ہندوستان: مسلمانوں پر تشدد میں ملوث دو مشتبہ افراد ہلاک آٹھ گرفتار
گوہاٹی : پولیس نے اتوار کو دو مشتبہ باغیوں کو ہلاک اور جنگل میں کام کرنے والے آٹھ گارڈز کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان سب پر انڈیا کے دور دراز شمال مشرقی علاقے میں دوسال سے جاری بدترین نسلی تشدد میں ملوث ہونے کا الزام تھا جس میں مسلمانوں کو قتل کیا گیا تھا۔
پولیس افسر سنجوکتہ پراشر نے بتایا کہ گھنے جنگل میں گھات لگا کر چار مشتبہ باغیوں نے پولیس اہلکاروں پر دستی بم پھینکے۔
انہوں نے کہا کہ فائرنگ کے تبادلے میں دو ہلاک اور دو مشتبہ افراد تیج پور کے قریب فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔تیج پور اس مقام سے اسی کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے جہاں جمعرات اور جمعے کو مسلمانوں پر حملہ کیا گیا تھا۔
پولیس نے یہ بھی بتایا کہ متاثرین کے رشتہ داروں کی طرف سے شکایات کے بعد سفاکانہ قتل میں ملوث آٹھ باغیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے 22 لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے ان پر گھروں کو جلانے، باغیوں کو پناہ دینے کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔
باسکہ میں ہلاک ہونے والے اٹھارہ لاشوں کے ورثا نے دفنانے سے انکار کر دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک لاشوں کو نہیں دفنائے گے جب تک ریاست آسام کے اعلٰی منتخب نمائندے نسلی تشدد کے شکار ہزاورں لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ کی یقین دہانی نہیں کراتے۔
ہزاروں خاندان شورش زدہ اضلاع میں علیحدگی پسندوں کی طرف سے سوتے ہوئے مسلمانوں کے قتل جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے کے بعد اپنے گھر بار چھوڑ کو چلے گئے ہیں۔
تازہ تشدد ملک میں عام انتخابات کے آخری مرحلے میں سامنے آیا ہے جہاں مذہبی اور نسلی کشیدگی دیکھی گئی ہے اور ہندو قوم پرست اور سخت گیر نریندر مودی کے جتینے کی توقع کی جا رہی ہے۔
پولیس نے مقامی بوڈو قبائلیوں کو جمعرات اور جمعے کے تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جہاں مسلمان بنگلہ دیش کی سرحد سے ہجرت کر کے بسے ہیں۔
پولیس کے مطابق ریاست کے اہم شہر گواہاٹی میں ہفتے کی رات ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک بچے کی ہلاکت کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 33 ہو گئی تھی۔
آسام کے وزیر اعلٰی ترون گوگوی نے کہا ہے کہ واقعہ کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی جبکہ سیکورٹی فورسز سمیت وفاقی فوجیوں کو بھی بسکہ اور ہمسائیہ ضلع کوکراجھار میں مزید فسادات کو روکنے کے لیئے طلب کیا گیا ہے۔