نقطہ نظر

اگر دھاندلی ثابت نہ ہوئی تو؟

سمجھ نہیں آتا کہ تحریکِ انصاف کی جانب سے پہلے فیصلے پر عمل کرنے اور پھر واپس لینے کی روش کب تک جاری رہے گی۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا پہلے مطالبہ تھا کہ وزیراعظم انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف کے دھرنے کے نتیجے میں مستعفی ہوجائیں اور پھر دھرنا بوجہ سانحہِ پشاور 126 دنوں بعد ختم کردیا گیا۔

دھرنے کے دوران حکومتی ڈھٹائی دیکھتے ہوئے عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کا اعلان کیا گیا۔ جس کا خاتمہ بعد از شادی بنی گالا میں واقع گھر کا بجلی کا بل ادا کر کے کیا گیا۔

دھرنے سے پہلے تحریک انصاف ڈرون حملے بند کروانے کے لیے سراپہ احتجاج رہی۔ جس کے لیے تحریک انصاف نے نیٹو کنٹینرز کے روٹ پر دھرنا دیا۔ مگر ڈرون حملے بند نہ ہوئے۔ بلکہ نیٹو نے اپنا روٹ تبدیل کرلیا۔

ملک میں بڑھتی مہنگائی کے خلاف بھی کڑکتی سردیوں میں لاہور میں ریلی نکالی گئی۔ مگر ریلی پیالی میں طوفان کے برابر ہونے کی وجہ سے مطلوبہ اہمیت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

لندن جا کر الطاف حسین کے خلاف ثبوتوں کی بنیاد پر لندن میں مقدمہ چلانے کا اعلان بھی عمران خان کی جانب سے کیا گیا۔ پھر تحریک آنصاف کی رہنما زہرہ آپا کے قتل کا الزام بھی مبینہ طور پر متحدہ پر لگایا گیا۔ مگر پھر کراچی میں کامیاب جلسہ کرنے کے لیے وقتی طور پر متحدہ پر لگائے گئے الزامات بھلا دیے گئے اور اطلاعات کے مطابق کامیاب جلسے کے انعقاد پر عمران خان کی جانب سے متحدہ کا شکریہ بھی ادا کیا گیا۔

دھاندلی زدہ الیکشنز کی وجہ سے معرض وجود میں آنے والی اسمبلیوں سے تحریک انصاف کے اراکین نے استعفی دیے اور اب جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بعد پارلیمنٹ میں عالیشان استقبال کے بعد تحریک انصاف کے اراکین اسمبلیوں میں واپس آگئے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کا مبینہ ساتھ دینے پر تحریک انصاف کی جانب سے جیو کا بائیکاٹ کیا گیا اور مرد رپورٹرز سمیت جیو کی خاتون اینکرز کو بھی ہراساں کیا گیا۔ مگر گزشتہ دنوں یہ بائیکاٹ بھی ختم کردیا گیا اور نہ صرف عمران خان جیو کے پروگرام میں نظر آئے بلکہ ریحام خان بھی کراچی کے دورے کے موقعہ پر جیو سے فون پر گفتگو کرتی رنگے ہاتھوں دیکھی گئیں۔

اب تحریک انصاف کو خوش فہمی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 246 میں متحدہ قومی موومنٹ کو ضمنی الیکشنز میں شکست دینے میں کامیاب ہو جائے گی۔ جہاں سے وہ پچھلے تیس سالوں سے الیکشن جیت رہی ہے اور جس حلقے سے تحریک انصاف کے امیدوار ایک لاکھ سے زائد ووٹوں ہارے تھے۔

اسی حلقے سے حالیہ پیشرفت کے مطابق تحریک انصاف نے جناح گراؤنڈ میں جلسہ کرنے کا فیصلہ تبدیل کردیا ہےاور اب تحریک انصاف جلسہ شاہراہ پاکستان پر کرے گی۔ یعنی کہ ایک اور یو ٹرن۔

ان تمام یو ٹرنز کو دیکھ کر انتخابات میں تحریک انصاف کو اپنا قیمتی ووٹ دینے والے سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ کون سی خام خیالیاں ہیں جو کہ تحریک انصاف کو ایسے اقدامات لینے پر مجبور کرتی ہیں، جنہیں کچھ ہی دیر بعد پارٹی کو واپس لینا پڑتا ہے۔

پارٹی میں چلے ہوئے کارتوسوں یا تجربہ کار سیاستدانوں کو شامل کرنے کا کیا فائدہ کہ پارٹی فیصلوں پر عمل پہلے کرتی ہے، اور سوچتی بعد میں ہے، اور پھر فیصلہ واپس لے لیتی ہے۔ آخر ایسا کون سا الہام ہے جو تحریک انصاف کے رہنماؤں پر ہمیشہ فیصلہ لینے کے بعد ہی نازل ہوتا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے تمام بڑے فیصلوں کا اعلان چیئرمین خود کرتے ہیں، مگر کسی بھی اعلان کی تشریح یا واپس لینے کے لیے کسی رہنما کو آگے کردیا جاتا ہے۔

تحریک انصاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یو ٹرنز لیتے ہوئے پرانے کیے گئے فیصلوں کو ایسے بھول جاتی ہے جیسے کبھی کوئی غلط فیصلہ اس جماعت سے ہوا ہی نا ہو۔ اس کے علاوہ نہ تو ملتان میں ہلاک ہونے والے تحریکی تحریک انصاف کو یاد ہیں اور نہ ہی فیصل آباد میں اندھی گولی کا نشانہ بنے والا رب نواز۔

نہ ہی آج تک تحریک انصاف کی جانب سے جاوید ہاشمی کے لگائے گئے الزامات پر کوئی واضح مؤقف سامنے آیا ہے اور نہ ہی عمران خان اور عارف علوی کے مابین مبینہ گفتگو پر قوم کی تسلی کروائی گئی ہے۔

جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بعد قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اراکین تو شرماتے، گھبراتے، ڈگمگاتے اور ہچکچاتے اسمبلیوں میں واپس آگئے۔ مگر تحریک انصاف کی جانب سے سندھ اسمبلی کے چار اراکین کے بارے میں کچھ سوچا نہیں گیا۔ جن کے استعفیٰ منظور ہو چکے ہیں اور اب وہ گھر بیٹھے پارٹی کے کرتوں دھرتوں کو غائبانہ گالیاں دے رہے ہیں۔

بس بیچارے معصوم ناسمجھ بھولے تحریک انصاف کے ووٹروں کو دیگر جماعتوں کے ووٹرز کے ہاتھوں بے عزت ہونا پڑرہا ہے جب تحریک انصاف کی جانب سے ایک ایک کر کے تمام مطالبات واپس لیے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف کے کچھ ووٹرز کا تو اب یہ حال ہوگیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم عمران خان کو ووٹ دینے کے بجائے زرداری کو ووٹ دے دیتے تو اتنی شرمندگی کا سامنا نا کرنا پڑتا۔

اب حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے جس کے بعد صدارتی آرڈیننس کے ذریعے جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تشکیل پا گیا ہے۔ جو انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرے گا اور اگر باقاعدہ دھاندلی ثابت ہوتی ہے تو معاہدہ کی رو سے وزیر اعظم اسمبلیاں توڑنے کے پابند ہوں گے۔

لیکن اگر جوڈیشل کمیشن کو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے ثبوت نہیں ملتے تو تحریک انصاف کے ہاتھ میں کیا آئے گا؟

جمہوری تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس کا فیصلہ بھی تحریک انصاف کو ووٹ دینے والوں پر چھوڑا جاتا ہے۔

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔