نقطہ نظر

مریخ پر کیسے پہنچا جائے؟

اگر ہندوستان مریخ پر پہنچ سکتا ہے، تو پاکستان بھی پہنچ سکتا ہے، لیکن اس کے لیے پاکستان کو کئی مشکل کام کرنے ہوں گے۔

دس مہینے کے لمبے خلائی سفر کے بعد جب ہندوستانی روبوٹ منگل یان مریخ کے مدار میں داخل ہوا، تو ہندوستان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس منصوبے پر ایک ایف سولہ جہاز سے کچھ زیادہ لاگت آئی، لیکن رفال جہاز سے پھر بھی کم ہی تھی۔ ہندوستان کی منگل یان کے حوالے سے بہترین پلاننگ، اور اس پر عملدرآمد نے اسے خلائی دوڑ میں نمایاں مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ 1998 میں ہندوستان نے اپنے ایٹمی تجربے کو خوامخواہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا، کیونکہ اس کے پیچھے کی فزکس 1940 کی ہی فزکس تھی، لیکن مریخ پر ہندوستان کا یہ مشن ایک حقیقی کامیابی ہے۔

پاکستانی پوچھیں گے، کہ کیا ہم بھی یہ کرسکتے ہیں؟ ایسا کرنے کے لیے کیا درکار ہوگا۔ اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے، تو پاکستان کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ اہم چیزوں پر دھیان دے۔ مثال کے طور پر، یہ دیکھا جائے کہ ہندوستان نے یہ کامیابی کیسے حاصل کی؟ سب سے پہلے، خلائی سفر مکمل طور پر ایک سائنسی چیز ہے، اور ہندوستان میں بچوں اور نوجوانوں میں سائنس کے لیے انتہائی جوش و جذبہ پایا جاتا ہے۔ سروے یہ واضح کرتے ہیں کہ 12 سے 16 سال تک کی عمر کے بچے البرٹ آئن اسٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں، بلیک ہولز اور اروِن شروڈنگر کی بِلی سے متاثر نظر آتے ہیں، اور سائنس میں کریئر کی خواہش رکھتے ہیں۔ بچوں کو سائنسدان بننا وکیل، ڈاکٹر، آرمی افسر، یا فنانشل منیجر بننے سے زیادہ اچھا پسند ہوتا ہے۔ بھلے ہی ان میں سے زیادہ تر روایتی پیشوں سے ہی منسلک ہوجاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود سائنس کے لیے یہی جذبہ ہے، جس کی وجہ سے ہندوستان کے بہترین طلباء سائنس کی طرف راغب ہوتے ہیں۔


پڑھیے: ڈاکٹر عبدالسلام : ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم


دس سال پہلے میں اس چیز کا ذاتی طور پر تجربہ کرچکا ہوں، جب میں ہندوستان کے 7 شہروں میں 4 ہفتوں کے لیکچر ٹور پر گیا تھا۔ میں نے ان شہروں میں تمام طرح کے اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں کا دورہ کیا۔ سائنسی موضوعات پر میرے ہر لیکچر کو سننے کے لیے سینکڑوں لوگ آتے تھے۔ ہر شہر میں ایک مشہور سائنس میوزیم ضرور تھا، اور کسی کسی میں تو یہ تعداد دو سے تین بھی تھی۔ طلبا کی سائنسی سوسائٹیاں ہر جگہ ایکٹو نظر آئیں۔

دوسرا، ہندوستانی یونیورسٹیوں نے اعلیٰ سطح کے سائنسی پراجیکٹس کے لیے مطلوبہ بنیاد بھی قائم کردی ہے۔ یونیورسٹیوں کا معیار ہلکے برے سے لے کر بہت اچھے تک ہے، جب کہ اوسطاً یہ معیار ٹھیک ہے۔ کئی درمیانے درجے کی یونیورسٹیاں بڑی تعداد میں بیکار پی ایچ ڈیز اور ریسرچ پبلیکیشنز شائع کرتی ہیں، جس کی وجہ سے ترقی نہیں ہوپاتی۔ لیکن ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ انڈیا کی بہترین یونیورسٹیوں اور اداروں، مثلاً TIFR اور IMSC میں تھیوریٹیکل سائنسز میں ہونے والی ریسرچ کا موازنہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی ریسرچ سے کیا جاسکتا ہے۔

اس میدان میں مزید کامیابی کی ایک وجہ اساتذہ کی انتہائی احتیاط سے کی گئی بھرتی، اور طلبا کے لیے داخلے کا سخت معیار ہے۔ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنولاجی میں داخلے کا امتحان دنیا کے بہترین طلبا کے بھی پسینے چھڑا سکتا ہے۔

تیسرا، ہندوستان اپنے چوٹی کے ریاضی دانوں اور سائنسدانوں کی نہ صرف قدر، بلکہ عزت و تکریم بھی کرتا ہے۔ شاید ہی میں کسی ایسے ہندوستانی سے ملا ہوں، جو شری نواس رامانوجن کی کہانی نہ جانتا ہو۔ مدراس سے تعلق رکھنے والے اس بچے نے انتہائی چھوٹی عمر میں میتھمیٹکس کی دنیا کو حیران کر کے رکھ دیا، لیکن ناگہانی طور پر صرف 32 سال ہی جی پایا۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں ایس این بوس، سی وی رامن، ایم ساہا، اور ہومی بھابھا کے ناموں سے کئی تعلیمی ادارے موجود ہیں۔

واپس خلا کی بات کرتے ہیں۔ ایک ترقی پذیر ملک دور دراز مریخ پر نظریں جمائے ہوئے ہے، وہاں تک پہنچنے کے لیے یا تو وہ عرب طریقہ اختیار کرسکتا ہے، یا تو چینی انڈین طریقے سے مدد لے سکتا ہے۔

پہلے طریقے میں ٹکٹ کی ضرورت ہے۔ تیل کی کمائی سے پرنس سلمان ابنِ سعود نے 1985 میں امریکی خلائی شٹل میں سفر کر کے خلا میں جانے والے پہلے عرب شخص کا اعزاز حاصل کیا۔ حال ہی میں عرب امارات نے بھی 18 سال کے اندر اندر مریخ پر مشن بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ جس طرح پیسے اور بیرونی ماہرین کی مدد سے دبئی، اور اس کا انتہائی بڑا ایئرپورٹ تعمیر کرایا گیا، اسی طرح شیخ بھی سرخ سیارے تک پہنچ جائیں گے۔

لیکن ہم پاکستانیوں کے پاس تو اتنا پیسہ نہیں، پھر ہم خلا اور نظامِ شمسی میں اپنا حصہ کیسے حاصل کریں؟ یا کم از کم سائنسی دنیا میں اپنی موجودگی ہی قائم کرلیں۔ یہ پورا مرحلہ کافی آہستہ ہوگا، لیکن اسے اس طرح کیا جاسکتا ہے۔


مزید پڑھیے: میٹرو بس یا مریخ؟ ہماری ترجیحات کیا ہیں


سب سے پہلے تو ہمیں اپنے نوجوانوں کے اندر سائنس کے لیے دلچسپی پیدا کرنا ہوگی۔ خلائی پروگرام ایک بہت بڑے پراجیکٹ کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ دھرنوں کی خبروں، اور جگہ جگہ موجود سیاسی ماہرین پر مشتمل ٹی وی پروگراموں کے بجائے ہمارے پاس اچھے تعلیمی پروگرام ہونے چاہییں۔ پاکستان میں انگلش کا معیار بہتر ہونا چاہیے، یہ اب اس حد تک گر چکا ہے کہ ملک میں کوئی انگلش ٹی وی چینل موجود نہیں۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سائنس کے دروازے ان لوگوں پر بند ہیں جو صرف اور صرف اردو لکھ پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔

اس کے بعد ہمیں خود کو سائنس اور کارگو سانس کے درمیان فرق سمجھانا پڑے گا۔ یہ لفظ کارگو سائنس مشہور ماہرِ فزکس رچرڈ فینمین نے 1974 میں کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے کانووکیشن کے موقعے پر کہا تھا۔

فینمین نے کہا "جنوبی سمندروں میں ایک گروہ ایسا بھی رہتا ہے، جسے کارگو کَلٹ (cargo cult) کہا جاتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران انہوں نے کئی جہازوں کو فائدہ مند چیزوں کے ساتھ لینڈ کرتے ہوئے دیکھا تھا، اور اب وہ دوبارہ اسی کے انتظار میں ہیں۔ تو انہوں نے اس پورے منظر کی نقل کرنے کے لیے اپنے علاقے میں رن وے بنائے ہیں، رن وے کی سائیڈوں پر آگ جلاتے ہیں، لکڑی کے ایک جھونپڑے میں ایک شخص کو لکڑی کی بنی ہوئی ہیڈفون جیسی چیز پہنا کر بانسوں سے انٹینا کی شبیہ بنا کر اسے ایئرٹریفک کنٹرولر بنا کر بٹھا دیتے ہیں۔ اب وہ جہازوں کے لینڈ کرنے کا انتظار کرتے ہیں تو جہاز لینڈ نہیں کرتے۔ وہ سب کچھ درست کر رہے ہیں، لیکن یہ کام نہیں کرتا۔ کوئی جہاز لینڈنگ کے لیے نہیں آتا۔ تو ایسی ہی کارگو کلٹ سائنس میں بھی موجود ہے جو سائنسی تفتیش کے تمام اصولوں پر عمل تو کرتی ہے، لیکن پھر بھی کچھ اہم چیز اب بھی موجود نہیں، جس کی وجہ سے جہاز لینڈ نہیں کرتے"۔

ہمیں پاکستان میں بچوں کو ایسی سائنس پڑھانے سے رک جانا چاہیے جو کہ صرف نام ہی کی سائنس سے، لیکن اپنے اصل مقصد یعنی ثبوت اور دلیل کو چھوڑ دیتی ہے۔ طلبا کے لیے میتھمیٹکس، کیمسٹری، اور فزکس صرف فارمولوں کی کتابوں کے طور پر دیکھی اور سمجھی جاتی ہیں، جبکہ تجرباتی سائنس اب بالکل ختم ہوچکی ہے۔

ہماری یونیورسٹیوں کو سب سے زیادہ اصلاح کی ضرورت ہے۔ بہتری دکھانے کے لیے ہمارے سرکاری اداروں جیسے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے ایسا انعامی سسٹم قائم کردیا ہے، جس کی وجہ سے کارگو پی ایچ ڈیز کی فوجیں تیار ہوگئیں ہیں۔ ان کے کانوں پر لکڑی کے ہیڈفون بھی ہیں، اور کارگو ریسرچ پیپرز کے پہاڑ بھی۔ اس معاملے سے سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے ورنہ جعلی سائنسدان انگلیوں پر گنے جاسکنے والے اصلی سائنسدانوں سے کہیں زیادہ ہوجائیں گے۔

تیسری اور آخری بات، ایک فرد کی سائنسی کامیابی کی تعریف ضرور کرنی چاہیے، جبکہ مذہبی اور نسلی و لسانی فرق کو یہاں پر جگہ نہیں دینی چاہیے۔ ہندوستان کے پاس کئی سائنسدان رہے ہیں، جبکہ پاکستان کے پاس صرف ایک عبدالسلام ہیں۔ جس طرح انہیں سائیڈلائن کیا گیا، ویسا دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔ اور یہ سب کرنے کے بعد ہی یہ ملک مستقبل میں جانے کے لیے تیار ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری لاہور اور اسلام آباد میں فزکس پڑھاتے ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 18 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

پرویز ہود بھائی

لکھاری لاہور اور اسلام آباد میں فزکس اور میتھمیٹکس پڑھاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔