خطبہء وزیرستان
اسلام آباد فروٹ منڈی دھماکہ نے اس مذمتی ٹولے کو ایک بار پھر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا موقعہ فراہم کر دیا تھا جو ہر دہشت گرد حملے کے بعد ٹی وی پر نمودار ہو کر خونی واقعہ پر 'مذمت ' فرما دیتے تھے.
اس مذمتی ٹولے میں ایک نیا اضافہ اس وقت ہوا جب محترم تحریک طالبان نے جنگ بندی کا 'احسان' کرتے ہوۓ قوم پر حملے بند کرنے کا اعلان کر دیا. اس اعلان نے پہلے سے ہی ٹھاٹیں مارتے محبت کے سمندر میں ایسا مد و جزر پیدا کیا کہ ہر کوئی اسکے اظہار میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں نظر آیا.
لیکن اس عمل میں سب یہ بھول گئے کہ 'اعلان پارسائی' سے پہلے اس ہی نام نہاد 'کالعدم تحریک' کے محبوب مشاغل میں پاکستانی فوجیوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنا، بازاروں میں مفت انسانی آتش بازی کا اہتمام کرنا اور مساجد سمیت دوسری عبادت گاہوں میں خون کے چڑھاوے چڑھانا جیسے 'کھیل' شامل تھے. لیکن پھر بھی ہمارے وزیر داخلہ صاحب نے فرمایا کہ طالبان کی لڑائی ریاست سے نہیں ہے.
خان صاحب نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا اور بیان جڑ دیا کہ طالبان تو صرف اتنا چاہتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کی جنگ سے نکل آئے انکا مقصد بزور بندوق شریعت کا نفاذ نہیں. منور حسن صاحب نے طالبان کو بھائی قرار دے ڈالا.
حیرت ہوتی ہے کہ دیوانے ہم ہیں یا یہ لیڈرز!؟ حکومت کا حال ان میزبانوں کا سا ہو گیا تھا جو آنے والے باراتیوں کی من مانی خواہشات کی تکمیل میں عزت کا پاس بھی نہیں کرتے.
خیر اس اعلان جنگ بندی کے بعد بھی پاکستانی قوم اپنے خون سے خراج ادا کرتی رہی اور مذمتی ٹولے میں نووارد طالبان بھی اس راگ میں شامل ہو گئے اور ہر نئے حملہ پر قوم کو 'مذمت' کا تحفه پیش کرنے لگے. خاص طور پر جب اسلام آباد فروٹ منڈی دھماکہ ہوا تو طالبان ترجمان شاہد الله شاہد نے ایک دفعہ پھر اپنا مذمتی بیان جاری کیا لیکن ساتھ میں ہی ایسی گزارشات بھی کیں جن کو پڑھ کر سمجھ نہیں آئی کہ اپنا ماتھا پیٹوں یا حکومت اور طالبان کے ہمدردوں کا؟
غریب کی جورو سب کی بھابھی کے مصداق جناب طالبان نے بھی عوام کو ایک لمبا چوڑا نصیحت نامہ پکڑا دیا. انکے مطابق طالبان اپنے اعلان جنگ بندی پر ابھی تک قائم ہیں. لیکن اس روایتی بیان کے بعد انہوں نے اپنے قیمتی خیالات سے قوم کو مستفید کرنا ضروری سمجھا کہ ایسے حملوں میں خفیہ ہاتھ کے ملوث ہونے کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے جو پاکستان کے مسلمانوں پر حملے کر کے انکو اسلام سے محبت کی سزا دینا چاہتے ہیں.
ارے جناب! یہ سزا دینے کا ٹھیکہ تو چند ماہ پہلے تک آپنے اٹھا رکھا تھا اور آپ اپنی یہ ذمہ داری بخوبی نباہ بھی رہے تھے، اب ایکدم سے آپکو بھی خفیہ ہاتھ یاد آ گیا؟
اس خطبے میں حضرت کا یہ بھی فرمانا تھا کہ ماضی میں بھی تحریک طالبان کے نام پر مختلف شہروں میں دھماکے کیے گئے، ساتھ میں عوام کو مکھن لگاتے ہوے کہا کہ پاکستان کے باشعور عوام کو واضح ادراک ہونا چاہئے کہ عوامی مقامات پر حملوں میں کون سے عناصر ملوث ہیں.
حضرت جی گزارش یہ ہے کہ عوام کو اچھی طرح سے پتا ہے کہ ان حملوں میں 'دہشتگرد' عناصر ملوث ہیں. پہلے یہ آپکا کام تھا اور اب اس 'عارضی دور پارسائی' میں آپکی کوئی طفیلی تنظیم اس کار خیر کو آگے بڑھا رہی ہے!
یہ دہشتگرد آج قوم کو سبق پڑھانے آئے ہیں. وہ جن کے چہرے اور ہاتھ معصوم جانوں کے خون سے لتھڑے ہوۓ ہیں اور الفاظ سے منافقت اور جہالت ٹپکتی ہے. شائد یہ قوم کو بھی اسکے لیڈرز کی طرح جاہل اور غیر حقیقت پسند سمجھتے ہیں.
اس خون کی ہولی کا ذمہ دار ریاستی ایجنسیوں کو قرار دے کر یہ درندے سمجھ رہے ہیں کہ لوگ پچاس ہزار سے زائد معصوم شہریوں اور فوجیوں کا خون بھول گئے ہیں. پتا نہیں شائد یہ سمجھتے ہیں کہ انکے مخاطبین بھی عقل سے محروم مخلوق ہیں، شائد انکا یہ مغالطہ ہمارے لیڈرز کے اندھے پیار کا نتیجہ ہو جسکی بنا پر انکا خیال ہے کہ یہ پوری قوم ہی عقل سے پیدل ہے.
اور سنتے جائیے، شاہد صاحب کا فرمان تھا کہ بلوچ اور سندھ کے 'مظلوم' عوام انکے بھائی ہیں. یہ بیان اس تنظیم کی جانب سے آ رہا ہے جس کے منہ سے کراچی اور بلوچستان کے ہزاروں معصوم شہریوں کے خون کی بو آ رہی ہے.
آخر میں ترجمان صاحب نے اپنے درس کا اختتام ان الفاظ پر کیا کہ 'بے گناہوں کو مارنا شرعاً حرام ہے'. اس فتوے سے انکے ہمدردوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیئں کہ یہ دہشت گرد تنظیم اور اس سے وابستہ یہ مخلوق انسانی خون کی ہولی کھیلنے کے لئے اسلام اور اخلاقیات کے درس بھی دے گی، مزاکرات کا ڈھونگ رچا کر مظلومیت کا چولا اوڑھے گی اور قوم کو دن کی روشنی میں بیوقوف بنانے کی کوششیں بھی کرے گی.
اب تو ویسے بھی بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے. تحریک ظالمان نے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے، ساتھ ہی مہمند ایجنسی کے دہشتگرد کمانڈر خالد خراسانی کا بیان تھا کہ حکومت امن قائم کرنے کے لئے سنجیدہ نہیں تھی اور شریعت کے نفاذ کا واحد راستہ جہاد ہے.
اب یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ اس جنگ بندی کے ختم ہونے کے نتیجے میں طالبان بوندیاں اور قلاقند تو نہیں بانٹیں گے، بلکہ اپنی خصلت اور فطرت کے مطابق پھر سے انسانی خون بہانا شروع کر دیں گے. کوئی ہے جو ان سے پوچھے کہ اب کون سی شریعت معصوم خون بہانے کی اجازت دیتی ہے؟
کس سازش کے تحت 'آپکو' بدنام کرنے کے لئے دھماکے کیے جاتے ہیں؟ کس صوبے کے مظلوم عوام آپکے بھائی ہیں؟؟
یہ تمام سوال نہ ہی کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی کوئی جواب دینے والا. حکومت اور 'انجمن ہمدردان طالبان' خم ٹھونک کر میدان میں آ جائیں گے، مزاکرات کی بھیک مانگیں گے اور اپنی اوندھی منطقوں، جہالت اور سیاست بازی کیلئے اگلے دھماکے کی مذمت کے لئے پھر میڈیا پر آ دھمکیں گے. لگے رہو ……….. بھائی!!
علی منیر میڈیا سے منسلک ہیں اور سیاسیات اور سماجیات کے موضوعات پر بلاگنگ کرتے ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔