادی ہیں‘۔ ان کے الفاظ ایک عزم ظاہر کرتے ہیں جو معاشرتی توقعات کی نفی کرتے ہیں۔

علیزہ کا خواب پاکستان میں جمناسٹک کے تربیتی مراکز کھولنا ہے اور وہ دوسروں کو بھی یہ فن سکھانا چاہتی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے بچے ان کے نقش قدم پر چلیں گے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’نہیں، میں چاہتی ہوں کہ وہ تعلیم حاصل کرنے پر توجہ دیں۔ لیکن سرکس میں، مجھے ان کی تعلیم کے حصول کی راہ نظر نہیں آتی‘۔ وہ بطور ماں اپنے بچوں کے لیے ایک مختلف مستقبل کی خواہش رکھتی ہیں حالانکہ ان کی زندگیاں سرکس سے گہرے انداز میں جڑی ہیں۔

  ایکروبیٹس اور جمناسٹ شو کے آغاز سے پہلے اپنے معمولات کی مشق کر رہے ہیں
ایکروبیٹس اور جمناسٹ شو کے آغاز سے پہلے اپنے معمولات کی مشق کر رہے ہیں

علیزہ خوش ہیں کہ ٹک ٹاک ویڈیوز کی بدولت وہ سرکس سے باہر بھی مشہور ہیں۔ تاہم ان کی بڑھتی ہوئی آن لائن مقبولیت سرکس کے منتظمین کو پریشان کررہی ہے۔

ہماری گفتگو جاری تھی کہ باہر ان کا مینیجر بے چین ہونے لگا جسے محسوس کرتے ہوئے علیزہ نے خوش اسلوبی سے ہماری گفتگو کو سمیٹ لیا۔ میں مزید پوچھنا چاہتی تھی لیکن ہمارا وقت ختم ہو گیا تھا۔ ہچکچاتے ہوئے میں نے علیزہ کا شکریہ ادا کیا۔ اور جب میں نشست سے اٹھی تو میں نے ان کے ٹیلنٹ کے لیے احترام محسوس کیا۔

میں نے سرکس میں دیکھا کہ بچے ننگے پاؤں، غذائیت کی کمی کا شکار جانوروں کے پاس لیٹ رہے ہیں۔ دونوں مخلوق ہی اپنے اپنےطور پر نظرانداز ہورہے ہیں۔ طاہر نے دعویٰ کیا تھا کہ سرکس کے بچوں کو تعلیم تک رسائی حاصل ہے لیکن مجھے اس کے بہت کم آثار نظر آئے اور اس حوالے سے میرے سوالات کو نظرانداز کردیا گیا۔ مجھے لگا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ سسٹم اتنا ہموار نہیں ہے جتنا کہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ سیکیورٹی فنکاروں اور کارکنان تک رسائی کو سختی سے کنٹرول کرتی ہے جس سے مختلف سوالات جنم لیتے ہیں۔

  فزا ان متعدد نوجوان اداکاروں میں سے ایک ہیں جو اس سرکس کا حصہ ہیں
فزا ان متعدد نوجوان اداکاروں میں سے ایک ہیں جو اس سرکس کا حصہ ہیں

مغرب میں سرکس کی پریشان کن تاریخ سے آگاہی رکھتے ہوئے، جہاں جانوروں پر ظلم اور نوآبادیاتی استحصال کی نشان دہی کی گئی ہے اور اسی طرز عمل کی وجہ سے وہ ختم ہوچکے ہیں، میں دلگرفتہ تھی۔ ایک طرف میں سرکس کی غیر منصفانہ طرز عمل کی مذمت کرنا چاہتی ہوں لیکن دوسری طرف میں ان کے مثبت کردار کو نظر انداز نہیں کرسکتی جو وہ تفریح کے ایک اہم ذریعہ کے طور پر ادا کرتے ہیں۔

پاکستان بھر کی کمیونٹیز خاص طور پر دیہی اور کم آمدنی والے گروہوں کے لیے سرکس تفریح کی ایک نادر اور سستا ذریعہ ہے ۔ تاہم ان کی حقیقی قدر، استحصال کو ختم کرنے اور اس میں شامل ہر فرد کے ساتھ اخلاقی سلوک کو یقینی بنانے میں مضمر ہے۔

  علیزہ اور ان کے بچے اپنے عارضی خیمے میں
علیزہ اور ان کے بچے اپنے عارضی خیمے میں

جیسے ہی میں باہر نکلی تو ایک سرکس کارکن نے دبی آواز میں مجھے بتایا کہ اسلام آباد کے ہجوم نے سرکس کا بہترین ردعمل نہیں دیا۔ سفر کرنے والا قافلہ اب اوکاڑہ روانہ ہوگیا ہے جہاں وہ ایک مقامی بزرگ کے عرس کی تقریبات میں پرفارم کریں گے۔ میں جب پارک سے جارہی تھی تو میں واقف تھی کہ اگلی بار جب میں ایف 9 پارک میں واپس آؤں گی تو سرکس والے مہم جو پرفارمنس، جگلنگ اور کرتب دکھانے والے بہادر لوگ یہاں موجود نہیں ہوں گے۔

گویا وہ کسی جادو کی مدد سے غائب ہوچکے ہوں گے۔


تمام تصاویر کے لیے عارف محمود کا شکریہ


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عارف محمود

عارف محمود میڈیکل ڈاکٹر ہیں، اور جنوب ایشیائی آرٹ، کلاسیکل میوزک، فوٹوگرافی، اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
عائشہ لطیف
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔