!برگر کہاں گیا
میں نے بہت کوشش کی کہ انکی طرف نہ دیکھوں لیکن خود کو روک نہ پایا- میں جانتا تھا یہ غلط بات ہے لیکن تجسس کے ہاتھوں مجبور تھا- میں دبئی کے ریسٹورانٹ میں لنچ کرنے آیا تھا میرے سامنے اگلی میز پر ایک عرب جوڑا بیٹھا تھا-
مرد ایک ٹی شرٹ اور خاکی شارٹس میں ملبوس تھا جبکہ خاتون سرتاپا کالے عباۓ سے ڈھکی ہوئی تھی- یہ اس قسم کا عبایا تھا جس میں عورت کی فقط آنکھیں دکھائی دیتی ہیں- میرے خیال سے اسے نقاب کہتے ہیں-
ایسا نہیں کہ میں نے ایک نقاب پوش خاتون پہلی بار دیکھی تھی، دبئی میں یہ ایک عام سی بات ہے خصوصاً مالز میں جہاں یہ باپردہ بیبیاں اپنے خاوندوں کے ساتھ مہنگے ڈیزائنر آؤٹ لیٹس پر خریداری کرتی نظر آتی ہیں-
اور ناہی میں نے پہلی بار ایسی کوئی خاتون کسی ریسٹورانٹ میں دیکھی تھی- دراصل مجھے ہمیشہ سے یہ تجسس رہا ہے کہ ایسی خواتین پبلک مقامات میں کس طرح کھانا کھاتی ہونگی، یہی بات ان خاتون کی طرف دیکھنے کی وجہ بنی-
جوڑے نے دو بیف برگر اور دو گلاس کولا کا آرڈر دیا تھا- مرد نے اپنا چمکتا ہوا موبائل فون ایک سائیڈ پر رکھا اور اس لذیذ برگر پر تقریباً حملہ ہی کر دیا، عورت نے کولا کا گلاس آہستگی سے اٹھایا اور اپنے نقاب زدہ چہرے کے بلکل نیچے لے گئی، پھراس نے اپنی ٹھوڑی پر سے نقاب ذرا سا اٹھایا تاکہ گلاس میں موجود اسٹرا اس کے منہ پنہچ جاۓ-
یہ پوری مشق دیکھنے میں خاصی بوجھل اور تھکا دینے لگتی تھی- خیر، میں کون ہوتا ہوں کچھ بولنے والا- یہ اس خاتون کی اپنی مرضی تھی اور اسکا ساتھی مرد اس سے کافی خوش دکھائی دے رہا تھا-
میں بار بار اس جوڑے کی جانب دیکھ رہا تھا- کیوں کہ اب سوال یہ تھا کہ خاتون دو بیف کباب، بہت سارے پنیر، ٹماٹر اور سلاد پر مشتمل اس موٹے تازے برگر کو کس طرح ٹھکانے لگائیں گی- یقیناً وہ اس لذیذ برگر کا لقمہ لینے کے لئے چہرے سے نقاب ضرور اٹھاۓ گی-
لیکن نہیں جناب، وہ حیا کی پتلی نوجوان عرب خاتون، اپنی غیر عرب، غیر مہذب بہنوں کی طرح ہرگز نہ تھی- اپنی پاکدامنی کو داؤ پر لگانے کی بجاۓ (اس میں ڈیزائنر بیگ، سونے کی گھڑی جیسی چیزوں کی نمائش شامل نہیں ہے) وہ اپنے منہ اور ناک پر پڑے کالے نقاب کے اندر برگر لے گئی اوررر…… کرنچ!
اس سے آگے مجھ میں دیکھنے کی تاب نہ تھی- لیکن میں نے خود سے یہ سوال ضرور کیا، کہ یہ سب نارمل تو نہیں لگتا، ہے نا؟
دبئی میں ایک صحافی کی حیثیت سے کام کرنے والے میں ایک دوست نے بتایا کہ سعودی عرب اور یو اے ای میں بہت سی عرب عورتوں کے لئے یہ معمول کی بات ہے- اس نے مزید کہا؛
"یہاں ہم جیسے (غیر عرب) کام کرنے والے کوشش کرتے ہیں کہ اس کا نوٹس نہ لیں پھر بھی اس پر بات ضرور کرتے ہیں- وہ یہاں کا مراعات یافتہ طبقہ ہے، ہم فقط 'افرادی قوت' ہیں-"
شرم و حیا اور پارسائی کے ایسے بوجھل مظاہروں کے لئے یا تو انسان کو انتہائی امیر اور مراعات یافتہ ہونا ضروری ہے یا پھر مکمل پاگل-
لیکن یہ کس کا فیصلہ ہے؟ کیا عرب خواتین اپنی مرضی سے اس طرح پبلک میں بیٹھ کر اپنے عبایوں اور نقابوں کے پیچھے کھاتی پیتی ہیں یا ان کے مرد انہیں ایسا کرنے کو کہتے ہیں؟
اس حوالے سے دو تھیوریاں ہیں- ان میں سے سب سے مقبول جو مجھے سننے کو ملی وہ یہ تھی کہ یہ سب امیر گھرانوں کی عورتیں اپنے خاوندوں کو خوش کرنے کے لئے کرتی ہیں جو ان پر بےتحاشا پیسہ خرچ کرتے ہیں-یعنی کہنے سے مراد یہ ہے کہ مرد اپنی عورتوں پر اس لئے خرچ کرتے ہیں کیونکہ وہ نسوانی حیا کے ان کے تصور کو تقویت بخشیں-
دوسری تھیوری قدرے قابل قبول ہے- بہت سی عرب اور غیرعرب خاتون مصنفین نے مسلم دنیا کی اشرافیہ اور مڈل کلاس طبقے کے درمیان حجاب، عبایا اور نقاب جیسی چیزوں کے بڑھتے ہوۓ رجحان کے حوالے سے کافی کچھ لکھا ہے، انہوں نے اس رجحان کی اصل وجہ اس قدیم رواج کو قرار دیا ہے جس میں مسلم فقہاء نے (نبی کریم کے وصال کے بع) ایسے قوانین اور اصول رائج کیے جو ایک قبائلی مرد کے نکتہ نظر کو سامنے رکھ کر بناۓ گۓ تھے-
ان مصنفوں کا کہنا ہے کہ حقیقت میں اسلام اور اس کے پیغمبر نے عورتوں کو آزادی دلائی تھی اور قبائلی معاشرے میں ان کا مرتبہ بہتر بنایا تھا لیکن نبی کریم کے وصال کے بعد، فقہاء (جو کہ سب مرد تھے) قران اور قبل اسلام قبائلی رسم و رواج کو آپس میں ملا دیا-
ان مسلم مصنفین کا ماننا ہے کہ اگر خواتین کو انتخاب کا حق دیا جاۓ تو وہ ایسے بہت سے رواجوں کو مسترد کردیں جو ان پر مسلط کیے گۓ ہیں- ان کے مطابق اکثریت مسلم سوسائٹیز میں عورتیں، مردوں کے تصور اخلاق کے خلاف بغاوت کرتی آئی ہیں، یہ بغاوتیں آھستہ آھستہ سعودی عرب میں جڑ پکڑ رہی ہیں جہاں خواتین احتجاجاً کار ڈرائیو کر کے قانون توڑ رہی ہیں، اگر یہ سب اسی طرح چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب یہ عورتیں حتیٰ کہ قدامت پرست عرب خواتین تک، ان رواجوں کے خلاف آواز اٹھائیں گی جو نہ انہوں نے بناۓ ہیں اور ناہی ان کے تعلق کسی مخصوص اسلامی حکم سے ہے-
میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ عرب ممالک میں موجود امیر اور مڈل کلاس پاکستانی عورتیں جنہوں نے عربوں کے قدامت پسند رواج اپنا لئے ہیں کیا اسی طرح نقاب کے پیچھے کھانا کھاتی نظر آتی ہیں؟ کیونکہ ابھی تک مجھے پاکستان میں تو ایسی خاتون نظر نہیں آئیں-
اس نے بتایا، یہ سچ ہے کہ تیل سے مالامال عرب ممالک میں رہائش پذیر بہت سی پاکستانی خواتین نے اپنی جنوب ایشیائی تہذیب کو عربی بہروپ سے تبدیل کر لیا ہے، لیکن اس نے بھی آج تک کسی پاکستانی خاتون کو نقاب کے پیچھے برگر کھاتے ہوۓ نہیں دیکھا-
ذرا تصور کریں پاکستان میں ایک ورکنگ کلاس یا مڈل کلاس خاتون ایسا کرتے ہوۓ کیسی لگیں گی- اسے اپنا شرافت کے ماسک کو بار بار دھونا پڑے گا یعنی اگر وہ کم خورانی سے مر نہ سکی تو ڈیٹرجنٹ اور لانڈری کا خرچے سے ضرور مر جاۓ گی-
ترجمہ: ناہید اسرار
ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔
ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@