پاکستان

امریکا اور پاکستان نے طالبان کے خلاف آپریشن کا جائزہ لیا

وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے امور خارجہ طارق فاطمی نے امریکی ڈپٹی سیکریٹری اسٹیٹ بل برنز کے ساتھ ملاقات کی۔

واشنگٹن: پاکستان کے اعلٰی سطح کے سرکاری نمائندوں نے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے وزٹ کے دوران امریکا و پاکستان کے سینئر حکام نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کا جائزہ لیا۔

وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے امورِ خارجہ طارق فاطمی اور امریکی ڈپٹی سیکریٹری اسٹیٹ بل برنز کے درمیان ایک اجلاس کے دوران حقانی نیٹ ورک سمیت تمام طالبان عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے پاکستانی عزم پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

امریکیوں نے شکایت کی کہ پاکستان نے حقانی عسکریت پسندوں کو آپریشن شروع ہونے سے پہلے افغانستان فرار ہونے کی اجازت دی تھی۔ طارق فاطمی نے اس پر امریکیوں کو یقین دلایا کہ قومیت، نسل یا گروپ سے وابستگی سے قطع نظر فوج تمام طالبان عسکریت پسندوں کو نشانہ بنارہی ہے۔

جبکہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے طارق فاطمی نے واضح کیا کہ آپریشن ضربِ عضب میں ایک لاکھ پچھتر ہزار سے زیادہ سپاہی شریک ہیں، اور اس طرح کا بہت بڑا آپریشن خاموشی کے ساتھ شروع نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ فوج کی نقل و حرکت اور دیگر تیاریوں نے ممکن ہے کہ کچھ عسکریت پسندوں کو خبردار کردیا ہو اور ہوسکتا ہے کہ انہوں نے آپریشن شروع ہونے سے پہلے شمالی وزیرستان چھوڑ دیا ہو۔

طارق فاطمی نے کہا کہ ’’لیکن حکومت نے کسی کو بھی فرار کی اجازت نہیں دی۔ ہمارے فوجی تمام طالبان عسکریت پسندوں کو نشانہ بنارہے ہیں، چاہے وہ افغان ہوں یا پاکستانی۔‘‘

واضح رہے کہ طارق فاطمی ایک ہفتے کے دورے پر واشنگٹن پہنچےہیں، ان سے پہلے سیکریٹری دفاع آصف یاسین ملک نے بھی شمالی وزیرستان کی کارروائی پر امریکی دفاعی حکام کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا تھا۔

آصف یاسین ملک کے دورے کے دوران پاکستان کے ایک سینئر دفاعی اہلکار نے امریکی میڈیا کو بریفنگ دی تھی اور ایسوسی ایٹڈ پریس رپورٹ کے مطابق اسے مطلع کیا تھا کہ اسلام آباد نے واشنگٹن پر زوردیا تھا کہ وہ افغانستان سے اپنے انخلاء کے شیڈول پر نظرثانی کرے۔

مذکورہ اہلکار نے کہا تھا کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ امریکا افغانستان سے اپنے تمام فوجی 2016ء کے آخر تک نکال لے اور انہوں نے امریکیوں کو یاد دلایا کہ انہوں نے افغانستان میں ابھی تک اپنے مقاصد حاصل نہیں کیے ہیں۔ اور اسی وجہ سے اس ملک میں ان کے قیام کی ضرورت باقی ہے۔

جب طارق فاطمی سے اس بیان پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا ’’پاکستان کی جانب سے کسی بھی رہنما نے ایسی کوئی درخواست نہیں کی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں، اسی بناء پر پاکستان امریکیوں کو ایسا کوئی مشورہ نہیں دینا چاہتا کہ وہ وہاں قیام کریں یا انخلاء کرجائیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا اس میں کوئی فائدہ نہیں وہ امریکا سے یہ کہیں کہ اس نے افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کرلیے ہیں، یا نہیں۔

واشنگٹن میں سرکاری اور سفارتی حلقوں نے اس معاملے پر پاکستان کے خارجہ آفس اور وزارتِ دفاع کے نکتہ نظر میں واضح اختلاف کا نوٹس لیا ہے۔

اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ پاکستانی فوج یہ محسوس کرتی ہے کہ اس کے آپریشن کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ امریکی افواج سرحد کے دوسری جانب موجود رہے، جبکہ سول قیادت بظاہر اس غیر مقبول مطالبے کو سیاسی تحفظ دینے سے گریزاں دکھائی دیتی ہے۔

تاہم سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اس نکتہ نظر پر اتفاق موجود ہے کہ شمالی وزیرستان کے آپریشن کے لیے امریکی حمایت جاری رہنے کی ضرورت ہے۔

پاکستانی دفاعی اہلکار کی طرح طارق فاطمی نے بھی امریکی میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے پاکستان کو زرتلافی کی ادائیگی کے لیے نیا طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا، جس کی اس آپریشن کے دوران ہونے والے اخراجات کے لیے ضرورت پڑ سکتی ہے۔

دونوں ہی نے امریکی کولیشن سپورٹ فنڈ کا حوالہ دیا، جسے پاکستان کو زرِ تلافی کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جارہا تھا، یہ فنڈ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد ختم ہوجائے گا۔ انہوں نے امریکا پر زور دیا کہ اس آپریشن کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے ایک اور فنڈ قائم کیا جائے۔

اس کے علاوہ طارق فاطمی نے کہا کہ امریکا اور پاکستان نے ان تجاویز پر پہلے ہی تبادلۂ خیال کرلیا تھا کہ طالبان سے مقابلے کے لیے پاکستان کو کون کون سے ضروری سامان اور ہتھیاروں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

امریکی ڈپٹی سیکریٹری اسٹیٹ بل برنز کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران طارق فاطمی نے اس عزم کو مزید تقویت دی کہ پاکستان افغانستان اور ہندوستان سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بل برنز نے خطے میں پاکستان کے مستحکم کردار کی تعریف کی اور وزیراعظم کے اقتصادی ترقی کے منصوبے، جس میں توانائی کے بحران اور انتہاء پسندی سے نمٹنے پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے، کے لیے امریکی حمایت کا اعادہ کیا۔

اس کے علاوہ انہوں نے وزیراعظم کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ امن کے لیے پہل کرنے کی بھی تعریف کی اور کہا کہ یہ اقدام دونوں ملکوں کے عوام کو خوشحال بنانے میں مدد دے گا۔

طارق فاطمی نے تصدیق کی کہ امریکا داسو ہائیڈرو پروجیکٹ سمیت پاکستان کے توانائی کے بڑے پروگراموں کی مدد جاری رکھے گا۔

اس ملاقات میں امریکا میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی اور افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے ڈین فیلڈمین بھی شریک تھے۔