ملٹی میڈیا

طبی تاریخ کے سب سے پُراسرار کیسز

نت نئی ویکسینز اور طریقہ علاج بھی ناقابل یقین شرح سے سامنے آرہے ہیں اور ہر طرح کے امراض کا کامیابی سے علاج ہو رہا ہے۔
|

‫طبی تاریخ کے سب سے پُراسرار کیسز

سعدیہ امین اور فیصل ظٖفر


کہا جاتا ہے کہ موجودہ عہد میں انسان نے سائنس کے میدان میں جتنی ترقی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی بلکہ طبی دنیا میں تو لگ بھگ روزانہ کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ نئی تحقیق سامنے آتی ہے جو مختلف امراض کے علاج کا دعویٰ کرتی ہیں۔

اس سے ہٹ کر بھی نت نئی ویکسینز اور طریقہ علاج بھی ناقابل یقین شرح سے سامنے آرہے ہیں اور ہر طرح کے امراض کا کامیابی سے علاج ہو رہا ہے۔

مگر اس کے باوجود اب بھی اکثر ایسے کیسز سامنے آجاتے ہیں جو عام ڈاکٹروں تو کیا طبی ماہرین کا بھی ذہن گھما کر رکھ دیتے ہیں اور ایسی چند مثالیں ہوسکتا ہے کہ آپ کو حیران کرکے رکھ دیں۔

ایسی خاتون جو اپنی آنکھوں کی حرکت کو سن سکتی ہے

آٹھ سال پہلے کی بات ہے کہ برطانوی علاقے لنکاشائر سے تعلق رکھنے والی جولی ریڈ فرن مقبول کمپیوٹر گیم ٹیٹریس کھیلنے میں مصروف تھی کہ اس نے ایک مزاحیہ سی تیز آواز سنی، شروع میں تو اسے اندازہ نہیں ہوسکا کہ یہ شور کہاں سے آرہا ہے مگر پھر اسے احساس ہوا کہ یہ آواز اسی وقت آتی ہے جب وہ اپنی آنکھوں کو حرکت دیتی ہے یعنی جولی اپنی آنکھوں کی پتلیوں کی آواز سن رہی تھی۔

وقت گزرنے کے ساتھ جولی کو یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اپنی شریانوں میں دوڑتے خون کی آواز کو سننے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ کھانا چبانے کی آواز تو اس کے لیے اتنی بلند ہوتی ہے کہ اسے کھانے کی میز پر کسی اور کی بات سنائی ہی نہیں دیتی مگر پھر بھی سب سے بدترین چیز اس وقت ہوتی تھی جب ٹیلیفون بجنے کے بعد اس کی آنکھیں خودبخود تیزی سے گھومنا شروع ہوجاتی۔

جولی میں ایس سی ڈی ایس نامی مرض کی تشخیص ہوئی یہ ایک ایسا نایاب مرض ہے جس سے کان کی اندرونی ہڈیاں کثافت سے محروم ہوجاتی ہیں جس سے سماعت بہت زیادہ حساس یا تیز ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹروں کو اس مرض کا علم 1990 کی دہائی میں ہوا تھا اور جولی کو بھی اس سے نجات دلانے کے لیے بڑا آپریشن ہوا اور طبی ماہر جولی کے ایک کان کی سماعت کو معمول پر لانے میں کامیاب ہوگئے تاہم اب بھی اس کا ایک کان آنکھوں سے لے کر جسم کے ہر عضو کی آواز سننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ایسا لڑکا جسے بھوک کا احساس نہیں ہوتا

بارہ سالہ لنڈن جونز امریکی ریاست آئیووا کا رہائشی ہے اور 2013 کی ایک صبح وہ بیدار ہوا تو اسے معمول کے مطابق بھوک محسوس نہیں ہوئی، وہ غشی سی محسوس کررہا تھا اور اس کی کھانسی رک ہی نہیں پارہی تھی کیونکہ بلغم نے اس کے سینے کو بلاک کر رکھا تھا۔

لنڈن کے والدین اسے فوری طور پر ہسپتال لے کر گئے جہاں بچے کے بائیں پھیپھڑے میں انفیکشن کا انکشاف ہوا اور جلد ہی اس کا علاج کرلیا گیا۔مگر صحتیابی کے بعد گھر واپسی پر بھی لنڈن کو پھر کبھی بھوک محسوس نہیں ہوئی جس کی وجہ کھانے پینے کی خواہش نہ ہونا تھا جس کے نتیجے میں اس کا وزن تیزی سے کم ہوا۔

ڈاکٹر لنڈن کے اندر بھوک اور پیاس کی کمی کی وجہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں مگر ایک سال کا عرصہ گزر جانے اور پانچ مختلف شہروں کے ماہرین کو دکھانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، مگر ڈاکٹروں نے یہ ضرور جان لیا ہے کہ لنڈن ممکنہ طور پر اس انوکھے مرض کا شکار دنیا کا واحد فرد ہے۔

اب لنڈن کو کھانا اور پینا یاد دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے اساتذہ اسکول کے اندر اسے کھانے کی عادت کی جانب ڈالنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔

دوسری جانب ڈاکٹر تاحال لنڈن کی اس بیماری کی وجہ جاننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر ابھی بھی اس بارے میں یقین سے کوئی بات سامنے نہیں آسکی ہے۔

وہ بچی جس کی آنکھوں سے آنسوﺅں میں پانی کی جگہ پتھر نکلتے ہیں

سال 2014 کے آغاز میں یمن کا شہری محمد صالح ال جہارانی اس وقت حیرت سے گنگ رہ گیا جب اس کی آٹھ سالہ بیٹی سعدیہ کی آنکھوں سے آنسوﺅں کی جگہ ننھے منے پتھر نکلنا شروع ہوگئے۔

سعدیہ محمد صالح کی دو بیویوں کے بطن سے پیدا ہونے والے بارہ بچوں میں سے ایک ہے مگر اس کی آنکھوں سے پتھروں کے اشک کا برسنا ہر ایک کے لیے حیرت کا باعث ہے کیونکہ اب تک اس کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہے اور ڈاکٹروں کو اس کی آنکھوں کے معائنے کے دوران کوئی غیرمعمولی چیز بھی نظر نہیں آئی۔

اس سے پہلے اسی خطے کی ایک پندرہ سالہ لڑکی ثبورا حسن الفارغ کو بھی آنکھوں سے ننھے پتھروں والے آنسو نکلنے کا تجربہ ہوا تھا تاہم اردن میں علاج کے بعد وہ صحتیاب ہونے لگی مگر بدقسمتی سے سعدیہ کے ساتھ ایسا نہیں ہوسکا۔

ڈاکٹر اس کی مدد کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اور اس کے گاﺅں کے رہائشیوں نے تو ماننا شروع کردیا ہے کہ یہ بچی کسی روح کے زیراثر یا جادو کا شکار ہے۔

اس کے والد نے ایک انٹرویو کے دوران تصدیق کی کہ سعدیہ اکثر عام لوگوں کی طرح بھی اشک بہاتی ہے اور پتھر عموماً سہ پہر اور رات کو ہی آنکھوں سے برستے ہیں خوش قسمتی سے آنکھوں سے آنسوﺅں کی جگہ پتھر نکلنے کے باوجود سعدیہ کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔

وہ لڑکی جس کی عمر کبھی نہیں بڑھی

امریکی ریاست میری لینب ڈ میں بروک گری برگ نامی لڑکی کا جب بیس سال کی عمر میں انتقال ہوا تو اس وقت تک وہ کبھی بولنا نہیں سیکھ سکی تھی اور چلنے کے لیے بھی چاروں ہاتھوں پیروں کا استعمال کرتی تھی۔

درحقیقت عمر بڑھنے کے باوجود اس کے جسم نے نشوونما سے انکار کردیا تھا اور اپنی موت کے وقت بروک کی نہ صرف ذہنی حالت بلکہ اس کا جسم بھی ایک نومولود بچے جیسا ہی تھا۔

سائنسدان اور ڈاکٹر اب بھی بروک کی طبی حالت کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں اور اسے پیدائش کے بعد سے ہی ایک " کرشماتی" بچی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ متعدد معدے کے پھوڑوں کے ساتھ ساتھ ایک بار فالج سے بھی بچنے میں کامیاب رہی تھی۔

اسے ایک بار دماغی رسولی کا بھی سامنا ہوا جس کے باعث وہ دو ہفتے تک سوتی رہی اور حیرت انگیز طور پر جب وہ جاگی تو رسولی بھی کہیں غائب ہوگئی اس وقت سے اب تک ڈاکٹروں کے لیے وہ چیز بھی معمہ بنی ہوئی ہے۔

اس کی جسمانی نشوونما بھی بہت عجیب تھی کیونکہ سولہ سال کی عمر تک اس کے دودھ کے دانت نہیں ٹوٹے تھے مگر اس کی ہڈیاں مضبوطی کے لحاظ سے کسی دس سالہ بچے کی طرح تھی (مگر سائز یا حجم نہیں تھا)۔

اس کے بالوں اور ناخنوں کے بڑھنے کی رفتار معمول کے مطابق تھی اور وہ اپنے بہن بھائیوں کو پہچاننے اور خوشی کے اظہار کی صلاحیت رکھتی تھی۔

وہ خاتون جس کی بینائی دوبارہ بحال ہوگئی

نیوزی لینڈ کے شہر آک لینڈ کی رہائشی لیزا ریڈ گیارہ سال کی عمر میں بینائی کی نعمت سے محروم ہوگئی تھی اور اس کی بحالی کی کوئی امید بھی نہیں رہی تھی مگر چوبیس سال کی عمر میں ایک روز اس کا سر حادثاتی طور پر ایک جگہ ٹکرا گیا اور اگلی صبح جب وہ سو کر اٹھی تو اس کی بینائی دوبارہ بحال ہوچکی تھی۔

بچپن میں لیزا ایک رسولی کا شکار ہوئی تھی جس نے اس کی آنکھوں کے اعصاب کو بری طرح متاثر کیا تھا جس کی وجہ سے وہ دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئی تھی جس کے بعد ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا تھا اور اس نے اپنی حالت پر سمجھوتا کرتے ہوئے ایک گائیڈ کتا لے لیا تھا۔

درحقیقت یہ کتا ہی اس کی بنیائی کی دوبارہ بحالی کا ذریعہ بنا کیونکہ سال 2000 کی ایک رات لیزا جب اپنے کتے کو بوسہ دینے کی کوشش کررہی تھی تو اس کا سر کافی کی میز سے جا ٹکرایا تھا اور فوری طورپر ہلکے سردرد سے زیادہ کچھ نہیں مگر اگلی صبح اس کی آنکھوں کے سامنے چھایا اندھیرا چھٹ چکا تھا۔

ڈاکٹر اس کی کوئی بھی وجہ بتانے سے قاصر رہے اور اس واقعے کو چودہ سال گزر جانے کے بعد بھی لیزا کی بینائی تاحال برقرار ہے۔

وہ بچہ جو اپنا منہ نہیں کھول سکتا

جبڑوں کا لاک یا ان کی حرکت تھم جانا کتوں میں عام ہے مگر کینیڈا کے شہر اوٹاوہ میں رواں برس کے شروع میں ایک نومولود بچہ اس کیفیت کا شکار ہوا تو ڈاکٹروں کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے۔

وائٹ نامی یہ جون 2013 میں پیدا ہوا تو رونے کے دوران وہ اپنا منہ کھول نہیں پاتا تھا جس کے بعد اسے اپنی زندگی کے اولین تین ماہ ہسپتال میں گزارنے پڑے جہاں ڈاکٹروں نے اس کی مدد کے لیے اپنی ہرممکن کوشش کی۔

تاہم ننھے بچے کی کوئی مدد نہ کرپانے پر ڈاکٹروں نے اسے گھر بھیج دیا اور والدین کو اس انوکھی بیماری کی کوئی وجہ بھی بتانے سے قاصر رہے۔

اس کے بعد کئی مہینوں کے دوران یہ ننھا بچہ چھ مواقعوں پر زندگی سے محروم ہونے کے قریب پہنچ گیا جس کی وجہ منہ کی حرکت رک جانے سے ہوا یا آکسیجن کا جسم میں داخل نہ ہونا تھا درحقیقت اس کا لعاب دہن منہ میں جم کر ہوا کی گزرگاہ کو بند کردیتا تھا۔

ڈاکٹروں نے اس کے بعد اس مرض پر قابو پانے کے لیے کئی کوششیں کیں مگر اب بھی وہ بچہ خطرے سے دوچار ہے کیونکہ عمر بڑھنے کے ساتھ اس کے عارضے کی شدت بھی بڑھ رہی ہے اور اپنی پہلی سالگرہ کے بعد سے اس ننھے فرشتے کو غذا ایک نالی کے ذریعے معدے تک پہنچائی جاتی ہے اور حال ہی میں والدین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ وائٹ اپنی دونوں پلکیں بیک وقت جھپکانے کی صلاحیت بھی رکھتا۔

وہ لڑکی جسے درد محسوس نہیں ہوتا

امریکی ریاست کے علاقے بگ لیک کی رہائشی گیبی گینجراس جب بہت چھوٹی تھی تو وہ اپنی انگلیاں مسلسل اپنی آنکھوں پر مسلتی رہتی تھی جس کے نتیجے میں اس کی آنکھ ضائع ہوگئی جبکہ وہ اپنی انگلیاں بھی چبانے کی بھی عادی تھی۔

درحقیقت گیبی ایک انتہائی نایاب قسم کے طبی عارضے کی شکار ہے جس میں مریض کو درد ہی محسوس نہیں ہوتا یہی وہ ہے کہ جب یہ بچی سات سال کی ہوئی تو اسے ہیلمٹ اور گلاسز پہنے پڑتے تھے تاکہ خود کو محفوظ رکھ سکے یہاں تک کہ اس کے سر پر تیزدھار سے خراشیں بھی پڑتی تو بھی اس کے ماتھے پر ایک شکن نہیں پڑتی تھی۔

سال 2005 میں گیبی کو اوپرا انفراے کے شو میں بھی خاندان سمیت مدعو کیا گیا جہاں اس کے والدین نے وہ سب کچھ بتایا جس کا انہیں روزمرہ میں سامنا ہوتا تھا، انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ کس طرح گیبی کا جبڑہ ٹوٹ گیا اور اسے کچھ محسوس ہی نہیں ہوا اور حیرت انگیز طور پر ایک ماہ تک گھر میں بھی کوئی اس پر توجہ نہیں دے سکا۔