نقطہ نظر

انڈیا اور پاکستان کی ایک جیسی 7 چیزیں

1947 کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان ایک سرحد تو موجود ہے، لیکن کئی چیزیں اس سرحد کے اس پار بھی ویسی ہی ہیں جیسی یہاں۔

1۔ پیں پیں، پاں پاں، اوئے تم!!!

پاکستان کا ڈرائیونگ لائسنس انڈیا میں نہیں چل سکتا، لیکن یقین مانیے، پاکستان کی بے ہنگم ٹریفک میں سرکس کی طرح گاڑی چلانے سے آپ کے پاس جو ڈرائیونگ کا ہنر آتا ہے، وہ انڈیا میں گاڑی چلانے کے لیے بہت ضروری ہے۔

آپ اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے کسی بھی طرح ڈرائیو کر سکتے ہیں، اور راستے میں دوسرے ڈرائیوروں کو گالیوں سے بھی نواز سکتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ "گھر والا" احساس تب ہوتا ہے، جب آپ روڈ پر کسی شخص سے جھگڑا مول لیں۔ پھر جو کچھ ایسے موقعوں پر پاکستان میں کیا جاتا ہے وہی کریں، اور کوئی نہیں جان پائے گا کہ آپ غیر ملکی ہیں۔




2۔ میٹھی گرمیاں

پاکستان اور انڈیا، دونوں ہی نے 1947 میں ایک ساتھ غیر ملکی حکمرانی سے نجات حاصل کی، اور قائد اعظم نے پہلا گورنر جنرل انڈیا کے ساتھ شیئر کرنے سے انکار کردیا۔ لیکن ہم دونوں ممالک اب بھی ایک ہی بادشاہ کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔

پھلوں کے بادشاہ، عالم پناہ آم کے سامنے۔

انڈیا میں کسی پھلوں کے اسٹال پر کچھ نئے پھلوں کو موجود اور کچھ پھلوں کو نہ پا کر آپ کو حیرت ہوسکتی ہے، لیکن وہاں کھڑے رہنے سے آپ کو بالکل پاکستان جیسا ہی احساس ہوتا ہے۔ اور ہاں، وہاں پر آپ کو آموں کی ورائیٹی پر وہی بحث ملے گی، جو پاکستان میں اکثر ہوتی ہے، کہ کون سی ورائیٹی سب سے بہتر ہے۔

اگر آپ سے کوئی آموں کی ورائیٹی پر بحث کرے، اور کہے کہ صرف الفونسو ہی سب سے بہتر ورائیٹی ہے، تو آپ آسانی سے بتا سکتے ہیں کہ وہ ممبئی سے تعلق نہیں رکھتا۔

بالکل اسی طرح، جس طرح اگر کوئی شخص چونسے کے سامنے سندھڑی کی شان میں اضافہ کرے، تو آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کے دوست کا تعلق سندھ سے ہے۔

اور ایک بات اور، آپ جب بھی کسی مٹھائی کی دکان پر جائیں گے، تو آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی، کہ وہاں بھی لڈو اتنے ہی گول، گلاب جامن اتنے ہی رسیلے، اور جلیبیاں اتنی ہی پیچیدہ ہوتی ہیں جتنی کہ پاکستان میں۔




3۔ صحیح چابی غلط چابی

اگر آپ ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں، تو تو ٹھیک ہے، لیکن اگر آپ اپنے کسی انڈین دوست یا رشتے دار کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں، تو پھر تو آپ کو ضرور گھر جیسا ہی لگے گا کیونکہ دونوں ملکوں میں کنڈیاں، تالے، نلکے، اور سوئچ ہر جگہ ہمیشہ مسئلے ہی پیدا کرتے ہیں۔

کوئی پلگ ساکٹ میں ٹھیک سے فکس نہیں ہوتا، بلکہ اتنا ڈھیلا ہوتا ہے کہ کبھی بھی یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کوئی بیٹری چارج پر لگا کر سوجائیں، اور آپ کے اٹھنے تک وہ چارج ہوچکی ہو۔ کسی نلکے میں پانی اس طرح نہیں آتا، جس طرح ایک غیر ملکی توقع کرتا ہے۔

ارے یہ میں ہوں، کیا تم نے مجھے غلط چابی دے دی تھی؟ یہ نہیں لگ رہی۔

ارے نہیں میں بتانا بھول گیا تھا۔ دروازے کو تھوڑا سا دھکا دو، چابی کو ذرا دبا کر گھماؤ۔ یہ ایسے نہیں کھلتا۔

لیکن یورپی ممالک میں یہ ساری چیزیں اتنی پرفیکٹ ہوتی ہیں، کہ آپ اپنے میزبانوں سے کبھی بھی اس طرح کی بات چیت نہیں کرسکتے۔ لیکن انڈیا پاکستان میں؟

یہاں تو اس طرح کی ساری چیزوں کا ایک ذاتی ہدایت نامہ ہوتا ہے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہتا ہے۔ ان ہدایات پر عمل کر کے آپ آسانی سے پلگ، نلکوں، اور کنڈی تالوں کو شکست دے سکتے ہیں۔


4۔ چینی اور دودھ کا ملاپ، چائے

اگر آپ مختلف ملکوں میں چائے آرڈر کریں، تو آپ کو چائے کے نام پر مختلف چیزیں تھما دی جاتی ہیں۔ وسطی ایشیا میں آپ کو قہوہ ملے گا، برطانیہ میں کالی چائے کے ساتھ دودھ اور چینی الگ سے، اور دوسرے ممالک میں دوسرے طرح۔

لیکن آپ کو انڈیا میں چائے کے نام پر وہی چائے ملے گی، جو سرحد کے اِس پار ملتی ہے، اتنی ہی میٹھی، اتنے ہی دودھ کے ساتھ، اور اتنی ہی گرم۔ ہاں اس کے نام مختلف ہوسکتے ہیں، جیسے کہ حیدرآباد میں اسے گولڈن کہا جاتا ہے۔ چائے پینے کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے، کہ خون میں چینی اور دودھ کے بہاؤ میں اضافہ کیا جائے۔ چائے کی پتی تو صرف رنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

اور ہاں، چائے ہمیشہ صرف ایک ہاتھ کے فاصلے پر ہی ہوتی ہے، کیونکہ بے تحاشہ ٹھیلے، اسٹال، اور ہوٹل ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو چائے کی طلب ہورہی ہے، لیکن آپ کو کہیں چائے دکھائی نہیں دے رہی، تو ڈھونڈنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے وہیں انتظار کریں، تھوڑی ہی دیر میں کوئی نا کوئی چائے والا تھرموس اور پیپر کپ لیے آپ کے سامنے موجود ہوگا۔




5۔ رام اور رحیم

اس کے لیے آپ کو سطح سے تھوڑا نیچے جھانکنا پڑے گا، تب ہی آپ جان پائیں گے کہ عقائد کے حوالے سے دونوں ممالک کا کلچر بھی ایک ہی جیسا ہے۔

کوئی بھی درخت، جو کافی پرانا ہوچکا ہے، اس کے نیچے آپ کو کوئی نا کوئی بابا بیٹھا ملے گا۔ بس یہ ہوتا ہے کہ وہ سبز پرچموں کے بجائے مورتیاں سجا کر اپنی موجودگی کی اطلاع دیتے ہیں، لیکن چندے کا ڈبہ بالکل ویسے ہی ہوتا ہے جیسے پاکستان میں۔

ہر لاری، ہر رکشے اور موٹرسائیکل کے ساتھ مقدس نام یا نشانات ویسے ہی لٹکتے ہوئے پائے جاتے ہیں، جیسے ہمارے پاس سفر کی دعا لٹکائی جاتی ہے۔ دولتمند مڈل کلاس میں سے پارسا قسم کے لوگ اپنے گھروں کے کچھ حصے کو عبادت کے لیے مختص کر دیتے ہیں، جہاں درس، ورد، یا نعرے بازی فل آواز میں کی جاسکتی ہے، اور کسی کی ہمت نہیں ہوگی، کہ اس شور شرابے پر اعتراض اٹھا سکے۔

ایک دوست نے مجھے ایک مندر کا مینار دکھایا، اور فخر سے بتایا کہ یہ ان کے علاقے کا سب سے بلند مینار ہے۔ ظاہر ہے، مجھے حیرت نہیں ہوئی کیونکہ میرا تعلق ایسے ملک سے ہے جہاں مساجد کے مینار ساتویں آسمان تک پہنچنے کے لیے آپس میں مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔

دونوں ہی ممالک میں سائز کی بہت اہمیت ہے۔





6۔ آئیں بھائی یہاں آئیں، سب سے سستا۔۔۔

انڈیا کی کسی گلی یا بازار میں چل کر تو دیکھیں، ہر آواز، ہر چیز کے ساتھ آپ کو پاکستان کا سا احساس ہوتا ہے۔

فٹ پاتھ کے بیچوں بیچ موجود کھلے مین ہول کے اوپر سے چھلانگ مار کر گزرنا۔

آوارہ کتوں اور کچرے کے ڈھیروں سے بچ کر چلنا۔

بھکاریوں سے جان چھڑانے کے لیے وہی پاکستانی طریقے استعمال کرنا۔

اور ٹھیلوں پتھاروں سے لدی ہوئی سڑکوں پر چلنے کے لیے جگہ ڈھونڈنا۔

حد سے زیادہ ایکٹیو ٹھیلے اور دکان والے آپ کو دیکھتے رہتے ہیں، اور پھر اچانک آپ کو آواز دے کر بلاتے ہیں۔

آجائیں بھائی آجائیں، یہاں دیکھیں، یہ چیز آپ کو کہیں نہیں ملے، بھابھی کے لیے لے جائیں، بچوں کے لیے لے جائیں۔ بازار میں اس سب سے نمٹنے کے علاوہ آپ گول گپوں، پکوڑوں، بھٹوں، اور سموسوں سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

اگر رات کو دیر ہوگئی ہے، یا اگلے دن چھٹی ہے، تو آپ اسٹریٹ کرکٹ کا بھی مزہ لے سکتے ہیں، جس میں کچھ بھاری چیزوں سے اسٹرائیکر کی طرف کی وکٹ کا کام لیا جاتا ہے، اور چپلوں کے ڈھیر سے نان۔اسٹرائیکر کی طرف کی وکٹ کا۔





7۔ کسی پاکستانی کے لیے سب سے زیادہ خوشی کب؟

میں نے پہلے ہی لکھا، کہ کس طرح پاکستان اور انڈیا میں کنڈیوں اور تالوں کے ساتھ ایک زبانی ہدایت نامہ ضروری ہوتا ہے۔

اب جب کہ آپ اس ہدایت نامے پر عمل کر کے ٹوائلٹ میں دوسروں کی نظروں سے محفوظ ہوچکے ہیں، تو آپ کی حیرانگی اور خوشی میں اضافہ کرنے کے لیے ایک اور چیز موجود ہے، جس سے آپ کو پاکستان جیسا ہی محسوس ہوگا۔

جی ہاں، لوٹا۔

جو لوگ ترقی یافتہ ممالک کا سفر کر چکے ہیں، صرف وہ ہی اس لگژری، اس نعمت کی صحیح قیمت جانتے ہیں۔ ایک پاکستانی کو انڈیا میں پاکستان کا احساس دلانے کے لیے لوٹے سے بہتر کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری حال ہی میں ڈان کے لیے 2014 لوک سبھا انتخابات کور کرنے کے لیے انڈیا کا سفر کر چکے ہیں۔

طاہر مہدی

لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر TahirMehdiZ@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔