پاکستان

حکومت اور طالبان کمیٹی کا اجلاس، شرائط کا تبادلہ

مذاکرات کو صرف شورش ذدہ علاقوں تک محدود رکھا جائے، حکومت۔ حکومتی کمیٹی کتنی بااختیار ہے؟ طالبان

اسلام آباد: طالبان اور حکومتی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان امن مذاکرات کے پہلے دور کے بعد حکومتی کمیٹی نے مشترکہ پریس ریلیز جاری کی ہے۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور طالبان کمیٹی کے درمیان بات چیت کے بعد طالبان کمیٹی کے رکن مولانا سمیع الحق نے مشترکہ طور پر تیار کردہ پریس ریلیز پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ چار گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات نہایت دوستانہ اور خوشگوار ماحول میں ہوئی۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کے تمام اراکین نے فرداً فرداً اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنی بے لاگ رائے پیش کی۔

حکومتی کمیٹی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے طالبان سے کہا کہ بات چیت آئینِ پاکستان کے تحت ہونی چاہئے۔

حکومتی کمیٹی نے طالبان سے یہ بھی کہا کہ بات چیت کا دائرہ کار صرف شورش ذدہ علاقوں تک ہی محدود رکھا جائے اور اس کا اطلاق پورے پاکستان پر نہیں ہوگا۔

پریس ریلیز کے مطابق حکومتی کمیٹی نے زور دیا کہ ملک میں امن و سلامتی کے منافی تمام کارروائیاں روک دی جائیں ۔

حکومتی کمیٹی نے طالبان سے یہ سوال بھی کیا کہ طالبان نے مذاکرات کیلئے ایک اور کمیٹی تشکیل دی ہے ۔ واضح کیا جائے کہ اس کمیٹی کا دائرہ اختیار کیا ہوگا ؟ اور کیا حکومتی کمیٹی کو اس طالبان کمیٹی سے بھی ملاقات کرنا ہوگی؟

حکومتی کمیٹی نے زور دیا کہ مذاکراتی عمل طویل نہ ہو، قوم خوشخبری کی منتظر ہے اور کم وقت میں مذاکرات کو حتمی شکل دیدی جائے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی نے بھی کچھ نکات کی وضاحت چاہی اور اپنے نکات پیش کئے ۔

طالبان مذاکراتی کمیٹی نے بھی مذاکرات کے دوران پوچھا کہ حکومتی کمیٹی کااختیار کتنا ہے؟

طالبان کمیٹی نے دوسرا سوال پوچھا کہ حکومتی کمیٹی کے پاس طالبان کے مطالبات منوانے کی کتنی صلاحیت موجود ہے؟

طالبان مذاکراتی کمیٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی کمیٹی کی ملاقات وزیرِ اعٖظم ، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے بھی کرائی جائے تاکہ وہ ان کے سامنے اپنے مطالبات رکھ سکیں۔

پریس ریلیز کے مطابق دونوں فریقین کے درمیان یہ اتفاق بھی ہوا کہ کسی بھی جانب سے ایسی کوئی کارروائی نہ کی جائے جس سے امن کو نقصان پہنچے۔

دونوں کمیٹیوں نے ملک میں ہونے والی دہشتگردی کی حالیہ کارروائیوں کی مذمت کی اور عہد کیا کہ اسے امن عمل میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔

طالبان کمیٹی کے اہم رکن مولانا سمیع الحق نے کہا کہ حکومتی کمیٹی کی گزارشات جلد از جلد طالبان قیادت کو پہنچادی جائیں گی اور وہاں سے آنے والے جواب سے آگاہ کیا جائے گا۔

حکومتی کمیٹی کے رکن اور وزیرِ اعظم کے مشیرِ خاص عرفان صدیقی نے کہا کہ طویل ملاقات کے دوران کسی بھی مرحلے پر کوئی تناؤ کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی اور مذاکرات اس طرح ہوئے گویا یہ ایک ہی کمیٹی تھی۔

مذاکرات صرف شورش ذدہ علاقوں تک محدود رکھا جائے، حکومت۔ حکومتی کمیٹی کتنی بااختیار ہے، طالبان

واضح رہے کہ امن مذاکرات کیلئے حکومتی کمیٹی میں عرفان صدیقی کے علاوہ، آئی ایس آئی کے سابق افسر میجر عامر، سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی، اور افغان امور کے ماہر رستم شاہ مہمند شامل ہیں۔

طالبان کمیٹی میں مولانا سمیع الحق کے علاوہ، جماعتِ اسلامی کے پروفیسر ابراہیم اور لال مسجد کے سابق پیش امام مولانا عبدالعزیز شامل ہیں۔