نقطہ نظر

عالمِ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ: حقیقت یا سراب؟

مسلمان نشاۃِ ثانیہ کے خوابوں میں جی رہے ہیں، لیکن کیا واقعی وہ کھوئی ہوئی شان و شوکت واپس آئے گی؟

نشاۃِ ثانیہ یا renaissance وہ اصطلاح ہے جو تاریخی طور پر مغرب سے مستعار لی گئی ہے، مگر مسلم اُمہ کی بڑی تعداد اِس تصور کو لیے جی رہی ہے کہ ایک نہ ایک روز سورج مسلمانوں کے عروج کی نوید لے کر طلوع ہوگا کیونکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا وعدہ گذشتہ صدی کے تمام مسلم اکابرین بشمول مذہبی وسیاسی، نے کر رکھا ہے۔

تاریخ کے اوراق کھنگالے جائیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مغرب میں سترہویں صدی تک قومیت پر مبنی ریاستی تصور رائج ہوچکا تھا اور عوام کی بڑی تعداد اپنے ریاستی مسائل اور اپنی مشکلات کو اپنے ہی وطن کے پس منظر میں حل کرنے کا خواب دیکھنے لگی تھی۔ جدید یورپ کی سماجی و سیاسی تشکیل میں فیصلہ کن کردار انقلاب فرانس نے ادا کیا جہاں کے باشندے کلیسا اور امرا کے دستِ چابُک کے پُتلے بن بن کر ایک روز بغاوت پر آئے اور یہ بغاوت اس انتہاء تک جا پہنچی کہ بادشاہ اپنے خاندان سمیت ”خونی خنجر“ کی نذر ہوا اور کلیسا کی راکھ سے ”دانش کی دیوی“ نے جنم لے کر مذہبی حکمرانی کو تہہ تیغ کر دیا۔

روسو، وولٹیئر، روبسپیئر، وغیرہ کے خیالات وافکار کا جادو اس طرح سر چڑھ کر بولا کہ صدیوں سے رائج بادشاہت کی فلک بوس دیوار دھڑام سے زمین پر آرہی۔

دسویں گیارہویں صدی کی صلیبی جنگوں سے لے کر پندرہویں سولہویں صدی تک کی پروٹسٹنٹ کیتھولک فرقہ وارانہ جنگوں کے ذریعے یورپ نے بے شمار خون دیکھ لیا تھا۔ مذہب اور بادشاہت کے نام پر بادشاہت کے نام پر ہوئے قتل و خون سے انقلاب کا جنم فطری تھا۔مغرب اس سارے زمانے کو Age of Reformation یا Enlightenment Era یا یورپیئن نشاۃِ ثانیہ کا نام دیتا ہے۔

مگر یہ اصطلاح یورپ کے لیے اس وجہ سے درست معلوم نہیں ہوتی کہ آخر قدیم روم و یونان کی ملوکی ریاستیں نشاۃِ اول یا کلاسیکی تہذیب کیسے ہو سکتی ہیں جہاں آبادیاں اندھیروں میں بستی تھیں، غلامی اور جبر کا دور دورہ تھا اور جہاں مسیحیت کی آمد نے قدیم یونانی سائنس کی جڑیں اکھاڑ کر رکھ دی تھیں؟

اس کے برعکس قرونِ وسطیٰ میں اندلس و بغداد کی عرب ریاستیں اپنے سماجی و سیاسی نظام اور فکری ترقی و آزادیء انساں کے حوالے سے بہرحال اس امر کی مستحق ہیں کہ انہیں عالمِ اسلام کے بجائے نسلِ انسانی کا نشاۃِ اول کہا جائے۔

عبدالرحمٰن سوم اور مامون الرشید کے عہد، الہامی و ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مذہبی رواداری اور باہمی یگانگت کی خوبصورت ترین مثالیں ہیں۔ غرناطہ، ٹولیڈو، بلدالزہرا ہو یا بغداد و اصفہان، کرہ ِارض پر تاریخِ انسانی کے زمانہء وسطی میں حقیقی بہار گزری ضرور ہے۔ ہم بھلے کچھ بھی کہہ لیں، لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جس چیز کو کلاسیکی تہذیب کہا جاتا ہے، اس کے اختتام اور انقلابِ یورپ کے درمیان کئی صدیوں پر محیط ایک ایسا دور بھی ہے جس میں مسلم اکثریتی علاقوں میں ہر طرح کی سائنس کی پرورش کی گئی اور اسے پروان چڑھایا گیا۔

لیکن ٹھہریے! فکر و دانش کے عروج کے اس زمانے کی وجہ نہ تو مذہب تھا، جیسا کہ عام طور پر قرار دیا جاتا ہے، اور نہ ہی اس کی وجہ کسی خاص نسل یا قومیت کو قرار دیا جا سکتا ہے۔

علم کی پیاس اور لاعلمی سے جاننے تک کا انسان کا سفر یونان سے شروع ہوا، جہاں سے یہ فارس اور عربستان سے ہوتے ہوئے پھر واپس یورپ میں داخل ہو گیا۔ یہ پیاس نہ تو کسی مذہب، مسلک یا نسل کی ملکیت تھی، اور نہ ہی وراثت، یہ تو انسانیت کی مشترکہ میراث ہے۔

علمی ترقی کا سفر درجہ بدرجہ وجود میں آیا ہے۔ قدیم زمانے میں سمجھا جاتا تھا کہ قدرت کے بارے میں جاننے کے لیے تجربات کی ضرورت نہیں، بلکہ صرف سوچ کے ذریعے ہی سوالات کے جوابات ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ اس سوچ کو تبدیل کرنے اور تجربات کی اہمیت پہچاننے میں کئی صدیاں لگیں، اور پھر تجرباتی سائنس کی مدد سے وہ وہ دریافتیں ہوئیں، جو محض سوچ کی بنا پر کبھی بھی نہ ہو پاتیں۔

فارس کے کتب خانوں سے یونانی زبانوں کے علمی خزانے عباسی دور کی ترجمہ تحریک کے ذریعے عربی میں منتقل ہوئے تو الکندی، فارابی، ابن رشد، ابن الہیثم، جابر بن حیان، بوعلی سینا، عمرخیام اور نجانے کتنے ہی ستارے آسمانِ علم پر نور کی طرح چمکنے لگے۔ پھر جس طرح سورج اپنے عروج کو پہنچ کر زوال کی جانب مائل ہوتا ہے، اسی طرح عرب دنیا کی اس علمی بلندی پر زوال آیا، اور یہ سنہرا دور اب صرف ماضی کی یاد بن کر رہ گیا ہے۔

یہاں یہ سوال چُبھتا ہے کہ کیا مسلم دنیا کا یہ عروج والا زمانہ لوٹ سکتا ہے یا نہیں؟

جواب خود تلاش کیجیے گا مگر ذرا آج کرہء ارض پر عالم ِاسلام کی فکری، سیاسی اور سماجی حالت پر غور فرما کر۔۔۔!

بے شک مُٹھی بھر دہشت گرد اسلام کے نمائندے نہیں ہیں۔ بے شک موجودہ دور کی مذہبی دہشت گردی کا اسلام بطور مذہب نمائندہ نہیں رہا۔ مگر کیا ہم آج کے مسلمان اموی زمانے کے اندلس اور عباسی عہد کے بغداد کا سماجی نظام قبول کرنے پر راضی ہیں؟ جس کا خواب آنکھوں میں بسائے نسلوں کی نسلیں گزر چکی ہیں؟

پاکستان، تیونس، ملائشیاء، ترکی، مراکش، مصر اور وسط ایشیائی مسلم ریاستیں، اپنی فکر میں کسی قدر جدید زمانے کی آزاد خیال مسلمان آبادیوں کی حامل ہیں مگر موجودہ زمانے کا یہ ماڈرن مسلمان بھی ذہنی بلوغت اور وسعتِ قلب و نظر میں اُس مزاج کا حامل نہیں جو اندلس و بغداد کے مسلمان کی وجہء شہرت ہے۔

اس زمانے میں عباسی اور اموی خلفاء سائنس اور دیگر علوم کی مکمل طور پر سرپرستی کرتے تھے، فنونِ لطیفہ کے ماہرین، حکما و فلاسفہ کی خلفا کے درباروں میں جو قدر و منزلت ہوا کرتی تھی اس کا تصور بھی آج مشکل ہے۔ کیا سائنسدانوں اور اہلِ علم کی قدر کیے بغیر اور ان کو سہولیات فراہم کیے بغیر یہ سب ممکن ہے؟

طبیعت راضی ہو تو تاریخ بغداد و اندلس کی کوئی نسبتاََ غیر متعصب کتاب اُٹھا کر ایک آدھ گھنٹے کے لیے بیٹھ جائیے گا یا پیر گوگل شریف کا دروازہ بجا لیجیے گا۔ امید ہے لمحہ بھر کی خوشگوار حیرت ضرور ہوگی کہ اس دور میں مذہبی رواداری اتنی تھی کہ یہود و نصاریٰ اور مسلمان ایک ہی حمام میں نہایا کرتے تھے۔۔۔ ہائیں؟؟


حوالہ جات:

(کتب)

(Europe since Napoleon by David Thomson, Part 01: Europe in the melting pot (1789-1814

Aladdin's Lamp: How Greek science came through Islamic world by John Freely(Publisher: Vintage Edition 01 (March 2010

The spirit of Islam by Syed Ameer Ali

فلم:

(Agora (2009

دستاویزی فلم:

(Al-Andalus History of Islam in Spain (History channel

شوذب عسکری

لکھاری کو سیاسیات، ثقافت اور تاریخ پڑھنے کا شوق ہے اور وہ مذاہبِ عالم کی بھول بھلیوں میں آوارہ گردی کر کے ان کے اسرار و رموز کا کھوج لگانا چاہتے ہیں۔ وہ بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ShozabAskari@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔