نقطہ نظر

آصف بھائی کے ٹوٹکے

عبدل الرحیم خان خاناں، شہنشاہ اکبر کے دربار میں اپنے علم و دانش کی وجہ سے خاص مقام رکھتے تھے

آصف قدوائی لکھنو میں اپنی ہومیوپیتھی کی دواؤں کے لئے مشہور تھے- لیکن اس کے علاوہ اپنی بہترین داستان گوئی، ظرافت، سیاسی سمجھ بوجھ کے لئے بھی مقبول تھے- وہ ایک صحافی اور اعتدال پسند شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے- وہ ایک ایسے سرگرم مسلمان کارکن تھے جن کا مطالعہ وسیع تھا- وہ فلرٹ بھی کرتے تھے،خوبصورت تھے اور ان کی لہراتی ہوئی سیاہ، گھنی ڈاڑھی تھی-

نمونیہ کے شدید حملے نے ان کے پیروں کو مفلوج کردیا تھا اور زندگی بھر کے لئے ان کا ناطہ بستر سے جڑ گیا تھا- ان کے بستر پر کتابوں کا ڈھیر اور ایک نوٹ بک ہوا کرتی تھی- ہم انھیں آصف بھائی کہتے تھے، ان کے پاس سے عطر کی بھینی بھینی خوشبو آیا کرتی، جو موسم کے لحاظ سے بدلتی رہتی- وہ کبھی کبھی خوشبودار پان کھایا کرتے- ان کے بستر کے نیچے پرانی وضع کی باتھ روم کی چپلوں کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ الجھن ہوتی تھی- ان کے کمرہ اورمفت کلینک میں جس پر بمبو کی بنی چق لٹکی ہوتی، مریضوں، شاعروں، دانشوروں اور دکھیاری عورتوں کا تانتا بندھا رہتا- بات چیت کبھی فصیح اردو، کبھی اودھی اور کبھی شاوین انگریزی میں ہوتی، موقع محل کے اعتبار سے-

1965 کی ہند-پاکستان جنگ میں پولیس نے آصف قدوائی کے گھرکو گھیر لیا جسکی وجہ افواہیں تھیں جسکا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ مسلمانوں کے گھروں کو دوسرے علاقوں سے کاٹ دیا جاتا- آصف بھائی کا معمول تھا کہ وہ کہانی کا دوسرا رخ جاننے کے لئے ریڈیو پاکستان سنا کرتے جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست نے انھیں جاسوس سمجھ لیا- اس وقت تک گھر گھر بی بی سی ریڈیو سننے کا رواج نہیں ہوا تھا-

ایک مرتبہ آصف بھائی نے ایک بچے کا علاج کیا جو چھ سال کا تھا اورسوتے میں بستر گیلا کردیا کرتا اور اسکی بدبو کمرے میں اس کے ساتھ سونے والوں کو پریشان کردیتی- انھوں نے علاج یہ بتایا کہ اسے روزانہ تین دن تک دن میں دو مرتبہ سفید رنگ کا میٹھا سفوف اور ہفتہ میں دو مرتبہ بطخ کا ابلا ہوا انڈہ کھلایا جائے اور سب سے آخر میں یہ کہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے پیتل کے چمکتے ہوئے برتن میں پیشاب کرکے اسے اپنے بڑے بھائی کے بستر کے نیچے رکھ دے-

لوگوں نے شائد یہ سمجھا ہو کہ یہ نسخہ کارگر ہوا، لیکں تقریباً بیس سال بعد آصف بھائی نے ہنستے ہنستے بتایا کہ یہ جادوئی اثر کیا تھا- دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ انھوں نے بتایا وہ چاہتے صرف یہ تھے کہ جب بچہ سوئے تو اسکا مثانہ خالی ہو- میٹھا سفوف اور بطخ کے انڈے صرف ٹوٹکہ تھے- پیتل کا برتن اس چھوٹے سے بچے کو محض راغب کرنے کا ذریعہ تھا-

پیچیدہ مسائل کے سیدھے سادے حل ہندوستانی دانائی کا لازمی حصہ تھے، لیکن اب یہ ماضی کا حصہ بن چکے ہیں- ایک دفعہ ایک پارٹی میں کوک کا گلاس گر پڑا- صاحب خانہ جو بدیس سے لوٹے تھے اپنا شاندار ویکیوم کلینر لینے دوڑے، جسے وہ کسی خلیجی ملک سے لائے تھے اور اسے چلانے کی تیاری کرنے لگے لیکن اتنے میں ایک مہمان خاتون نے ایک پرانا اخبار پھیلا دیا جس میں کوک جذب ہوگیا-

عبدل الرحیم خان خاناں، شہنشاہ اکبر کے دربار میں اپنے علم و دانش کی وجہ سے خاص مقام رکھتے تھے انھوں نے برج بھاشا میں بہت سی کہاوتیں منظوم کی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے:

رحیمن دیکھ بدیہن کو لاگھو نا دیجیئے دارجہاں کام آوے سوئی کاہن کری تلوار(اکثر ہمیں سوئی کی ضرورت ہوتی ہے تلوار کی نہیںآپ کی خوبصورت قبا کو دیکھ کر آقا مجھے یہی خیال آتا ہے)

دو مسئلوں پر غور کیجیئے جو اس لئے ناسور بن گئے ہیں کیونکہ ہندوستان کی حکمت عملی بنانے والوں نے تلوار کا سہارا لیا حالانکہ سوئی اور دھاگہ سے کام چل سکتا تھا- مثلاً کشمیر کے تنازعے کو لیں اور چھتیس گڑھ میں ماو کی سرکشی کو- جس بات کی ضرورت تھی وہ تھا ایک زیادہ جمہوری، زیادہ سیکیولر اور انصاف پسند ہندوستان اور اگر ایسا ہوتا تو ان دونوں جگہ کوئی مسئلہ نہ ہوتا اور سخت فوجی کارروائی کی ضرورت نہ پڑتی-

پچھلی چند دہائیوں کے دوران کشمیریوں سے مذاکرات کرنے والے لوگ جانتے ہیں کہ وادی میں لوگوں کے دکھ درد کی وجہ ہندوستان کی کمزور پڑتی ہوئی سیکیولر جمہوریت ہے-کشمیری علیحدگی پسندوں کی پوری تاریخ کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انھیں نئی دہلی نے یکا و تنہا چھوڑ دیا، لیکن غیر متعصبانہ اور منصفانہ جمہوریت دینے کے ہندوستان کے وعدہ نے فرقہ واریت کے احساسات کو دبا دیا تھا-

غلطی کہاں ہوئی اسے سمجھنا مشکل نہیں- پہلے تو آئینی تحفظات کو چھیڑا گیا جسکے نتیجے میں نئی دہلی کو کشمیر ملا- اس کے بعد نئی دہلی کی خواہش اور متعصبانہ رویہ کے مطابق انتخابات میں دھاندلی کی گئی جس نے وادی کے عوام میں غم و غصہ کی لہر دوڑادی-

حالیہ برسوں میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک مسئلہ کشمیر تھا اور مذاکرات ہموار طور پر چل رہے تھے- پھر ان میں شگاف پڑا اور یہ ایک اشتعال انگیز تنازعہ بن گیا جسکی پشت پر خطرناک نیوکلیر ہتھیار تھے-

اس سلسلے میں ضمناً یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان ایٹمی جنگ لڑنے کا منصوبہ بنائے گا بجائے اسکے کہ اپنی سیکیولر، منصفانہ جمہوریت میں پڑی دراڑوں کو بند کرے جسکی ضمانت ملک کا آئین دیتا ہے جو اب بھی قابل رشک ہے- کوئی بھی کشمیری، خواہ وہ سری نگر میں ہندوستان کی موجودگی کو کتنا ہی ناپسند کیوں نہ کرتا ہو پاکستان سے کیوں ملنا چاہے گا جو نسلی تنازعات کا شکار ہے، جو غالباً ایک بہت ہی سیدھا سا سوال ہے جس کی منطق کو سمجھنا نئی دہلی میں بڑے بجٹ کی پالیسیاں بنانے والے افراد کےبس کی بات نہیں-

اسی طرح ماؤ کی سرکشی کی جڑیں جنگلوں، آبی اور معدنی وسائل میں مضمر ہیں جنکی حفاظت ہندوستان کے قبائلی عوام نے کی ہے اور ازل سے اسکی پرستش کرتے آئے ہیں- چنانچہ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ماؤ کو، جنھوں نے ریاست کے عزم نہ ہونے کی وجہ سے قبائلیوں کے حقوق کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا ہے، فوجی آپریشن کے بغیر جو قابل عمل نہیں ہے، غیر مسلح کیا جا سکتا ہے-

قبائیلی عوام نئی دہلی سے جو مانگ رہے وہ بس یہی ہے کہ ان کی ایک معمولی سی درخواست کی شنوائی کی جائے:"جنگلوں سے بنیا-کنٹریکٹر-سیاستداں گٹھ جوڑ کو ختم کردیا جائے-"یہ گٹھ جوڑ نئی دہلی کی سرپرستی میں قدرتی وسائل کو بیرحمی سے نقصان پہنچا رہا ہے اور قبائیلی عورتوں کو اس کے چنگل سے نکلنے نہیں دیتا- اگر چھتیس گڑھ کا مستقبل زیادہ روشن نظر نہیں آتا اسکی وجہ نریندرا مودی کی ابھرتی ہوئی طاقت میں تلاش کرنا چاہیئےجو زندگی کی ایک حقیقت ہے اور جو استحصالی ٹرائیکا کے امیدوار ہیں- آصف بھائی اور رحیم خان خاناں اب زندہ نہیں ہیں اور جو دنیا وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں وہ ان مسائل کے لئے حنھیں ہونا ہی نہیں چاہیئے تھا، اپنے احمقانہ حل سے مطمئن نظر آتی ہے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ : سیدہ صالحہ

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔