دنیا

’ہم نے پانچ مزدوروں کو زندہ دفن کردیا‘

سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں ملنے والی پانچ ہندوستانی مزدوروں کی لاشوں کی تفتیش سے ایک لرزہ خیز واردات کا انکشاف۔

دمام، سعودی عرب: عرب نیوز نے مقامی میڈیا کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ تین افراد نے قطیف کی جنرل کورٹ میں اعتراف کیا کہ انہوں نے پانچ ایشیائی مزدوروں پر کئی گھنٹے تشدد کرنے کے بعد انہیں زندہ دفن کردیا تھا۔

واضح رہے کہ قطیف یا القطیف سعودی عرب کے مشرقی علاقے کا ایک صوبہ ہے۔ یہ شمال میں راس طنورہ اور جبیل تک اور جنوب میں دمام تک جبکہ مشرق میں خلیج فارس اور مغرب میں کنگ فہد انٹرنیشنل ایئرپورٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے میں قطیف شہر اور بہت سے دیگر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے شامل ہیں۔

قطیف جزیرہ نما عرب کے مشرقی حصے کی سب سے قدیم آبادی ہے۔ اس کی تاریخ ساڑھے تین ہزار قبل مسیح تک چلی جاتی ہے۔قطیف میں عام طور پر لوگ تجارت، کاشتکاری اور ماہی گیری کا کام کرتے ہیں۔ تاہم تیل کی دریافت کے بعد جبیل انڈسٹریل سٹی قائم کیا گیا ہے، جہاں قطیف کے بہت سے لوگ تیل کی صنعت، پبلک سروس، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی کام کر رہے ہیں۔

پانچ ایشیائی مزدوروں کی گل سڑ جانے والی لاشیں جن کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ وہ ہندوستانی تھے، قطیف کے شہر صفویٰ کے ایک کھیت میں اس مہینے کی ابتداء میں پائی گئی تھیں۔ انہیں 2010ء میں ہلاک کیا گیا تھا۔

عرب نیوز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ سعودی عرب کے اس مشرقی صوبے کی پولیس نے پانچ ایشیائی مزدوروں کے قتل کے سلسلے میں پچیس افراد کو گرفتار کیا ہے۔

گرفتار کیے جانے والے مشتبہ لوگوں میں مقامی شہری اور تارکین وطن بھی شامل ہیں، انہیں صفویٰ پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا ہے۔

چار سال پہلے کے واقعات بیان کرتے ہوئے ایک شخص نے بتایا کہ وہ ایک دوست کے ساتھ منشیات اور شراب کا استعمال کرتے ہوئے ڈرائیونگ کررہا تھا، تو اسے تقریباً رات دس بجے اپنے ایک دوسرے دوست کی فون کال موصول ہوئی۔ جو کہہ رہا تھا کہ وہ فوراً ایک کھیت پر اس سے ملنا چاہتا ہے۔

اس نے کہا کہ ’’جب ہم کھیت پر پہنچے تو ہمارے پاس شراب بھی موجود تھی۔‘‘

اس شخص نے عدالت کو بتایا ’’جب ہم وہاں پہنچے تو ہم نے پانچ مزدوروں کو بیٹھے دیکھا جنہیں رسّیوں سے باندھا ہوا تھا۔ جب میرے ساتھ جانے والے دوست نے پوچھا کہ ان کو کیوں باندھا ہوا ہے؟ تو ہمارے میزبان نے بتایا کہ ان میں سے ایک نے اپنے اسپانسر کی بیٹی اور دیگر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔‘‘

اس نے کہا ’’میں نے دیکھا کہ رسّیوں سے بندھے ہوئے پانچ ہندوستانی مزدور بے ہوش تھے، ہم دوسرے کمرے میں شراب اور چرس پینے کے لیے چلے گئے۔ جب ہم شراب پی رہے تھے تو میں نے ان مزدوروں میں سے ایک کی چیخ و پکار سنی، تب میں باہر گیا اور اس کے چہرے پر ایک تھپڑ رسید کردیا۔‘‘

’’بعد میں میرا دوست جو میرے ساتھ آیا تھا، کمرے سے باہر ایک چھڑی لے کر گیا اور اس مزدور کو مارنا شروع کردیا، وہ اس وقت تک اس کو مارتا رہا جب تک کہ اس کا خون نہ بہنے لگ گیا۔ اس کے بعد ہم اُن سب کو دوسرے کمرے میں لے گئے۔‘‘

اس شخص نے بتایا ’’ہم تینوں شراب اور چرس پینے کے ساتھ ساتھ ان مزدوروں کے جسم کے مختلف حصوں پر مسلسل مارپیٹ جاری رکھی۔‘‘

’’ہم شراب اور چرس پیتے رہےاور انہیں پیٹتے رہے۔ پھر ہمارے میزبان نے انہیں کھیت ہاؤس کے داخلی دراوزے پر ایک گڑھے میں زندہ دفن کرنے کی تجویز پیش کی۔ ہم نے انہیں رسّیوں سے باندھا اور چپکنے والی ٹیپ بھی لگادی تاکہ وہ بالکل حرکت نہ کرسکیں۔‘‘

اس شخص نے عدالت کو بتایا کہ ان کا میزبان اپنا ایک پک اپ ٹرک لے کر آیا اور تینوں نے مل کر ان مزدوروں کو اس ٹرک پر لاد دیا۔ اس کے بعد ان کو ڈھائی میٹر گہرے گڑھے میں پھینک دیا۔‘‘

’’ہم نے ان مزدوروں کے تمام شناختی کارڈوں کے ساتھ انہیں زندہ دفن کردیا۔ جب فجر کی نماز کا وقت ہوا تو میں اور میرا دوست کھیت سے چلے آئے۔ جبکہ ہمارا میزبان وہاں تنہا رہ گیا۔‘‘

عرب نیوز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ پولیس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان پانچ افراد کو 2010ء میں قتل کیا گیا تھا۔

ان لاشوں کی باقیات کی دریافت بھی اتفاقاً ہوئی۔ علی حبیب نامی ایک شخص نے یہ زمین ایک بزرگ خاتون سے کرائے پر حاصل کی، جب وہ کاشتکاری شروع کرنے کے لیے زمین کو صاف اور ہموار کرنے لگا تو یہ ہولناک دریافت ہوئی۔ اس خاتون نے علی حبیب سے پہلے ایک دوسرے شخص کو یہ زمین کرائے پر دے رکھی تھی۔

تفتیش کاروں کو جب ایک کندہ سونے کی انگوٹھی اور اقامے کے کارڈز ملے تو ان کے ذریعے انہیں مقتولین اور کئی مشتبہ افراد کی شناخت میں مدد مل سکی۔

یہ گلی سڑی لاشیں رسیوں کے ساتھ پائی گئی تھی، ان کے ہاتھوں اور پیروں کو رسّیوں سے باندھا گیا تھا جبکہ ان کے منہ میں روئی ٹھونس کر ٹیپ سے بند کردیا گیا تھا۔

علی حبیب نے صفویٰ کے مشرق میں بیس ہزار مربع میٹر رقبے پر پھیلا ہوا یہ کھیت دو سال پہلے کرائے پر حاصل کیا تھا، انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے اس کو کرائے پر لیا تو اس وقت یہ جگہ بالکل ویران اور ناقابلِ کاشت تھی۔ انہوں نے پہلی مرتبہ جب کھدائی کی تو انہیں انسانی ران کی ہڈی ملی اور مزید کھدائی کے بعد بالآخر پہلی لاش ملی۔

علی حبیب نے اگرچہ پہلے یہی خیال کیا تھا کہ یہ مُردہ جانوروں کی لاش ہے، لیکن جب اگلی لاش پر انڈرویئر پایا گیا تو تصدیق ہوئی کہ یہ انسانی لاشوں کی باقیات تھیں۔