پاکستان

لاپتہ افراد کیس: حکومتی رپورٹ پر وضاحت طلب

سپریم کورٹ میں گزشتہ روز لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے حکومتی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

اسلام آباد: پاکستان کی سپریم کورٹ میں گزشتہ روز لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت میں عدالت حکومتی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر وزیراعظم کے سیکرٹری، چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا اور سیکریٹری قانون کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے وضاحت طلب کی۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے مالاکنڈ سے لاپتہ ہونے والے 35 افراد کے مقدمے میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر عدالت نے وفاق کی جانب سے رجسٹرار آفس میں جمع کرائی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دس دسمبر دو ہزار تیرہ کے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور عدالتی احکامات یکسر نظرانداز کردییے گئے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ معلوم نہیں لاپتہ افراد سے متعلق وزیراعظم کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کیا کرے گی اور لاپتہ افراد کا کیا بنے گا۔

عدالت نے کہا کہ رجسٹرار آفس میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ وفاق کا عبوری جواب ہے اور آج بھی لاپتہ افراد کے بارے میں قانون سازی پر کوئی واضح جواب نہیں دیا جا سکا۔

عدالت نے قرار دیا کہ آرٹیکل نو کے تحت کسی شخص کو قانونی جواز کے بغیر غیرقانونی حراست میں نہیں لیا جاسکتا، جب اعلیٰ حکام آئین کی پاسداری نہیں کریں گے تو معاشرے میں لاقانونیت بڑھے گی اور ایسی صورتحال میں کوئی بھی شخص آئین کی پاسداری نہیں کرے گا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہم قانون سازی نہیں کر سکتے ورنہ یہ مسئلہ بھی حل ہوجاتا۔

عدالت نے لاپتہ افراد بارے تمام فریقین سے سترہ جنوری کو رپورٹ طلب کر لی، جبکہ فریقین کے جوابات آنے کے بعد عدالت لاپتہ افراد بارے مزید حکم جاری کرے گی۔

کیس کی سماعت بیس جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔