نقطہ نظر

سنگاپوری سواری، پاکستانی رکشا

میں عام طور پر مردوں کے سمندر کے سامنے سے کسی خوف کا اظہار کئے بغیر گزرنے کی کوشش کرتی ہوں-

میں نے ہمت جٹا کر گھر سے باہر قدم رکھا- اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچنے کیلئے مجھے دو اہم رکاوٹوں یا مرحلوں کو عبور کرنا تھا:

مسلح ہونے کا مرحلہ -

میدان جنگ کا مرحلہ -

یہ آسان تھا لیکن میں ان مراحل کو طے کرنے کیلئے پرعزم تھی-

آپ پریشان نہ ہوں، میں تو صرف اپنے کام پر جانے کے لئے روزانہ رکشے کا سفر کرنے کی بات کر رہی ہوں- ایک سفر جو شاید صرف دس منٹ لیتا ہے لیکن جس کی تیاری کیلئے آدھا گھنٹہ درکار ہوتا ہے-

میں چونکہ سنگاپور سے آئی ہوں جہاں ہر پانچ منٹ بعد بسیں اور ٹرینیں میسر ہیں اور ان کے لئے موبائل ایپلیکیشن بھی موجود ہیں، کراچی میں روزانہ کام پر پہنچنے کا میرا ذریعہ، میرے لئے ایک چیلنجنگ کھیل بن گیا-

اب مرحلہ تھا کہ میں ایک رکشہ ڈرائیور تلاش کرنا تھا، فیصلہ کرنا تھا کہ وہ اس پر اعتبار کیا جائے، اسے بتانا تھا کہ ڈان کا آفس کہاں ہے، کرائے پر بھاؤ تاؤ کرنا اور پھر ایک ینچے نیچے سفر کے دوران خود کا توازن برقرار رکھنا تھا-

ہو سکتا ہے کہ یہ سب آپ کو بہت انتہائی فضول اور مضحکہ خیز لگے کیونکہ میں ماہانہ بنیاد پر کسی رکشہ ڈرائیور سے معاملات طے کر کے اس پورے عمل سے چھٹکارا حاصل کر سکتی تھی- تاہم خود کو ملنے والے محدود الاؤنس اور پاکستانی ثقافت کو کلی طور پر اپنانے کے جوش میں، میں ہر صبح یہ چیلنج قبول کرنے کا فیصلہ کیا-

پھر، ڈان میں میرے سپروائزر، حسان نے پہلے ہی بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر کام پر پہنچنے کمرے زبردست آئیڈیے کی حفاظتی نقطہ نگاہ سے حوصلہ افزائی نہیں کی تھی-

رکشہ یقیناً یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ کراچی کو ایک الگ زاوئیے سے دیکھا جا سکے-

کار، جس میں کھڑکیوں کے شیشے بھکاریوں سے بچنے کے لئے چڑھائے رکھنے پڑتے ہیں اور ان پر ٹنٹ، تماشائیوں کی نگاہوں سے بچنے کے لئے کیا جاتا ہے، کے مقابلے آپ رکشے میں، میں اپنے آپ کہیں زیادہ ایک مسافر کے طور پر محسوس کرتی ہوں کہ یہ سفر کہیں زیادہ انٹرایکٹو ہوتا ہے- اور آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

پہلا مرحلہ: اسلحہ خانہ

میں نے سب سے پہلے مناسب ہتھیار کی تلاش میں نظریں دوڑائیں یعنی رکشہ ڈرائیور-

خیابان حافظ پر ایک بریانی کی دوکان کے باہر کئی رکشہ ڈرائیور جمع رہتے ہیں، جن میں سے کوئی اپنے رکشے میں بیٹھا ہوتا ہے، کوئی سگریٹ پیتا نظر آتا ہے، کوئی کھانا کھا رہا ہوتا ہے، کوئی چائے پی رہا ہوتا ہے یا پھر وہ ایک دوسرے سے گپ شپ میں مصروف ہوتے ہیں-

میں عام طور پر مردوں کے اس سمندر کے سامنے سے کسی خوف کا اظہار کئے بغیر گزرنے کی کوشش کرتی ہوں-

کوئی مجھے 'بیٹا'، کوئی 'جی' کہ کر میری توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے- ویسے اور بھی الفاظ کہے جاتے ہیں لیکن میری سمجھ میں یہی دو الفاظ آتے ہیں- کوئی گانا گانا شروع کر دیتا ہے جن کے بول آج تک میرے پلے نہیں پڑے، کچھ عجیب سی نگاہوں سے گھورنے لگتے ہیں جبکہ چند ہر چیز سے بے پرواہ اپنی گفتگو میں مگن رہتے ہیں-

میں عام طور سب سے پہلی دکھائی پڑنے والی لاٹ کا انتخاب کرتی ہوں کہ میرے خیال میں ان تک آسانی سے پہنچنے کی وجہ سے مجھے سہولت ہوتی ہے- آپ ذرا دیکھیں کہ میں نے کراچی میں گزرے اپنے پچھلے ایک ماہ کے دوران یہ سیکھا ہے کہ تمام گفتگو، چاہے وہ بھاؤ کے تول کے بارے میں ہو یا کسی بڑی ڈیل کے لئے، تمام دوستانہ گفتگو کے انداز میں کیے جاتے ہیں، اور چاہے آپ ان افراد سے چند لمحے پہلے ہی ملے ہوں-

اس لئے میں نے یہ وتیزہ اپنا لیا ہے کہ رکشہ ڈرئیور سے ایک تعلق بنانے کیلئے پہلے "اسّلام علیکم" کہوں اور پھر مسکراؤں-

عام طور پر میرا پہلا انتخاب وہ ڈرائیور ہوتا ہے جو جواباً خوش اخلاقی کے ساتھ مسکراتا ہے اور جانے کیلئے تیار نظر آتے ہوئے پوچھتا ہے "کدھر جاؤ گی؟"

"ڈان آفس"، میرے جواب کے بعد، دس میں سے آٹھ تو ایسے ہوتے ہیں جنہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں واقع ہے-

پھر میں انھیں اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں بتاتی ہوں کہ یہ شاہین کمپلیکس کے پاس ہے اور وہاں سے "سیدھا" اور پھر "پی ایس او پمپ کے برابر میں سیدھے ہاتھ پر"-

عام طور پر انہیں تھوڑا مبہم سے سمجھ آ جاتا ہے تو وہ سر ہلاتے ہیں-

میں یہ یقینی بناتی ہوں کہ ڈرئیور کو واقعی سمجھ آ گیا ہے یا نہیں- میں مشور جگہوں کے نام بتاتی ہوں، جناح کورٹ، پی ایس او پمپ وغیرہ- جو ڈرئیور ان جگہوں کے نام سمجھ کر انہیں اسی ترتیب کے ساتھ دہرانے میں کامیاب ہوتے ہیں، عمومأ میں انہیں پر بھروسہ کرتی ہوں-

پہلے مرحلے کا اختتام قریب ہے- لیکن سب سے مشکل مرحلہ باقی ہے، قیمت یا کرایہ طے کرنا-

میں اردو کا اپنا بہترین لہجہ استعمال کرتے ہوئے پوچھتی ہوں "کتنا" اور ایک مناسب کرائے یا قیمت کا انتظار کرتی ہوں جو کہ ہوشربا نہ ہو- وہ شاید میرا لہجہ ہے، میرے چھوٹے سرخ بال اور یا پھر میری آنکھوں کی چمک، کہ اکثر اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے مجھ سے ڈھائی سے تین سو روپے کا مطالبہ کرتے ہیں( میرے آفس کے ساتھیوں نے میری مدد کی خاطر بتایا ہے کہ مجھے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو روپے دینے چاہئیں)-

اس ہوشربا قیمت کو کم کرانے کے لئے میں اپنا سر ڈرامائی انداز سے پیچھے کی طرف جھٹک کر چلاتی ہوں "بس، سستا پلیز!"

زیادہ تر ڈرائیوروں کو میرے چہرے کے تیزی سے بدلتے تاثرات سے متاثر ہوتے ہیں اورص پر مسترانے لگتے ہیں جبکہ کچھ کھیلنے لگتے ہیں-

اپنے بہترین دنوں میں، کرایہ سو روپے تک کم کرانے میں کامیاب ہو سکی ہوں جبکہ برے دنوں میں یہ کمی صرف بیس روپے ک محدود رہ سکی ہے- اب بھی کرایہ کم کرانے کے حوالے سے میرا ریکارڈ سو روپے کا ہی ہے تاہم ایسا کرنے کے لئے مجھے اپنی طوطی پھوٹی اردو میں ڈرائیور سے بیس منٹ تک بات چیت کرنا پڑی تھی-

دوسرا مرحلہ: میدان جنگ

دنیا میں ایسی کوئی لڑائی نہیں جہاں آپ وہ مسلز تیار کر سکیں جو آپ کو کراچی کے رکشے کی سواری کے لئے تیار کر سکے-

گو کہ میں نے بنکاک اور لاؤس میں ٹک ٹک میں اور ہندوستان میں آٹو میں سفر کیا ہے لیکن ان سب کو تو چھوڑیں، میرے خیال میں تو کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس کا موازنہ یہاں کے رکشے سے کیا جا سکے-

اس میں سواری کرنے کے دوران آپ کو آواز، حرکات اور مختلف قسم کی خوشگوار اور ناخوشگوار مہک کا امتزاج ملتا ہے- یہ مجھے صرف لفظی معنوں میں ہی نہیں بلکہ جسمانی طور پر ایک ایسی جگہ پہنچا دیتا ہے جس میں بیک وقت مجھے ہارن کی آوازیں، گزرتی موٹر سائیکلوں کی زن سی آواز، لوگوں کی گفتگو، فقیروں کی صدائیں، ایک کونے سے بریانی تو دوسرے سے بھنی مرغی کے مصالحے دار سالن کی مہک محسوس ہوتی ہے- اور پھر ان سے سے بالا تو خود رکشے کا سفر ہی ہے جس میں کبھی بھی آپ اچھل کر خلاء میں پہنچ سکتے ہیں اور اس جھٹکوں کا کوئی علاج بھی نہیں-

کبھی کبھی تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہوں کہ اگر میں اچھل کر رکشے سے نکل گئی تو میرا کیا حشر ہو گا تاہم، تمام تر جھٹکوں کے باوجود، جو کبھی کسی گٹر کے ڈھکن، خراب سڑک یا کسی بھی دوسری وجہ سے لگتے ہی جاتے ہیں، مجھے اپنی سیٹ کو مضبوطی سے تھامے رکھنے پر مجبور کرتے رہتے ہیں اور کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں رکشے سے نکل کر گری ہوں-

آخر میرا سفر ختم ہے، جس کے دوران میں نے اپنے قدم جمائے رکھے اور اپنے سیٹ کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور فاصلہ طے ہوتے دیکھتی رہی-

اور پھر پانچ منٹ بعد، میں خود کو خوشی سے بتاتی ہوں "رکشے کی سواری کا ایک اور دن طے ہوا"-

لیکن پھر، جب میں "بھیا" کو پیسے دینے لگتی ہوں وہ مجھے اپنی اردو کے دریا میں ڈبو دیتا ہے "واپس جانا ہے؟ کتنا ٹائم لگے گا؟ وغیرہ وغیرہ ...

اور ایک بار پھر، ایک جانی پہچانی جگہ پر اجنبیت کا احساس مجھے گھیر لیتا ہے اور میرا جواب ہوتا ہے "جی، جی، جی (میرا جواب ہر اس چیز کے بارے میں ہمیشہ یہی ہوتا ہے جو اب تک مجھے سمجھ نہیں آتیں)

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: شعیب بن جمیل

طاہرہ بویا
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔