پاکستان

عالمی ثقافتی ورثے میں پاکستان کے 6 شاہکار

پاکستان کے تاریخی اور شمالی علاقہ جات کے دل کو چھو لینے والے مقامات اس سرزمین کو منفرد بناتے ہیں۔
|

عالمی ثقافتی ورثے میں پاکستان کے 6 شاہکار


سعدیہ امین اور فیصل ظفر

پاکستان دنیا کا ایسا منفرد ملک ہے جہاں پہاڑ بھی ہیں، صحرا بھی اور سمندر بھی، کہیں برف زاروں سے ڈھکے میدان ہیں تو کہیں دور دور تک پانی کے آثار بھی نظر نہیں آتے، یہاں کے تاریخی مقامات، شمالی علاقہ جات کے دل کو چھو لینے والے مقامات اور بہت کچھ اس سرزمین کو منفرد بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت (یونیسکو) چھ مقامات کو عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کر چکا ہے۔

یہ سب مقامات پاکستان کی رنگا رنگ تہذیبی ثقافت کی عکاسی بھی کرتے ہیں اور وہاں جانا اکثر افراد کے لیے زندگی کا سب سے بہترین تجربہ بھی ثابت ہو سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے لوگوں کو وہاں کا تصویری سفر کرانے کی کوشش کی ہے تاکہ اپنے ملک کے بارے میں مایوس کن خبروں سے پریشان افراد کچھ راحت محسوس کرسکیں۔


موئن جو دڑو


پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں مہذب تہذیب کے آثار لگ بھگ پانچ ہزار سال پرانے ہیں، جن میں سے ایک وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب کا مرکز موئن دڑو ہے جو صوبۂ سندھ میں لاڑکانہ کے قریب واقع ہے۔

موئن جو دڑو کو 1922 میں برطانوی ماہر آثار قدیمہ سر جان مارشل نے دریافت کیا اور ان کی گاڑی آج بھی موئن جو دڑو کے عجائب خانے کی زینت ہے۔ موئن جو دڑو سندھی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب مردوں کا ٹیلہ ہے، یہ شہر بڑی ترتیب سے بسایا گیا تھا۔ اس شہر کی گلیاں کھلی اور سیدھی جبکہ پانی کی نکاسی کا مناسب انتظام تھا۔

ایک اندازے کے مطابق یہاں تیس سے چالیس ہزار کے درمیان افراد مقیم تھے، ماہرین کے مطابق یہ شہر 7 مرتبہ اجڑا اور دوبارہ بسایا گیا جس کی اہم ترین وجہ دریائے سندھ کا سیلاب تھا تاہم یہ کب کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا اس کے بارے میں آراء مختلف ہے کچھ اسے وسط ایشیاء سے آریہ قوم کی آمد کو قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ قدرتی آفات کو۔

پاکستان کے ان آثار کو یونیسکو نے 1980 میں عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا تھا۔


ٹیکسلا


ضلع راولپنڈی میں واقع ٹیکسلا ایک تاریخی شہر ہے، جس کی جڑیں گندھارا دور سے ملتی ہیں اور اس عہد میں یہ اہم بدھ اور ہندو مرکز سمجھا جاتا تھا جس کی کئی یادگاریں اس کی شان بڑھا رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے اس شہر پر قبضہ کیا اور یہاں پانچ دن ٹھہرا۔

باختر کے یونانی حکمرانوں دیمریس نے 190 قبل مسیح میں گندھارا کا علاقہ فتح کر کے ٹیکسلا کو اپنا پایۂ تخت بنایا، مہا راجا اشوک اعظم کے عہد میں بھی اس شہر کی رونق پورے عروج پر تھی اور بدھ تعلیم کا مرکز تھا۔

ساتویں صدی عیسوی میں مشہور چینی سیاح ہیون سانگ یہاں آیا تھا، اس نے اپنے سفر نامے میں اس شہر کی عظمت و شوکت کا ذکر کیا ہے۔ یہاں گوتھک سٹائل کا ایک عجائب گھر ہے، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے، دس ہزار سکے زیورات، ظروف اور دیگر نوادرات رکھے ہیں۔

اس شہر کے بیشتر مقامات کو 1980 میں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا۔


تخت بائی کے بدھ آثار


تخت بھائی پشاور سے تقریباً 80 کلو میٹر کے فاصلے پر بدھ تہذیب کے عروج کے کھنڈرات پر مشتمل ایک یادگار ہے، جو کہ پہلی صدی قبل مسیح کے عہد کے ہیں۔ اس مقام کو تخت قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک پہاڑی پر واقع ہے جبکہ اس کے ساتھ ایک دریا بہتا تھا جس کی وجہ سے تخت کے ساتھ بہائی لگا دیا گیا۔

یہاں موجود بدھ کمپلیکس چار اہم بدھ گروپس میں تقسیم تھا، پہلا اسٹوپا، دوسرا راہبوں کی خانقاہ، تیسرا مندر اور چوتھا تنتری راہبوں کی خانقاہ پر مشتمل تھا، اس جگہ کو یونیسکو نے تاریخی اہمیت کو دیکھتے ہوئے 1980 میں عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔

اس کے قریب ہی شہر بہلول نامی ایک چھوٹا سا قلعہ نما شہر ہے جو کہ اسی عہد سے تعق رکھتا ہے۔


شاہی قلعہ اور شالامار باغ لاہور


کہا جاتا ہے کہ زمانۂ قدیم میں بھی یہ قلعہ موجود تھا مگر صحیح معنوں میں اس کی دوبارہ تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم کے عہد میں ہوئی اور اب یہ قلعہ لاہور کی شان بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس قلعے کی توسیع اکبر کے بعد کئی بادشاہوں نے کرائی جس کی وجہ سے یہ مغلیہ فن تعمیر کا شاندار نمونہ بن گیا۔

قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں جو دیکھنے والوں کو مسحور کر کے رکھ دیتے ہیں۔ 1981 میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔

شالامار باغ مغل بادشاہ جہانگیر نے تعمیر کرایا جسے جنوبی ایشیاء کا خوبصورت ترین باغ بھی قرار دیا جاتا ہے اور یہاں فارسی و اسلامی روایات کا خوبصورت امتزاج دیکھنے میں آتا ہے جبکہ یہ سولہ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔


مکلی قبرستان، ٹھٹھہ


ٹھٹھہ کے قریب واقع ایک چھوٹا سا علاقہ مکلی اپنے تاریخی قبرستان کی بدولت دنیا بھر میں معروف ہے، چھ میل رقبے پر پھیلے ہوئے اس قبرستان کے ساتھ ایک صدیوں پرانی تہذیب منسلک ہے۔اس میں چودھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک کے مقبرے اور قبریں موجود ہیں۔

ان مقابر میں مغل سردار طغرل بیگ، جانی بیگ، جان بابا، باقی بیگ ترخان، سلطان ابراہیم اور ترخان اوّل جیسے علماء، سردار اور دیگر لوگ صدیوں سے محو خواب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مسلم دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے جہاں مغل، ترخان اور سمہ دور کی قبریں موجود ہیں۔

ان مقابر پر انتہائی نفیس انداز میں قرآنی آیات اور خوبصورت نقش و نگار کندہ ہیں، وہ قبریں جو کسی سردار یا کسی بزرگ کی ہیں ان پر خوبصورت مقبرے تعمیر ہیں۔

مقابرکی تعمیر میں سندھی ٹائلوں اور سرخ اینٹوں کا استعمال ہواہے، مزارات میں سرخ اینٹوں سے گنبد بھی بنائے گئے ہیں۔ قبروں کے تعویز اور ستونوں پر اتنا خوبصورت کام کیا گیا ہے کہ دیکھنے والا کاریگروں کی صناعی کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

یونیسکو نے 1981 میں اس مقام کو عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔


قلعہ روہتاس


پوٹھو ہار کے پتھریلے سطح مرتفع پر یہ حیرت انگیز قلعہ شیرشاہ سوری نے تعمیر کرایا تھا جو پنجاب کے ضلع جہلم سے سولہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، یہ مسلم فوجی فن تعمیر کا حیرت انگیز شاہکار ہے۔

اس کی تعمیر میں ترک اور ہندوستانی فن تعمیر کا امتزاج نظر آتا ہے اور یہ ایک چھوٹی پہاڑی پر فوجی نقطۂ نظر کے تحت تعمیر کیا تھا تاکہ ہر وقت بغاوت کے لیے تیار رہنے والے گکھڑ برادری کو کنٹرول میں رکھا جاسکے۔

دراصل گکھڑ مغلوں کو کمک اور بروقت امداد دیتے تھے، جو شیر شاہ سوری کو کسی طور گوارا نہیں تھا، جب یہ قلعہ کسی حد تک مکمل ہوگیا تو شیر شاہ سوری نے کہا کہ آج میں نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ اس قلعے کے عین سامنے شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی جرنیلی سڑک گزرتی تھی ، جو اب یہاں سے پانچ کلو میٹر دور جا چکی ہے۔

یونیسکو نے 1997 میں اس مقام کو عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔