دنیا

ہندوستان کے انتخابات میں گلیمر کا تڑکا

ہندوستانی سیاست کی پرانی روایت ہے کہ عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں فلمی دنیا کے گلیمر کا تڑکہ لگاتی ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ہندوستانی پارلیمنٹ یعنی لوک سبھا کے انتخابات کے لیے کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی اور کانگریس کی نائب صدر راہول گاندھی کے مقابلے پر اپنے امیدواروں کا اعلان کردیا ہے۔

کانگریس کا مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے اور راہول گاندھی کے انتخابی حلقے امیٹھی میں بی جے پی نے اپنے امیدوار کے طور پر ریاستی اسمبلی کی رکن اور سابق ٹی وی آرٹسٹ سمرتی ایرانی کو میدان میں اتارا ہے۔

ہندوستان میں لوک سبھا کے انتخابات جیسے جیسے نزدیک آتے جارہے ہیں، لوگوں پر سیاسی رنگ چڑھنے لگا ہے۔ سیاست کے میدان میں فلم و ٹی وی کے معروف ستاروں کی آمد سے گویا ہندوستان کے انتخابات کو گلیمر کا تڑکہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس سال چندی گڑھ میں دو مشہور فلمی ستاروں کے درمیان ایک دلچسپ انتخابی جنگ جاری ہے، گل پناگ جنہیں عام آدمی پارٹی نے ٹکٹ دیا ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کی امیدوار کرن کھیر سے مقابلہ کررہی ہیں۔

جب گل پناگ کے نام کا اعلان کیا گیا تھا تو یہی سمجھا جارہا تھا کہ انہیں ان کی نوجوان دلکشی کے باعث ٹکٹ دیا گیا ہے، لیکن بی جے پی نے مساوات کو کچھ تبدیل کرتے ہوئے اپنی اسٹار کرن کھیر کو میدان میں اُتارا۔جو سیاسی میدان کا خاصا تجربہ رکھتی ہیں۔ لیکن کانگریس کے امیدوار پون کمار بنسال جنہیں بحران کی وجہ سے ریلوے کی وزارت چھوڑنی پڑی تھی، ان دونوں خواتین کے ڈمپلز کی چمک دمک سے کس طرح مقابلہ کرپائیں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال کو سیاست میں قدم رکھنے سے قبل انّا ہزارے کی بھوک ہڑتال کے دنوں ہی سے بالی وڈ کی خاصی ہمدردیاں حاصل ہوگئی تھی، لیکن سیاست میں قدم رکھنے کے بعد کچھ کے ساتھ دوریاں پیدا ہوگئیں۔ پھر بھی اس پارٹی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ اب بھی بالی وڈ سے کچھ سرپرائز دے سکتی ہے۔

کانگریس کی جانب سے عوام کو متوجہ کرنے کے لیے انہی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے اداکاروں کو میدان میں اُتارا گیا ہے، جیسے کہ بھوجپوری فلم کے سپراسٹار روی کشن جون پور سے، اداکارہ نغمہ میرٹھ سے اور ماضی کے مقبول اداکار راج ببر غازی آباد سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔

نریندرا مودی کی قیادت میں بی جے پی نے بھی اپنے پرانے وفادار ساتھیوں شتروگھن سنہا کو پٹنہ صاحب سے اور ہیمامالنی کو متھرا سے ٹکٹ دیے ہیں، ان کے ساتھ ساتھ فلمی دنیا سے بی جے پی کے نئے ساتھی پاریش راول کو احمدآباد ایسٹ سے، جوئے بینرجی کو بیربھم سے، بابل سپریو کو اسانسول سے ٹکٹ دیے ہیں۔

تاہم سب سے زیادہ فلمی ستاروں کی تعداد ترنمول کانگریس کے پاس ہے۔ ممتا بینرجی کی قیادت میں اس پارٹی نے سچرتاسین کی بیٹی مون مون کو بنکورا کی نشست کے لیے کھڑا کیا ہے، سندھیا سین مدناپور سے مقابلہ کررہی ہیں، بسواجیت نئی دہلی سے، سپراسٹار دیو گھاٹال سے اور گلوکار سومترا رائے اور اندرانیل سین بھی دوسروں کے ساتھ انتخابی میدان میں اُترے ہیں۔

اُدھر میرٹھ میں لوک سبھا کی نشست سے کانگریس کی امیدوار اور فلم اداکارہ نغمہ کے ساتھ عوامی جلسے کے دوران کی گئی بدسلوکی کی وجہ سے جمہوریت میں گلیمر کی دنیا سے وابستہ لوگوں خاص طور خواتین ستاروں کے کردار کےحوالے سے گرماگرم بحث جاری ہے۔

حقیقت تو یہی ہے کہ انتخابات میں عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے مابین خوبصورت چہروں کو سامنے لانے کی گویا مقابلہ آرائی چل رہی ہے۔

سیاسی مبصرین کا خیال بھی یہی ہے کہ اکثر سیاسی جماعتوں کی جانب سے فلمی دنیا کے ستاروں کو ٹکٹ دینا دراصل اپنی انتخابی مہم کو رنگارنگ اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بنانا ہے۔ تجزیہ نگار اور ناقدین کا کہنا ہے کہ اس دوڑ میں اس حقیقت سے صرف نظر کیا جارہا ہے کہ پارلیمنٹ کوئی تفریح ​​کا تھیٹر نہیں، بلکہ وہ قابلِ احترام اور سنجیدہ مقام ہے جہاں عوام کے منتخب نمائندے قانون سازی کا کام کرکے قوم کے لیے درست سمت کا تعین کرتے ہیں۔

ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ یہ جمہوریت کی ستم ظریفی ہے کہ سیاسی جماعتیں اب گلیمر کی دنیا کے خوبصورت چہروں کے سہارا لے کر انتخابات کا بیڑہ پار لگانا چاہتی ہیں۔

ایک طرف ہندوستان کی قومی سیاست میں سونیا گاندھی، مایاوتی، سشما سوراج، ممتا بنرجی جیسے چہرے ہیں، جنہوں نے عوام کے درمیان رہ کر کام کرتے ہوئے سیاست میں اپنی پہچان بنائی۔

جبکہ ان کے ساتھ ساتھ گل پناگ، کرن کھیر، منمن سین، نغمہ، جیہ پرادا اور ہیما مالنی جیسے نام ہیں، جن کی قابلیت یہ ہے کہ ان کا تعلق فلمی دنیا سے ہے اور اپنی شہرت کو انتخابات میں کیش کروانا چاہتے ہیں۔

یوں تو ہندوستان کی سیاست میں گلیمر کی آمد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس کی شروعات جنوبی ہندوستان سے ہوئی تھی، جہاں تامل ناڈو میں جے للیتا نے فلمی دنیا کو چھوڑ کر سیاست کے میدان میں قدم رکھا تھا، اور وہ اقتدار کے سنگھاسن تک بھی پہنچیں۔

بعض ہندوستانی مبصرین سمجھتے ہیں کہ ان مخصوص شخصیات کو ٹکٹ دے کر اور الیکشن میں ان کی مدد سے اپنے پیغام کی تشہیر کرنے کے لیے ان پارٹیوں کی طرف سے معاوضے کے طور پر دی گئی رقم اور دوسری سہولیات اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں کہ امیدواروں کے الیکشن کمیشن کی زد میں آ جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔