نقطہ نظر

سول ملٹری عدم توازن

کمانڈر انچیف کو اپنی دلیری ثابت کرنا ہوگی، یہ وقت قوم کی قیادت کا ہے نا کہ خاکی سائے کے اندر منہ بسور کر بیٹھ جانے کا۔

سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ مضبوطی سے ڈرائیونگ سیٹ پر نظر آرہی ہے، جو کہ قوم کو درپیش کئی انڈرونی سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے احترام کا مطالبہ کررہی ہے، سیاسی بحران میں گھری سویلین حکومت نے قومی سلامتی کی ذمہ داری اپنی کمزور قیادت کی وجہ سے فوج کے سپرد کردی ہی، جبکہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے اسلام آباد میں طویل دھرنوں اور دیگر شہروں میں بڑے عوامی جلسوں نے حکومتی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔

آخر لرزتی پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت کا مسلم لیگ ن کی عددی اعتبار سے مضبوط حکومت کو اقتدار منتقل کرنے کے خوش کن عمل کے دوران کیا غلط ہوا؟ اس کا جواب سول ملٹی تعلقات کی فطرت میں چھپا ہے اور اس کے اثرات داخلی سیکیورٹی چیلنجز سمیت قومی سلامتی پالیسی پر مرتب ہورہے ہیں، اسی کی دہائی کے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو جوہری ڈاکٹرائن، خارجہ پالیسی خاص طور پر امریکہ، ہندوستان اور افغانستان سے متعلقہ امور اور خطے کے پالیسی مقاصد کے لیے عسکریت پسندوں کے استعمال کے حوالے سے بالادستی حاصل تھی۔

نواز شریف کو نوے کی دہائی میں اسٹیبلیشمنٹ کی ایما پر دو بار حکومت سے اس وقت برطرف کیا گیا جب انہوں نے ممنوعہ راستہ پر چلنے کی کوشش کی، جو بنیادی غلطی انہوں نے کی وہ بہتر طرز حکمرانی کو فروغ دینے میں ان کی ناکامی تھی، اقرباءپروری، دوستوں کو نوازنا، میرٹ، پروفیشنل ازم اور دیانتداری پر توجہ نہ دینا وغیرہ۔

مزید یہ کہ انہوں نے فوجی بالادستی والی قومی سلامتی کی روایات میں مضبوطی سے مداخلت کی، انہیں مستقبل میں جمہوری وژن اور کفایتی طور پر بہتر طرز عمل کے لیے فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوجی قیادت کو امن کے لیے قومی بات چیت کا حصہ بنانا چاہئے تھا مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ماضی کی طرح وہ اس بار میں خود کو مشکل میں محسوس کررہے ہیں اور انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔

اپنے اقتدار کی تیسری مدت کے دوسرے سال میں ہی داخل ہوئے ہیں اور ان کی حکومت ایک ایسے بے پتوار جہاز کی طرح نظر آنے لگی ہے جو برہم عوام کی طوفانی لہروں کی جانب بڑھ رہا ہے، ان کی غلطیوں کا اسکور بورڈ خستہ حال داستان سنا رہا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ کابینہ کے وزراءکے لیے ان کا انتخاب ناقص اور نامکمل تھا، انہوں نے خود کو دفاع اور خارجہ امور کے پورٹ فولیوز دیئے تاکہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے متعلقہ امور کو براہ راست ڈیل کرسکیں، احتیاط سے ان شعبوں کے لیے مکمل وزراءکا انتخاب انہیں فیصلہ سازی کے عمل کے لیے انہیں کچھ ریلیف فراہم کرتا۔

دوسری بات یہ کہ وہ ایک پروفیشنل قومی سلامتی کے مشیر کی تعیناتی میں ناکام رہے ہیں اور انہیں نے یہ تاسک اپنے سیاسی وفادار کو دے دیا ہے جس کی توجہ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی امور کے درمیان بٹی ہوئی، سپریم کورٹ میں پیشی سے بچنے کے لیے انہوں نے وزارت دفاع کا اضافی چارج بھی اپنے ایک اور وفادار ساتھی کے حوالے کردیا جو پہلے ہی قوم کو درپیش بدترین توانائی کے بحران سے نمٹنے کی کوشش کررہا تھا۔

تیسری بات یہ کہ قومی سلامتی کمیٹی جو کہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ہے، کو موثر ادارہ جاتی میکنزم کے طور پر جامع قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل کے لیے استعمال نہیں کیا جارہاہ، اگرچہ پالیسیوں کی تشکیل کے لیے اس کے اجلاس معمول کے مطابق ہورہے ہیں مگر وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان اکثر ہونے والی ون آن ون ملاقاتوں سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں سب اچھا نہیں۔

حال میں تشکیل دیا جانے والا قومی سیکیورٹی ڈویژن تاحال کارآمد ثابت نہیں ہوا، قومی سلامتی کے معاملات پر کوئی مشاورتی کونسل موجود نہیں جو قومی ماہرین کے خیالات کا تجزیہ کرسکے، اس کے نتیجے میں حاضر سروس سیکیورٹی اور انٹیلی جنس حکام اہم سیکیورٹی شعبے میں بالادسی قائم کیے ہوئے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے معاملات پر پارلیمانی نظرثانی کو بھی مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں شفافیت کی کمی کے باعث میڈیا میں متعدد سازشی خیالات ابھر رہے ہیں۔

چوتھی بات یہ ہے کہ ملک کی ملکی قومی داخلی سلامتی پالیسی کو متعارف کو خوب دھوم دھام سے کرایا گیا مگر اس پر جزوی عملدرآمد تک نہیں ہوا، نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی 2009 سے اب تک غیرفعال ہے کیونکہ حکومت ابھی تک اس کے سربراہ کے لیے کسی سنیئر پولیس افسر کا انتخاب نہیں کرسکی ہے، جبکہ وزارت داخلہ نیکٹا پر کنٹرول چاہتی ہے، حالانکہ قانونی طور پر یہ وزیراعظم کے زیرتحت کام کرنے کا مجاز ہے۔

سویلین حکومت کی ان ناکامیوں نے فوج کو ناصرف اس خلاءکو بھرنے کے لیے ملک بھر میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشنز کا موقع دیا بلکہ اس نے کھاریاں میں اپنا سی ٹی سینٹر قائم کردیا تاکہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے مقابلے کے لیے ادارہ جاتی ردعمل پیش کیا جاسکے۔

پانچویں چیز یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور اس کے ادارے گمشدہ افراد کے مسئلے اور دیگر بلوچ مصائب پر قابو پانے کے لیے بلوستان کے وزیراعلیٰ کی معاونت کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں، قتل اور دباﺅ کی پالیسی کو نجی ملیشیاءاور ان کے سیکیورٹی اداروں سے مبینہ اتحاد پر نہیں چھوڑا جاسکتا، درحقیقت عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ایک دوسرے کو مارنے کا نیا سلسلہ مغوی بلوچ کارکنوں کی لاشیں پنجگور اور تربت میں ملنے کے بعد شروع ہوچکا ہے۔

چھٹی بات یہ کہ کراچی آپریشن کا آغاز تو وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے کافی پرجوش انداز سے کیا اور پھر عملی طور پر اسے صوبائی حکومت کے حوالے کردیا، وزیراعظم اپنی پسند سے صوبائی انسپکٹر جنرل پولیس بھی تعینات نہیں کرسکتے، جبکہ صوبائی حکومت کے سردمہرانہ ردعمل کی وجہ سے رینجرز واضح طور پر وفاقی حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کرنے والی سومل آرمڈ فورس کی حیثیت سے کارکردگی دکھانے سے معذور ہوچکی ہے، پولیس کو بھی ہلاکتوں کے اعتبار سے آلات اور ٹیکنالوجی کی کمی کے باعث بھاری قیمت چکانا پڑی ہے جو وفاقی حکومت کو اسے فراہم کرنا چاہئے تھی۔

قانون کے نفاذ کی سوچ نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر کو فوجی مدد سے ختم کرنا منظم جرائم سے نمٹنے کے لیے ناقص حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے، المیہ یہ ہے کہ اس کے باوجد بھی ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ وارانہ دہشت گردی میں نمایاں کمی کا ہدف حاصل نہیں ہوسکا ہے۔

قومی سلامتی کے امور سے سویلین اتھارٹی سے دستبرداری جمہوریت کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے، پارلیمنٹ میں خالی الفاظ بولنے کی بجائے یہ وقت ہے کہ قیادت اداروں کی مضبوطی اور بہتر طرز حکمرانی کو فروغ دے، اداروں کے کمانڈر انچیف کو اپنی دلیری ثابت کرنا ہوگی، یہ وقت قوم کی قیادت کا ہے نا کہ خاکی سائے کے اندر منہ بسور کر بیٹھ جانے کا۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری ریٹائر پولیس افسر ہیں۔

طارق کھوسہ

لکھاری سابق پولیس افسر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔