نقطہ نظر

ہاۓ مہنگائی!

ابھی خوراک کی قیمتوں کا ہی ماتم ختم نہیں ہوا تھا کہ دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کی خبر بھی آگئی

‘مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے’، مجھے یہ جملہ دہرانے کی اجازت دیجئے, شائد اس کی اذیت کم ہو سکے, ‘مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی!’

نہیں صاحب اس حقیقت کی چبھن اور درد میں کوئی فرق نہیں پڑا! پاکستان دنیا کا شائد وہ واحد ملک ہے جہاں پر اشیا ضروریہ کی قیمتیں بڑھ تو جاتی ہیں لیکن پھر نیچے نہیں آتیں ذرا پڑوسی ملک کی ہی مثال لیجئے جہاں پیاز جیسی معصوم ترکاری نے عوام کی پہنچ سے باہر قیمت کے باعث 1998 میں بی جے پی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور گزشتہ دنوں بھی اسکی بڑھتی ہوئی قیمت نے ہندوستانی حکومت کی دوڑیں لگوا دی تھیں.

ہماری حکومتیں تو لگتا ہے کہ حکرانی بذریعہ جمہوریت نہیں بلکہ بادشاہت کر رہی ہیں. عوام روتے چلاتے رہیں وہ سوال یہی پوچھتے ہیں کہ ‘یہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے’. پنجاب کے وزیر خوراک جناب بلال یاسین صاحب جو خیر سے وزیراعظم جناب نواز شریف کے رشتہ دار بھی ہیں سے کچھ مہینوں پہلے بازار میں ایک خاتون نے ٹماٹر کی ہوشربا قیمت کی شکایت کی تو وزیر موصوف نے کھڑے کھڑے زبیدہ آپا کے ٹوٹکوں کی طرح ہانڈی میں ٹماٹر کے متبادل گنوانا شروع کر دیے.

کچھ اسی قسم کے مشورے جناب مشرف صاحب نے بھی 2003 میں ‘مفت لٹائے’ تھے. ان حکمرانوں کی باتیں سن کر لگتا ہے کہ شائد ہم کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں جن پر یہ حکمران کسی اور سیارے سے آ کر حکمرانی کر رہے ہیں.

پہلے تو بکرے اور گائے کا گوشت عوام سے چھین لیا گیا اور اب سبزی ترکاری بھی دغا دینے والی ہے لے دے کر پیچھے گھاس کے میدان ہی بچ جائیں گے اور پھر حکمرانوں کے مشورے کہ ‘دیکھئے تو کتنی ہری بھری گھاس اگی ہوئی ہے آپ اپنا پیٹ اس سے کیوں نہیں بھر لیتے؟’.

بکرے کے گوشت کا کیا پوچھنا وہ تو عام آدمی کی قوت خرید سے کوسوں دور نکل گیا ہے کچھ عرصے بعد شائد اسکے دیدار کے لئے بھی ٹکٹ لگا دیا جائے گا. پچھلے ہفتہ جو پیاز 70 سے 80 روپے کلو بک رہا تھا وہ اب تقریباً 100 روپے پر کھڑا مسکرا رہا ہے.

آلو بھلا کیوں پیچھے رہتا، وہ بھی اپنے ہانڈی کے ساتھی کا ساتھ دیتے ہوئے اسی قیمت پر عوام کے سینے پر مونگ دل رہا ہے. ٹماٹر ان سے بھی چار ہاتھ آگے تقریباً 150 روپے کلو بک رہا ہے ارے صاحب بک کیا رہا ہے بے شرمی سے عوام کی سفید پوشی کی قیمت لگا رہا ہے! کدو اور ٹینڈے جہاں 80 اسی روپے کلو بک رہے ہوں وہاں کے حکمرانوں کے اقتدار کی ہوس، عوامی مسائل سے دوری اور لاپرواہی پر گھن آنے لگتی ہے.

یہ حکومت آخر کس مرض کی دوا ہے سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر یہ اپوزیشن بھی کس مرض کی دوا ہے؟ ایک کو اس رونے گانے سے فرصت نہیں کہ سارا کیا کرایا گزشتہ حکومتوں کا ہے ہمیں یہ گند سمیٹنے میں وقت لگے گا، ادھر وہ حکیم اللہ محسود جیسے دہشت گرد کی ہلاکت میں گریبان چاک کیے NATO سپلائی روکنے کے درپے ہیں. روکیے اور بالکل روکیے لیکن تھوڑی توجہ عوام کے اصل مسائل پر بھی ڈال لیں تو مہربانی ہوگی. شائد یہ دونوں اس لئے بھی دوا نہیں ہیں کہ اس کی بھی قیمتں بڑھ رہی ہیں!

ابھی خوراک کی قیمتوں کا ہی ماتم ختم نہیں ہوا تھا کہ دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کی بھی خبر سامنے آ گئی. اب بیمار ہونے سے پہلے بھی کیلکولیٹر سامنے رکھ کر حساب لگا لیجئے گا کہ بیماری اچھی یا کم از کم تندرستی کا ڈھونگ. دواؤں کی قیمتوں میں بھی مجوزہ 18 فیصد اضافہ لوگوں کو عام بخار اور فلو کی گولیاں بھی خریدتے ہوے سوچنے پر مجبور کر دے گا کہ یہی چار پیسے بچا کر ایک ٹماٹر یا دو آلو خرید لئے جائیں.

غالب امکان یہی ہے کہ اس اضافے کے لئے کیا جانے والا واویلا صرف عوام کی بچی کھچی چمڑی اتارنے کے لئے کیا جا رہا ہے. یہ قوم بھی پتا نہیں کس مٹی سے بنی ہے کہ ہر حکومت کے دور میں انکی چمڑی اتاری جاتی ہے اور یہ اگلی آنے والی حکومت کے لئے دوبارہ نئی چمڑی لے آتے ہیں خواہ حکومت جمہوری ہو یا آمرانہ اس سے فرق نہیں پڑتا چمڑی تو اترنی ہی اترنی ہے!

پاکستان اب ایک ایسا طلسم ہوشربا بن چکا ہے جہاں کے لوگوں پر کوئی بھی فسوں پڑھ کر پھونک لیجیے اور پھر انہیں جس راستے پر چلانا ہو چلا لیجئے. یہ شائد دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو تسلیوں اور دلاسوں کے سہارے زندگی گزار لیتے ہیں.

یہاں کی نسلیں سہانے دنوں کے خواب سجائے اس دنیا سے کوچ کر گئیں لیکن حالات ویسے کے ویسے ہی ہیں. طریقہ ہے کہ جب کوئی ایسی تحریر لکھی جاتی ہے تو آخر میں ایک لمبا چوڑا مفت مشوروں کا انبار لگا دیا جاتا ہے لیکن اپنے حکمرانوں کو آدمی کیا مشورہ دے سواۓ اسکے کہ خدا کے لئے اس قوم کے منہ سے نوالے چھینننے کا سلسلہ بند کر دیں اور آپ نے اپنی جو بھی دکان لگانی ہے وہ لگا لیں بس انکے اوپر رحم کھائیں!

علی منیر

علی منیر میڈیا سے منسلک ہیں اور سیاسیات اور سماجیات کے موضوعات پر بلاگنگ کرتے ہیں.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔