نقطہ نظر

71ء کی کہانی: آخر بنگالی چاہتے کیا تھے؟

بنگالیوں کا مطالبہ تھا کہ ان کی زبان اور ثقافت کا احترام کیا جائے لیکن یہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول نہ تھا.

پاکستانی بنگلہ دیش سے آنکھیں ملانے سے کتراتے ہیں۔ 1970 کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ ایک گمراہ کن بیانیے کا سہارا لیتے ہوئے اس پورے معاملے کو بڑی صفائی سے ایک 'سازش' قرار دے دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سازش ہوئی ہو۔ لیکن کس نے کس کے خلاف سازش کی اور کب؟ بنگالی کیا چاہتے تھے؟ وہ اس انتہائی حد تک کیونکر پہنچے جس کے بعد راستے الگ ہوگئے؟

یہ مضمون اس سلسلے کا تیسرا حصّہ ہے جو اس ملک میں جمہوریت کی نشوونما کے نقطہ نظر سے 1971 میں رونما ہونے والے واقعات کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ پہلے اور دوسرے حصے کے لیے کلک کریں۔


حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی غداروں کی گنتی شروع ہوچکی تھی۔ اس کے قیام کے بعد سے ہی شاید ہی کوئی وقت ایسا گزرا ہو جب اس نے خود کو کسی نہ کسی بحران میں پھنسا نہ پایا اور چیخ چیخ کر یہی کہتا رہا کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔

جو لوگ اقتدار میں تھے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ کس قسم کی ریاست اور حکومت چاہتے ہیں، اور انتخابی جمہوریت کا مطالبہ انہوں نے صرف اس لیے کیا تھا کہ اپنے منصوبوں کو قانونی شکل دے سکیں۔

لیکن اپنے چلانے والوں کی ہرممکن سنجیدہ کوششوں کے باوجود بیچاری جمہوریت اس قابل نہ تھی کہ ان خواہشات پر پورا اتر پاتی۔ وہ جمہوریت کو آگے بڑھنے سے روکنا چاہتے تھے، لیکن جو آگے بڑھانا چاہتے تھے، وہ تعداد میں زیادہ تھے۔

یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا کہ پاکستان کے تمام غدار قرار دیے گئے لوگ، یا جن پر غدار ہونے کا شک کیا گیا، عوام کے اکثریتی ووٹوں سے منتخب ہوئے۔

میں اپنی بات کی وضاحت کے لیے ایک مثال پیش کروں گا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 7 مارچ 1949 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پیش کی تھی۔ اسمبلی اپنی بیس ماہ کی زندگی میں پانچویں بار کراچی میں جمع ہوئی تھی۔ یہ اجلاس کی کارروائی کا پہلا دن تھا۔

سہ پہر چار بجے اجلاس شروع ہوا تو وزیر اعظم نے قرارداد پیش کی اور ایک طویل تقریر کی۔ اس کے فوراً بعد حزب مخالف کے رہنما، جو مشرقی بنگال کے ہندو تھے، اٹھ کھڑے ہوئے اور بہت سے اعتراضات اٹھائے۔ انہیں ڈر تھا کہ وزیر اعظم اپنی قراداد کے ذریعہ انہیں دبانا چاہتے ہیں۔

ذیل میں سرکاری دستاویزات سے بحث کے کچھ حصے پیش ہیں۔

مسٹر سِرِس چندرا چٹوپدھیا: ہمیں قرارداد کا مطالعہ کرنے کا وقت دیا جائے تاکہ ہم مزید وضاحت کے لیے مشرقی بنگال میں اپنے دوستوں سے صلاح مشورہ کر سکیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس بار جب ہم مشرقی بنگال سے روانہ ہوئے تو ہمیں کوئی اندازہ نہ تھا کہ اس قسم کی کوئی قرارداد پیش کی جائے گی۔ کارروائی کا جو ایجنڈا ہمیں بھیجا گیا، اس میں اس کا کوئی تذکرہ نہ تھا۔

"بجٹ اجلاس تقریباً ختم ہی ہونے والا ہے، اور ایوان میں بہت کم اراکین حاضر ہیں۔ میرے صوبے مشرقی بنگال کے بہت سے اراکین اور اس کے علاوہ (بنگال کے) وزیراعظم بھی، جو ہمیں مشورہ دے سکتے تھے اور ہماری رہنمائی کر سکتے تھے، جا چکے ہیں۔

"میرا خیال ہے کہ ان لوگوں کو کوئی اندازہ نہیں تھا۔ چند اراکین تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس اجلاس میں شرکت ہی نہیں کی۔ اگر انہیں باقاعدہ نوٹس ملتا، تو وہ یقیناً اس قرارداد کے مباحث میں حصّہ لینے کے لیے اس اجلاس میں شریک ہوتے، لیکن انہیں کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا۔ اس لیے میری تجویز یہ ہے کہ اس اہم معاملے کو اگلے اجلاس تک، یا اس مقصد کے لیے ایک خصوصی اجلاس تک ملتوی کر دیا جائے اور اس دوران اس قرارداد کو عام کیا جائے تاکہ عوامی رائے معلوم کی جاسکے۔"

عزت مآب جناب لیاقت علی خان: جناب میرا خیال ہے کہ معزز اراکین کی جانب سے اس قرارداد کو عام کرنے کی حمایت میں جو دلائل دیے گئے ہیں، ان میں کافی تضادات موجود ہیں۔ ایک دلیل تو یہ دی گئی ہے کہ ایوان میں بہت کم اراکین حاضر ہیں کیوں کہ زیادہ تر جا چکے ہیں اور اس وقت یہاں موجود نہیں ہیں اور یہ کہ انہیں کافی وقت نہیں دیا گیا۔ جہاں تک میرے محترم دوست کی پارٹی کے اراکین کا تعلق ہے تو وہ سب کے سب ایوان میں موجود ہیں ماسوا ایک کے، جو بد قسمتی سے بیمار ہیں لیکن کراچی میں موجود ہیں۔ اس لیے جہاں تک اراکین کی غیر حاضری کا تعلق ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ کوئی بہت ٹھوس دلیل نہیں ہے۔"

مسٹر سِرِس چندرا چٹوپدھیا: میری کوئی پارٹی نہیں ہے۔ میرے تعلقات سب سے ہیں۔

عزت مآب لیاقت علی خان:جب میں نے پارٹی کا لفظ استعمال کیا تو میری مراد ایوان کے غیر مسلم اراکین سے تھی، کیوں کہ اگر اس قرارداد کے بارے میں کسی رائے کا اظہار کیا جا سکتا ہے، اگر اس پر کوئی اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے تو یہ صرف ایوان کے غیر مسلم اراکین کی جانب سے ہو سکتا ہے اور جیسا کہ میں نے ابھی کہا، یہ تمام اراکین یہاں موجود ہیں۔


گویا وزیر اعظم لیاقت علی خان کی رائے میں جب ہماری تاریخ کی اہم ترین آئینی دستاویز پیش کی جا رہی تھی تو اس وقت اسمبلی میں مسلم اراکین کی موجودگی ضروری نہیں تھی۔ دراصل وہ چاہتے بھی نہیں تھے کہ (مسلم اراکین) کی جانب سے کسی قسم کے دلائل پیش کیے جائیں یا نعوذباللہ کوئی اعتراض کیا جائے۔

ان سے تو یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ اپنے سر ہلا کر ویسے ہی ہاں کردیں جیسے جب نکاح خوان پہنچے تو دلہنیں اپنے زرق برق لباسوں کے اندر سے سر ہلا کر جواب دے دیتی ہیں۔ کوئی اچھا مسلمان کسی ایسی چیز (بشمول حکم) کی مخالفت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا جو اسلام کے نام پر کی جا رہی ہو۔

لیکن مشرقی بنگال میں اچھے مسلمانوں کی قِلت تھی اور اسی لیے انہوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ جاری رکھا۔ وہ ایک ایسا آئین چاہتے تھے جسے عوام کے براہِ راست ووٹ سے منتخب ہونے والی اسمبلی تشکیل دے۔

وہ چاہتے تھے کہ پاکستان ایک ایسا وفاق ہو جو اپنی تمام اکائیوں کے ساتھ مساوات اور انصاف سے پیش آئے۔ وہ زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری چاہتے تھے اور معاشی استحصال کے خلاف مؤثر تحفظ حاصل کرنے کے خواہشمند تھے۔

ان کا مطالبہ تھا کہ ان کی زبان اور ثقافت کا احترام کیا جائے، لیکن جسے ہم اسٹیبلشمنٹ کے نام سے جانتے ہیں، اس کے لیے یہ قابِل قبول نہ تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جب بھی جمہوریت کو پروان چڑھنے کا موقع دیا گیا، عوام نے جوش وخروش کے ساتھ بنگالیوں کے تمام مطالبات کی حمایت کی۔ چنانچہ ایک چوتھائی صدی تک اسٹیبلشمنٹ کی یہ کوشش رہی کہ جمہوریت کو ایک ایسا لبادہ دیا جائے جو اس کی خواہشات کی تکمیل کر سکے۔

لیکن کوئی تدبیرکارگر نہ ہوئی۔ 1969 تک سول-ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس مایوس کن نتیجے پر پہنچی کہ انہیں بنگالیوں کے کم از کم چند مطالبات تسلیم کرنے ہوں گے۔ چنانچہ عام انتخابات کا اعلان کیا گیا، ایک فرد ایک ووٹ کے اصول کو تسلیم کیا گیا اور عوام کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جنرل ایوب کے بالواسطہ انتخابات کے برعکس دستور ساز اسمبلی کو براہ راست منتخب کریں۔

مشرقی بنگال کو اسمبلی میں اس کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی گئی۔ چنانچہ 300 عام نشستوں کے ایوان میں سے مشرقی بنگال کو 162 نشستیں ملیں اور عورتوں کی 13 مخصوص نشستوں میں سے 7 نشستیں اسے دی گئیں۔ دسمبر 1970 میں انتخابات ہوئے اور نتائج مندرجہ ذیل تھے:

شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے دو کے سوا مشرقی بنگال کی ساری نشستیں جیت لیں۔ یقیناً عوام کا مضبوط فیصلہ یہی ہو سکتا تھا۔ اس کے نتیجے میں عوامی لیگ کے ایجنڈے کو سب سے بڑا جواز مل گیا۔ اس کی قیادت کامیاب اور تمام الزامات سے بری ہوئی تھی۔ وہ اپنے سخت ترین امتحان میں امتیازی نشانات کے ساتھ کامیاب ہو گئی تھی۔

منتخب اسمبلی کے لیے لازمی تھا کہ وہ اپنے پہلے اجلاس کے بعد 120 دن کے اندر آئین کا مسودہ تیار کرے۔ جنرل یحییٰ نے اسمبلی کا پہلا اجلاس 3 مارچ 1971 کو بلانے کا اعلان کیا جبکہ عوامی لیگ کی پارلیمانی کمیٹی نے 27 فروری کو آئین کے بنیادی خاکے کا اعلان کر دیا۔

چوں کہ پارٹی کو ایوان میں سادہ اکثریت حاصل تھی اس لیے اسے اپنے افتتاحی اجلاس میں بنیادی اصول منظور کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اس کے نتیجے میں اگر پورے ملک پر نہیں تو کم از کم مشرقی بنگال میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ضرور ختم ہو سکتی تھی۔

یحییٰ نے افتتاحی اجلاس ملتوی کردیا اور مجیب الرحمٰن اور بھٹو سے مذاکرات شروع کیے جو بے فائدہ رہے۔ جنرل نے جلد ہی جمہوری محاذ پر اپنی شکست تسلیم کرلی اور دوسرے محاذ پر بنگالیوں کو چیلنج کردیا۔ پاک فوج نے 25 مارچ کی رات اپنے ایک بازو کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔

انہوں نے آزاد فکر کے حامل اور بے خوف عوام کے خلاف اپنی نفرتوں کے بے شمار ثبوت چھوڑے اور ساتھ ہی ساتھ فیصلے بھی دیتے رہے۔ بنگالی قسمیہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس لاکھوں کی تعداد میں ثبوت موجود ہیں۔ میں یہاں آپ کے سامنے صرف ایک مثال پیش کروں گا۔

چند ہی دنوں میں فوجی مہم ایک مکمل خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی کیوں کہ بنگالی بدترین صورت حال کے لیے تیار تھے۔ دسمبر 1970 میں جو اسمبلی منتخب ہوئی تھی اس کا کوئی اجلاس منعقد نہں ہو سکا۔

حکومتِ پاکستان نے عوامی لیگ پر پابندی لگا دی اور اس کے 160 منتخب اراکین میں سے 76 کو غدار قرار دے کر نااہل کر دیا گیا، چنانچہ 313 کے ایوان میں عوامی لیگ کی تعداد فیصلہ کن 167 سے گھٹ کر صرف 84 رہ گئی۔

یہ تعداد پاکستان پیپلز پارٹی کے مساوی تھی جس کی تعداد پنجاب اور سندھ میں 81 تھی۔ ایک منقسم اور معلق پارلیمنٹ ہمیشہ "بہترین قومی مفاد" میں ہوتی ہے۔

لیکن جنرل تو بے وقوفوں کی جنت میں رہ رہے تھے۔ انہوں نے ستمبر 1971 میں اپنے لیگل فریم ورک آرڈر میں ترمیم کردی تاکہ الیکشن کمیشن مشرقی بنگال کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد کروا سکے۔ اس صورتحال میں حکومتِ پاکستان کے لیے بنگال میں کام جاری رکھنا ناممکن ہو چکا تھا۔

اس مبہم اور مایوس کن صورت حال نے مذہبی پارٹیوں کو موقع فراہم کر دیا۔ ان میں سے چھے پارٹیوں نے جماعت اسلامی کی سربراہی میں ملاقات کی اور ان خالی نشستوں پر اپنے مشترکہ امیدوار کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہو جائیں گے، کیوں کہ کسی اور کے خیال میں ان انتخابات کی کوئی قانونی حثییت نہیں تھی۔

لہٰذا 11 نومبر کو الیکشن کمیشن کو یہ پتہ چلا کہ ان 63 نشستوں پر ہر نشست کے لیے صرف ایک امیدوار کھڑا ہے چنانچہ یہ سارے امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوگئے۔ ان نشستوں پر پارٹی پوزیشن مندرجہ ذیل تھی۔

جماعت اسلامی: 15

پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی: 12

پاکستان مسلم لیگ (کونسل): 7

نظامِ اسلام: 6

پاکستان مسلم لیگ (کنونشن): 6

پاکستان مسلم لیگ (قیوم): 6

پاکستان پیپلز پارٹی: 5

پی پی پی نے پہلے تو ضمنی انتخابات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا لیکن بعد ازاں اسے یہ لوٹ سیل اتنی پرکشش لگی کہ وہ بھی اس میں شامل ہوگئی۔ 63 نشستوں کا فیصلہ ہو گیا اور الیکشن کمیشن نے باقی 15 نشستوں پر 7 سے 20 دسمبر 1971 تک انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کردیا۔

3 دسمبر کو اس مضحکہ خیز ڈرامے کا پردہ گر گیا کیوں کہ مغربی محاذ پر بھی اب جنگ چھڑ چکی تھی اور الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

ڈھاکہ میں پاکستان آرمی کے ہتھیار ڈالنے کے چار دن بعد 20 دسمبر 1971 کو ذوالفقار علی بھٹو صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ بھٹو نے 23 دسمبر کو ضمنی انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا اور اس طرح جماعت اسلامی کو اپنی سب سے بڑی انتخابی کامیابی سے محروم کر دیا۔

(جاری ہے)

انگلش میں پڑھیں۔


یہ بلاگ اس سے پہلے ڈان کی ویب سائٹ پر دسمبر 2012 میں شائع ہوچکا ہے۔

طاہر مہدی

لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر TahirMehdiZ@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔