نقطہ نظر

جارج اورویل کی جائے پیدائش کا دورہ

حکومت نے ان کی جائے پیدائش پرایک میوزیم کی تعمیر کا بھی اعلان کیا ہے، جس سے اس عظیم لکھاری کی یاد قائم رکھی جا سکے گی۔

"جب ہر طرف دھوکا دہی کا دور دورہ ہو، تب سچ بولنا بھی ایک انقلابی قدم ہے" - جارج اورویل

یہ جنوری 2014 کی موتی ہاری، بہار میں ایک سرد صبح تھی۔ میں میرے والد اور بھائی کے ساتھ سائیکل رکشہ پر سوار اپنی منزل کی طرف جا رہا تھا۔ ہر طرف دھند پھیلی ہوئی تھی۔ میں مسلسل اپنے موبائل فون میں نقشہ دیکھ رہا تھا۔ مجھے معلوم تھا، کہ ہم گیان بابو چوک سے گزر چکے ہیں، اور ہماری منزل اب کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ ہم نے ایک راہگیر سے راستہ پوچھنے کا فیصلہ کیا۔

بھیا، گوپال شاہ ہائی اسکول کہاں ہے؟

وہ راستہ دیکھ رہے ہو؟ اس پر سیدھے چلتے جاؤ، وہیں پہنچ جاؤ گے، وہ بڑی عمارت ہے۔

ہم نے رکشہ سے اتر کر پیدل چلنا شروع کیا۔ راستہ ایک کچی آبادی سے ہوتا ہوا گزرتا تھا۔ مرغیاں، بکریاں، اور سور بھی راستے میں جگہ جگہ موجود تھے۔ کچھ دیر راستے پر چلنے کے بعد ہم ایک اسکول کے سامنے پہنچ گئے۔ جب میں نے ایک لڑکے سے پوچھا، کہ جارج اورویل کی جائے پیدائش کہاں ہے، تو وہ پریشان ہوگیا، اور ہمیں کلاس میں پڑھا رہے ایک استاد کے پاس لے گیا۔ انہوں نے ہمیں اس جگہ تک پہنچنے کا راستہ بتایا۔ ہم نے چلنا شروع کیا، اور پھر ہم ایک پرانے دروازے کے سامنے تھے۔ ہاں، یہی وہ جگہ تھی، یہی وہ جگہ تھی، جہاں جارج اورویل کی پیداش ہوئی تھی۔

لیکن کہانی شروع کیسے ہوتی ہے؟

2013 میں ایک دن مجھے معلوم ہوا، کہ موتی ہاری صرف گاندھی جی سے تعلّق کی وجہ سے مشہور نہیں، بلکہ نامور مصنف ایرک آرتھر بلیئر، جو اپنے قلمی نام جارج اورویل کے نام سے جانے جاتے ہیں، کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ جارج اورویل برٹش راج کے دوران، موتی ہاری، بہار میں 25 جون 1903 کو پیدا ہوئے۔

ان کے والد رچرڈ ڈبلیو بلیئر انڈین سول سروس کے افیم ڈپارٹمنٹ میں خدمات انجام دے چکے تھے۔ موتی ہاری میں اورویل کتنا عرصہ مقیم رہے، اس بارے میں اختلاف ہے، لیکن مشہور یہی ہے، کہ اپنی پہلی سالگرہ کے قریب انکی والدہ آیدا میبل بلیئر انھیں انگلینڈ لے گئیں تھیں۔

اورویل کی موتی ہاری کے قیام کی صرف دو تصاویر موجود ہیں، ایک اپنی والدہ کے ساتھ، اور دوسری اپنی آیا کے ساتھ۔ یہاں پر انہوں نے اگرچہ بہت کم قیام کیا، پر ان کی یہاں سے وابستگی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اورویل اپنے ناولوں نائنٹین ایٹی فور (1984)، اور اینیمل فارم کے لیے مشہور ہیں، پر ان کی دوسری تصانیف بھی شاندار ہیں، اگرچہ کہ وہ ان دو ناولوں کے سامنے ماند پڑ جاتی ہیں۔

انکا ویژن بے مثال تھا، اور اختیار اور مطلق العنان حکمرانی کے بارے میں ان کی نگاہ اور فکر آج بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے، جتنے انکے دور میں تھی۔

جب مجھے معلوم ہوا، کہ جارج اورویل موتی ہاری میں پیدا ہوئے تھے، جہاں میں 3 دفعہ پہلے بھی جاچکا تھا، تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ اور اس دفعہ ہمارے انڈیا کے دورے میں موتی ہاری جانا بھی پروگرام میں شامل ہوگیا۔

کچھ قدم اور چلنے کے بعد میں اسی ایک منزلہ گھر کے سامنے کھڑا تھا، جہاں ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ پہلے جارج اورویل کی پیدائش ہوئی تھی۔

وہاں پر لیک ٹاؤن روٹری کلب موتی ہاری کے ممبران بھی موجود تھے، جو جارج اورویل کی برسی کے سلسلے میں جمع ہوئے تھے۔ میں صرف ایک رات پہلے ہی ارشد ہاشمی صاحب سے ملا تھا۔ جارج اورویل کی جائے پیدائش کو شناخت دلانے کے لیے ارشد ہاشمی صاحب کی خدمات قابل تعریف ہیں۔ میں نے ایک دفعہ ان کا ایک مضمون بھی پڑھا تھا، جس میں انہوں نے مذکورہ مقام کی حالت پر روشنی ڈالی تھی۔

گھر کے گیٹ کے ساتھ ہی ایک یادگار موجود تھی، جبکہ جارج اورویل کا مجسمہ بھی نصب تھا۔ گھر انتہائی سادہ تھا، اور اس وقت اس گھر میں آدتیہ ابھیشک اپنی والدہ کے ساتھ مقیم ہیں۔ ان کے والد گوپال شاہ ہائی اسکول میں استاد رہ چکے تھے، جس کی وجہ سے اسکول انتظامیہ نے انھیں وہ جگہ رہنے کے لیے الاٹ کر دی تھی۔ اگرچہ کہ ان کے والد 2012 میں وفات پا چکے ہیں، لیکن آدتیہ اور ان کی والدہ اب بھی اس گھر میں رہتے ہیں، اور اسے اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ میں پاکستان سے تعلق رکھتا ہوں، تو ان کے خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات دیکھنے کے لائق تھے۔ انہوں نے جلیبیوں سے ہماری تواضع کی۔ اس کے بعد وہ ایک رجسٹر لے آئے، اور ہم سے اپنے تاثرات لکھنے کے لیے درخواست کی۔ یہ انکی عادت ہے کہ وہ ہر وزیٹر سے ان کے تاثرات ضرور لکھواتے ہیں۔

جب انہیں معلوم ہوا کہ میں ایک رائیٹر ہوں، تو انہوں نے مجھے ایک دوسرے جرنل پر تفصیل سے کچھ لکھنے کو کہا۔ میں نے وہ کمرہ بھی دیکھا، جہاں جارج اورویل پیدا ہوئے۔ عجب حیران کن احساس تھا، اس جگہ پر موجود ہونا جہاں ایک دیدہ ور شخص نے جنم لیا۔ میں نے افیم کے اس گودام کے کھنڈرات بھی دیکھے، جہاں اورویل کے والد کام کرتے تھے، اس کے ساتھ ہی افیم کے پودے موجود تھے، جنہیں شاید اب کوئی چھوتا بھی نہیں ہے۔

اس کے بعد میں نے ایم ایس کالج میں برسی کی تقریب میں بھی شرکت کی۔ وہاں پر بسواجیت مکھرجی کی دستاویزی فلم "اورویل، پر کیوں؟" کا پریمیئر بھی دکھایا گیا۔

دستاویزی فلم ایک انتہائی قابل تحسین کوشش تھی، جس میں یہ دکھایا گیا تھا، کہ اورویل کی جائے پیدائش کس دگرگوں حالت میں ہے، کچھ لاپرواہی کی وجہ سے، اور کچھ شعور کی کمی کی وجہ سے۔ میں نے بسواجیت مکھرجی سے بھی ملاقات کی، اور وہ یہ جان کر بہت خوش ہوئے، کہ ایک پاکستانی نے تقریب میں شرکت کی ہے۔

ایک ہفتے بعد میں پھر وہاں گیا۔ اس جگہ میں ایسی کشش ہے، جسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ ماضی میں واپس چلے گئے ہیں۔ لیکن جس چیز نے مجھے اداس کیا، وہ اس جگہ کی حالت زار تھی، جس میں سب سے زیادہ لاپرواہی مقامی حکومت کی ہے۔

اب سنا ہے کہ صوبائی حکومت نے ان کی جائے پیدائش کی مرمّت اور دیکھ بھال جبکہ ایک میوزیم کی تعمیر کا بھی اعلان کیا ہے، جس سے بلا شبہ اس عظیم لکھاری کی یاد قائم رکھی جا سکے گی۔


ذیشان ٓاحمد ادبییات، موسیقی، فلموں، ماضی، اور مستقبل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرImZeesh@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

سید ذیشان احمد

ذیشان ٓاحمد ادبییات، موسیقی، فلموں، ماضی، اور مستقبل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرImZeesh@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔