نقطہ نظر

جنسی زیادتی کی تلافی

عورت انسان نہیں بلکہ ایک شے ہے جسے نقصان پہنچایا جاسکتا ہے، سودا کیا جاسکتا ہے، چیزوں کے ساتھ تبدیل کیا جاسکتا ہے

وہ حملے تقریباً ایک ہفتہ پہلے ہوئے تھے- دو ہندوستانی فوجی، سچن گپتا اور سورب چوپڑا، دونوں کی عمریں بیس کی آخری دہائی کےقریب ہیں، ریاست اتر پردیش میں مبینہ طور پر ایک اکیس سالہ لڑکی کو ورغلا کر اپنے ہوٹل کے کمرے میں لے گئے- پولیس کی رپورٹوں کے مطابق جو ان کے خلاف درج کی گئی ہیں، ان دونوں نے لڑکی کا ریپ کیا اور اپنے موبائل فون سے اس کی فلم بنائی-

متاثرہ خاندان نے ان دونوں کے خلاف اس واقعہ کی رپورٹ پولس کے پاس درج کرائی- اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ واقعی عجیب ہے- بجائے اس کے کہ جرم کے مرتکب لوگوں پر مقدمہ چلا کر ان کو سزا دلوانے کا مطالبہ کرتے، اس خاندان نے الزامات واپس لے کر ان افسروں کو لڑکی اور اس کی چھوٹی بہن سے شادی کر لینے کی پیشکش کی-

اس کے چند دنوں کے بعد بریلی میں یہ شادی ہوگئی اور انکے خلاف الزام واپس لے لیا گیا- جہاں تک سماجی نقطۂ نظر کا سوال ہے یہ مسئلہ ایک خاطر خواہ انجام کو پہنچ گیا- لڑکی اور اس کی بہن، جو ریپ کی عمر بھر کی بدنامی کی بجائے ایک نارمل زندگی گذارنے کے لائق ہوگئی تھی، اور وہ دونوں، جنہوں نے ایک عورت کی زندگی اس کی مرضی کے خلاف برباد کی تھی، اب ان پر اس کی اور اس کی بہن کی زندگی بھر کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ڈال دی گئی-اس کہانی کا یہ اختتام ایک سرد مزاج ، بے حس سوچ کا نتیجہ ہے جس کے مطابق مرد سے ریپ کا جرم اس لئے سرزد ہوتا ہے کہ عورت اس کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے جس میں عورت ہی ہمیشہ ملوث ہوتی ہے اور غلط بیانی کرتی ہے- اگرچہ کہ یہ واقعہ ہندوستان میں ہوا، اسی طرح کی سوچ دنیا بھر میں بہت سارے علاقوں میں بھی رائج ہے-

ملیشیا کے اخبار، دی اسٹار نے پچھلے ہفتے ایک خبرایک شخص کے بارے میں شائع کی تھی، محمد حنین جس پر تین جنسی حملوں کا الزام تھا- عدالتی سماعتوں سے پہلے اس نے ایک معذور لڑکی کی مارچ کے مہینے میں دومرتبہ بے حرمتی کرنے کا اعتراف کیا تھا- جس کی عمر صرف چودہ سال دس مہینے تھی، بہرحال، عدالتی سماعت کے موقع پر، حنین نے اپنا اعترافی بیان واپس لے لیا- ضمانت کی درخواست کے ساتھ، اس نے لڑکی کے والدین سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور اس لڑکی سے شادی کی پیشکش کی- استغاثہ، نے بہرحال، یہ کہا کہ اس طرح کی اپیل کا مطلب کیس کو بگاڑنا ہے اور عدالت سے درخواست کی کہ اپیل منظور نہ کی جائے- اپنے دلائل کی حمایت میں، استغاثہ نے ایک اور کیس کا حوالہ دیا جس میں ایک شخص کو جس نے ایک 13 سالہ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی ، 12 سال قید اور دو مرتبہ کوڑے کی سزا دی گئی تھی- حالانکہ اس نے متاثرہ لڑکی سے شادی بھی کر لی تھی-

اگرچہ کہ ملیشیا کے کیس کے نتیجہ کا ابتک کچھ بھی نہیں پتہ چلا ہے، لیکن اسکے پیچھے یہ قیاس ہے کہ ریپ کے مرتکب کو سزا دینے کا مطلب یہ ہے کہ ریپ کو ایک ایسا جرم تصور کیا جائے جو دوسرے انسان کے جسم کو زیادتی کا نشانہ بناتا ہے، جس کے نتیجے میں دوسرا شخص جسمانی اور ذہنی دونوں اذیتوں سے گذرتا ہے، اور یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کی سزا مجرم کو جرم ثابت ہونے پر اسی تکلیف کے برابر ملے- اس صورت میں، جرم کی سزا اس لئے ہے کہ قانون شکنی ہوئی ہے- اور مجرم کو شادی کی اجازت دینے کا مطلب نہ صرف قانون شکنی سے انکار کرنا بلکہ زیادتی کی شکار عورت کو دوبارہ سزا دینا ہے کہ وہ زندگی بھر اسی اذیت سے گذرتی رہے-

شادی کو جنسی زیادتی کی تلافی کے طور پر سمجھنا ایک ظلم ہے اور اس کا انکشاف مراقش میں دو سال پہلے ہوا تھا- 2012ء مارچ میں، 16 سالہ امینہ الفلالی نے زہر کھا کر خودکشی کرلی تھی جب اسے اس کے 23 سالہ جنسی زیادتی کرنے والے سے شادی کے لئے مجبور کیا گیا تھا- اس کے خاندان نے اور جج نے خاندان کی بدنامی کے خیال سے اسے زبردستی شادی کرنے کا حکم دیا تھا- اس جنوری میں، مراقش کی پارلیمنٹ نے مراقش کی قانونی تعزیرات کے دفعہ 475 میں ترمیم کا بل پاس کردیا جس کی رو سے جنسی زیادتی کرنے والے کو سزا سے بچنے کیلئے کم عمر متاثرہ فرد سے شادی کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے- مراقش میں انسانی حقوق کے سر گرم کارکن کافی عرصہ سے اس قانون کی مذمت کررہے تھے کیونکہ یہ قانون عورت کو ایک شے تصور کرتا ہے اور اس کا مزید استحصال کرنے کا اسی شخص کو دوبارہ موقع دیتا ہے جس نے پہلے بھی زیادتی کی تھی-

پاکستان میں، متعدد مذہبی عالموں نے اور نام نہاد قانونی اداروں جیسے جرگوں نے بار بار شادیوں کی تجاویز ریپ کے جرم کو مکمل طور پر ختم کرنے کے مقصد سے پیش کی تھی- یہ خیال ان کے ذہنوں میں بیٹھا ہوا ہے کہ اس بھیانک مجرمانہ عمل کی اصلاح کا یہی ایک علاج ہے- اور نہ صرف شادی کو ریپ کی تلافی کیلئے پیش کیا جاتا ہے بلکہ ریپ کے بدلے ریپ کی دھمکی شادی نہ ہونے کی صورت میں دی جاتی ہے-

اس یقین کے پیچھے، جو اس کی اجازت دیتا ہے وہ ہر صورتوں میں ایک ہی ہے--- ہندوستان میں جہاں حال ہی میں اسے تسلیم کرلیا گیا ہے، ملیشیا میں جہاں اس کے بارے سوچا جا رہا ہے اور پاکستان میں جہاں یہ قابل قبول ہے: عورت ایک انسان نہیں بلکہ ایک شے ہے جسے نقصان پہنچایا جاسکتا ہے، جس کا سودا کیا جاسکتا ہے، جسے چیزوں کے ساتھ تبدیل کیا جاسکتا ہے، یا جسے بردہ فروشی کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے مردوں کے زیادہ ضروری اور بڑے مقاصد کے عوض میں- یہ وجہ، بہرحال پاکستان کی اکثریت کے لئے قابل قبول نہیں ہے جسکی وجہ پدر شاہی اور معاف نہ کرنے کی مردانہ تانا شاہی ذہنیت ہے-

ان کیلئے، ریپ کے خلاف تلافی کی یہ دلیل شادی کے لئے نقصان دہ ہے، شادی ایک ایسا ادارہ ہے جسکی بظاہر وہ قدر کرتے ہیں- درحقیقت، جنسی زیادتی کے مرتکب شخص کو شوہر کے طور پر تصور کرنے کا مطلب شادی شدہ زندگی کو میاں اور بیوی کے درمیان ایک لین دین کا سودا تصور کرنا ہوا- پھر محبت اور ہم آہنگی کی اس میں کوئی جگہ نہیں ہوگی اور نہ وقار ، خلوص اور عہدوپیمان اور یقین دہانی کی کوئی اہمیت- بلکہ اس بات سے اتفاق کرنا کہ شادی ریپ کی تلافی ہے کا مطلب صرف یہ ہوا کہ ازدواجی تعلقات کا مطلب محض قانونی اور معاشی ہے-

تاہم اگر یہ سوچیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ شوہر ایک جنسی زیادتی کرنے والا شخص ہے یا ایک جنسی زیادتی کرنے والا شخص شوہر ہے، اور صرف مرد کی زیادتیاں بھلادی جائیں تو شادی جو رشتوں کو سنوارتی ہے اور سماج کو تابندگی بخشتی ہے وہ تبدیل ہوکر محض ماضی کے گناہوں کو چھپانے کا ایک ذریعہ بن جائے گی-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: علی مظفر جعفری

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔