نقطہ نظر

غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی

پاکستان مارکیٹ حجم کی تو پیشکش کرتی ہے مگر اس سے ہٹ کر عالمی سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ مواقع نہیں۔

غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری(ایف ڈی آئی) کا پاکستان میں حجم گزشتہ چند برسوں کے دوران کم ہوا ہے، 2007-08 میں پاکستانی تاریخ کی بلند ترین شرح 5.7 ارب ڈالرز کی سطح چھونے کے بعد مالی سال 2012 میں یہ کچھ بہتری سے پہلے گر کر 824 ملین ڈالرز تک پہنچ گئی تھی، تاہم رواں مالی سال کے اولین دوماہ کے دوران پھر مایوس کن اعدادوشمار سامنے آئے، اور 2013 کے اسی عرصے کے 138 ملین ڈالرز کے مقابلے میں یہ سرمایہ کاری 87 ملین ڈالرز رہی۔

سرمایہ کاری میں کمی کا یہ منظرنامہ اس وقت سامنے اایا ہے جب ترقی یافتہ معیشتوں میں ایف ڈی آئی کے عالمی سے عالمی ریکوری دیکھنے میں آئی ہے، یو این سی ٹی اے ڈی کے مطابق 2013 میں بیرونی سرمایہ کاری کا حجم عالمی سطح پر 1.45 ٹریلین رہا جن میں ترقی پذیر ممالک کا حصہ 54 فیصد یا وہاں مجموعی ان فلو 778 ارب ڈالرز رہا، تاہم اس دوران پاکستان صرف 0.17 سرمایہ کاری کو ہی اپنی جانب کھینچ سکا، جو کہ جی ڈی پی میں اس حوالے سے مختص ہدف سے نہ ہونے کے برابر ہے۔

ایف ڈی آئی کی ملک آمد میں کمی کے ساتھ مسئلہ اس وقت مزید سنگین ہوجاتا ہے جب ملک سے باہر جانے والی سرمایہ کاری کا حجم بڑھتا ہوا نظر آتا ہے، درحقیقت مجموعی سرمایہ کاری میں حالیہ برسوں کے دوران نمایاں کمی کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں سے بڑی مقدار میں سرمایہ باہر گیا ہے۔

درست طرز کی براہ راست غٰرملکی سرمایہ کاری کو اپنی جانب کھینچنے کے لیے میزبان ملک کو متعدد مراعات دینا پڑتی ہیں، عام طور پر ایف ڈی آئی مندرجہ ذیل 'اصولوں' پر مشتمل ہوتی ہے: ٹیکنالوجی ٹرانسفر، پیداواری منافع، غیرملکی مارکیٹ تک رسائی، زیادہ اجرت اور مزدورں کی بہتر صورتحال، یہاں تک کہ ان میں سے کوئی بھی فائدہ مکمل طور پر حاصل نہ ہو تو بھی میزبان ملک کو سرمایہ کاری سے کم از کم یہ فائدہ تو حاصؒ ہوجاتا ہے کہ وہ غیرملکی سرمایہ کاروں کے رڈار میں آجاتا ہے۔

اس تناظر میں پاکستان میں عالمی ایف ڈی آئی فلو کا ورچوئل اخراج مشکل کا باعث تو ہے مگر حیرت انگیز نہیں، 2007 سے اب تک داخلی سطح پر خراب سیکیورٹی صورتحال اور ملک میں سیاسی غیریقینی کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی بحران دنیا بھر میں سرمایہ کاری کے فلو پر اثر انداز ہوا ہے۔

جب عالمی سطح پر ایف ڈی آئی کا فلو دوبارہ معمول پر آیا تو پاکستان کو بطور سرمایہ کاری کے لیے پرکشش بنانے کی کوشش پہلے ہی ناکام ہوچکی تھی جس کی وجہ سے پی پی پی حکومت کی جانب سے 2008 سے 2013 کے درمیان ملکی معیشت کو سنبھالنے کی ناکافی کوششیں تھیں، توانائی کے بدترین بحران کے ساتھ میگاکرپشنز کی میڈیا رپورٹس دونوں نے عالمی سطح پر ملکی تاثر کو خراب کیا۔

یہ بات تو یقینی ہے کہ صرف یہی وجوہات نہیں جنھوں نے پاکستان میں اپنا سرمایہ لانے کے خواہش مند سرمایہ کاروں کے لیے رکاوٹ بنا، غیرملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے ایک مخصوص ملک میں سرمایہ کاری کے عزم سے متعلق مختلف تحقیقی رپورٹس میں اس حقیقیت کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ایف ڈی آئی کے لیے کسی مقام کا انتخاب دو اہم وجوہات کی بناءپر ہوتا ہے، مارکیٹ کا حجم یا اس کی پیداوار جبکہ دوسری وجہ نسبتاً سستی افرادی قوت ہے، کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری اور عام کاروباری ماحول میں ان دونوں بنیادی عناصر کے تجبئے اور معیشت کے ساتھ ساتھ وہاں سرمایہ کاری کے سیاسی خطرات کو بھی دیکھا جاتا ہے۔

پاکستان مارکیٹ حجم کی تو پیشکش کرتا ہے مگر اس سے ہٹ کر عالمی سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ مواقع نہیں، پالیسی اور سیاسی عدم استحکام بہت زیادہ ہے، معاشی اصلاحات کے عزم کی سنجیدہ کمی ہے جس کا مطلب ہے کہ مائیکرو اکنامک بحران زیادہ دور نہیں، افرادی قرت کی اکثریت نیم خواندہ اور غیرتربیت یافتہ ہے، ٹیکنالوجی میں جدت نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ ٹیکس کا نظام پیچیدہ اور انتشار کا شکار ہے۔

خراب صورتحال کو بدترین بنادینے میں ہم پیچھے نہیں کیونکہ ملک میں اکثر اعلٰ سطح پر بڑے اور چھوٹے غیرملکی سرمایہ کاروں سے تنازعات ہوتے رہے ہیں، نوے کی دہائی میں جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو انہوں نے 1994 کی پاور پالیسی کے تحت سامنے آنے والے آئی پی پیز کے معاہدوں کو چھیڑا، اس حقیقت پر زیادہ غور نہیں کیا گیا کہ آئی پی پیز نہ صرف اس شعیبے کی بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کی نمائندگی کرتی ہیں بلکہ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کے عمل میں عالمی مالیاتی، انشوری، آپریشنز، مینٹینس اور سول ورکس کمپنیاں بھی شامل ہیں، بیشتر سرمایہ کاری غیرتحریری تھی یا ان کے لیے عالمی بین اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن سمیت دیگر ممتاز عالمی ساکھ والے اداروں نے سرمایہ فراہم کیا تھا، اس طرح یہ ادارے اور خودمختار ممالک ہماری سیاسی جنگ کی پارٹی بن گئے۔

حال ہی میں پاکستان دنیا کی ایک سب سے بڑی کان کن کمپنی کے ساتھ بلوچستان کے ریکوڈک ذخائر پر تنازعے کا حصہ بن گیا، پاکستان تیکنیکی طور پر اس وقت ڈیفالٹ ہوگیا ھا جب آئی پی پیز نے ساورن گارنٹٰز کا مطالبہ کیا تھا، پاور سیکٹر میں اس کا مطلب یہ تھا کہ گردشی قرضوں کا مسئلہ سرمایہ کاروں کے ذہن میں بس چکا ہے۔

حکومت اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو دونوں ایف ڈی آئی کو دور رکھنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، حکومت نے ایف بی آر کو اجازت دے دی ہے کہ وہ 'لوٹ مار کی طرح' اکھٹا کرے، اس عمل میں بڑی کمپنیوں سے بہت زیادہ ٹیکس ادا کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے، عام طور پر ملٹی نیشنل، آئل و گیس، مالیاتی یا ٹیلی کمیونیکشن سیکٹر کو ٹیکسوں کے طے کردہ اہداف کا چوتھائی حصہ پورا کرنا پڑتا ہے۔

کارپوریٹ سیکٹر پر ٹیکسوں کی بڑھتی اور غیرمنصفانہ شرح غیراہم مسئلہ نہیں، عالمی بینک کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان کسی بھی بڑی کمپنی سے ٹیکسوں کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے والا 21 واں بڑا ملک ہے، سرمایہ کاروں کی سروے رپورٹس میں 'ٹیکس انتظامیہ' کو ملک میں کاروبار کے لیے بڑے مسائل میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

مجموعی طور پر سرمایہ کاری کی صورتحال گزشتہ چند برسوں کے دوران نہ صرف غیرملکی سرمایہ کاروں بلکہ مقامی افراد کے لیے بھی بتدریج بدترین ہوگئی ہے،اگرچہ مغربی سرحد پر دہشتگردوں کی جنت میں حالیہ فوجی آپریشن سے صورتحال اور ملکی تاثر میں بہتری کا امکان ہے تاہم ابھی بھی کافی کچھ کیا جانا باقی ہے۔

علاوہ ازیں توانائی کی صورتحال میں بہتری لانا ہوگی، جبکہ حکومت کو کراچی میں امن و امان کو معمول پر لانا چاہئے اور آخر میں یہ ایف بی آر کی جانب سے بڑی کمپنیوں کو ہراساں کیے جانے کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے، جبکہ حکومت کی جانب سے طاقتور حلقوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہئے، اس جامع سوچ کے ساتھ ہی ملک میں سرمایہ کاری کی قسمت کو بدلا جاسکتا ہے۔

انگریزی میں پڑھیں


لکھاری سابق حکومتی مشیر ہیں اور اس وقت مائیکرواکنامک کنسلٹنسی کے سربراہ ہیں۔

ثاقب شیرانی

لکھاری سابق حکومتی مشیر ہیں اور اس وقت مائیکرواکنامک کنسلٹنسی کے سربراہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔