نقطہ نظر

یکسانیت اور رنگا رنگی

یکسانیت جانی پہچانی بلکہ اطمینان بخش بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس کا مطلب ہے چیلنج سے بچنا، جس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔

پیو ریسرچ سینٹر کے سروے کے مطابق پاکستان تمام ایشیائی ممالک میں سے ایک ایسا ملک ہے جہاں مذہبی رنگارنگی سب سے کم نظر آتی ہے- یہ خبر پچھلے ہفتہ سامنے آئی جب اس ادارہ نے مذہبی تفریق کے بارے میں اپنی تازہ ترین رپورٹ شائع کی-

مذہبی رنگارنگی معلوم کرنے کے لئے جو پیمانہ اختیار کیا گیا وہ یہ تھا کہ 2010 کے سال سے کسی ملک کی آبادی کا کتنا فیصد دنیا کے آٹھ بڑے مذہبی گروہوں سے تعلق رکھتا ہے- جس ملک میں آبادی کا فی صد مذہب کے لحاظ سےجتنا زیادہ برابر ہوگا اس کی رینکنگ اتنی ہی زیادہ ہوگی- حیرت کی بات نہیں کہ پاکستان رینکنگ کی نچلی سطح پر تھا، یہ 136 ممالک میں سے ایک تھا جنکی رنگارنگی "کم" تھی-

سارے ایشیائی ممالک میں صورت حال ایسی نہیں ہے-ایشیائی-پیسفک کے علاقے میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ تنوع پایا جاتا ہے- سروے میں 232 ممالک کی رینکنگ کی گئی جس کے مطابق سنگاپور---- جس کی آبادی 5 ملین ہے اور جس کی معیشت ایک عرصے سے تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے---- دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذہبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اچھی خاصی تعداد میں رہتے ہیں، بودھ ، ہندو، مسلمان اور عیسائی- دیگر ایشیائی ممالک جو اولین بارہ ملکوں میں شامل ہیں، وہ ہیں تائیوان، ویٹنام، جنوبی کوریا چین اور ہانگ کانگ-

96.4 فیصد مسلمان آبادی کے ساتھ، تناسب کے لحاظ سے پاکستان 23 واں بڑا مسلم آبادی والا ملک ہے، جو اپنے قریب ترین پڑوسیوں افغانستان اور ایران سے چھوٹا ہے- مصر، انڈونیشیا اور حتیٰ کہ سعودی عرب میں بھی (شائد اس وجہ سے کہ یہاں دیگر ممالک کے تارکین وطن رہتے ہیں) دیگر مذاہب کے ماننے والے تناسب کے لحاظ سے کم تعداد میں ہیں-

اعداد و شمارحقائق بتاتے ہیں، اور پاکستان کے معاملے میں، ان حقائق کی یقین دہانی ہوتی ہے جن سے ساری دنیا واقف ہے- ملک کی بظاہر یکسانیت کے پیچھے مفروضہ یہ ہے کہ اس یکسانیت کے نتیجے میں قومی اتحاد خودبخود پیدا ہوگا- اگر تمام پاکستانی ایک مذہب کو مانتے ہیں تو پھر انحراف کا سوال نہیں، یہ ہے نظریہ اور اس کو مانا بھی جاتا ہے-

ان وجوہات کی بناء پر اختلاف کی گنجائش نہیں اور اختلاف کی گنجائش اور بھی کم ہوگئی ہے-عیسائی چھپ گئے ہیں یا بھاگ گئے ہیں، یہی احمدی بھی کر رہے ہیں اور آجکل تو شیعوں پر بھی زمین تنگ کی جارہی ہے- قاتل سمجھتے ہیں کہ جب اتنی بڑی تعداد میں انھیں نیست ونابود کردیا جائے گا تو اتحاد کا پیدا ہونا یقینی ہے-ان ہلاکتوں کے خاموش تماشائیوں کا خیال ہے کہ اتحاد ہوگا تو خوشحالی بھی آئیگی-

ان بنیادوں پر یکسانیت کی جانب پیشقدمی جاری ہے- کراچی کی سڑکوں پر کسی شیعہ ڈاکٹر کو گولی مارکر ہلاک کردیا جاتا ہے، جیل میں عیسائی کو قتل کردیا جاتا ہے، ہندو لڑکی کو ریپ کے بعد مار دیا جاتا ہے---- یہ تمام خبریں آپ کو اخباروں سے مل جائنگی----اور یہ ساری قربانیاں یکسانیت کے نام پر اور جھگڑوں کو ختم کرنے کے نام پر دیجارہی ہیں- فی الحال ہم چاہتے یہ ہیں کہ دنیا میں ایک کلچر،ایک مذہب اور ایک فرقہ ہو- ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی اس طرح کی دنیا کا خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ خود ان کے درمیان مذہب کے نام پر خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے- پاک لوگوں کی اس سرزمین پر ایک مذہب سے تعلق رکھنا، صرف ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنا، باعث فخر سمجھا جارہا ہے-

پاکستان میں آج ایسی کوئی اینٹ موجود نہیں جس کی مدد سے یہاں برداشت کی عمارت تعمیر ہوسکے- احترام اور برداشت، مذہبی مساوات اور مذاہب کے درمیان اور فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کے گیت بہت دنوں سے گائے جارہے ہیں، اتحاد کی تلاش اور رنگارنگی کو ختم کرنے کی کوششوں نے ان کی دھنوں کو خاموش کر دیا ہے- لیکن اس ظلم وستم کو ختم کرنے کی آواز جو معمولی سی مختلف--- بہت ہی کمزور ہے----- ان لوگوں کو سنائی نہیں دیگی جو بہرے ہیں، یہ ایک اور سچائی ہے جو پیو سروے ہمیں بتاتا ہے-

جیسا کہ اس سروے میں دی جانیوالی فہرست سے ثابت ہوتا ہے، ایشیاء کے جن جن ملکوں میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ جتنی زیادہ تعداد میں آباد ہیں، ان کی معیشتیں بہتر طور پر کام کر رہی ہیں- ملیشیا ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں مسلمانوں،عیسائیوں اور ہندووں کی ملی جلی آبادی رہتی ہے اور مسلمان اکثریت میں ہیں جہاں معاشی خوشحالی ہے جو کسی تیل کی دولت کی مرہون منت نہیں ہے،بلکہ اسکی اس صلاحیت کی بناء پر ہے کہ یہ غیرملکی سرمایہ کاری کے لئے ایک پرکشش جگہ ہے،اور جہاں رواداری کو جگہ دی گئی ہے جس کی وجہ سے وہاں نئے لوگ سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں-

پاکستان جس جوش و جذبے کے ساتھ یکسانیت کے، موت کے جس راستہ پر گامزن ہے، وہ ایک بند گلی ہے-ایک کو نیست و نابود کردو،پھر کسی اور کو اور مزید اور کو، یہ راستہ ہلاکتوں کا راستہ ہے،مل جل کر رہنے کا نہیں- پاکستانیوں کے ہجوم کے ہجوم دوسرے ملکوں میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں یا وہاں ریفیوجی کی حیثیت سے پہنچ رہے ہیں جہاں شائد ہی انھیں پناہ ملے- اور وطن میں یہ حال ہے کہ خونخوار بھیڑیے مزید خون کے طلبگار ہیں اور چھوٹے چھوٹے اختلافات قتل و غارت کی بنیاد بن جاتے ہیں- کوئی انتہا نہیں، ہلاکتوں کا ایک چکر ہے کہ چلے جا رہا ہے، جسکی بنیاد یہ غلط نظریہ ہے کہ مذہبی تفریق کو مٹادیا جائے تو ایک بہتر مستقبل کی راہ ، بلکہ امن و شانتی کی راہ بحال ہوسکتی ہے-

اسلامی تاریخ کا سنہرا دور ایک اور من پسند موضوع ہے- اس سنہرے دور کا قریب ترین دور سلطنت عثمانیہ کا دور ہے، جبکہ اختلاف میں بھی توازن کو برقرار رکھا گیا تھا، علم کا تبادلہ ہوتا تھا اور اچھی باتوں کو تسلیم کیا جاتا تھا جو دوسروں سے حاصل ہوتی تھیں نہ کہ اپنے ہی عقائد کی ہو بہو نقل-

یہ شائد ان لوگوں کا وطیرہ تھا جو خود کو محفوظ سمجھتے تھے، جنھیں یہ خوف نہیں تھا کہ دوسرے عقائد کی موجودگی جن کا کھانا مختلف ہے، جن کا لباس مختلف ہے ان کی شناخت ختم کردیگی- باہمی میل جول میں،انھیں مواقع اور بہتری کے امکانات نظر آتے تھے-

دوسروں کو علیحدہ کرنے کا مطلب ہے خود بھی تنہا ہوجانا- ایسے ہی دو اور ملک افغانستان اور ایران ہیں جہاں کی مذہبی یکسانیت کی شرح ہماری ہی طرح ہے- ایک کو تو جنگ نے تباہ و برباد کردیا اور دوسرے نے خود کو ساری دنیا سے الگ کرلیا ہے- دوسروں کو الگ کردینے، اور اختلافات کو انصاف سے حل نہ کرسکنے کی صلاحیت کا نتیجہ یہ ہے کہ سرحدیں دیوار اور وطن کی سرزمین شکنجہ بن گئی ہے- یکسانیت جانی پہچانی بلکہ اطمینان بخش بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس کا مطلب ہے چیلنج سے بچنا جس کے بغیر کامیابی ممکن ۔نہیں۔

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ : سیدہ صالحہ

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔