نقطہ نظر

لڑکی سے لڑکے والوں کی 'تفتیش' کیوں؟

لڑکی دیکھنے کے لیے آنے والوں کے سوالات ایسے ہوتے ہیں جیسے فوج میں سپاہی بھرتی کرنے آئے ہیں۔

”سارہ! بیٹا تیار ہو جاؤ، تمہاری خالہ لڑکے والوں کو لے کر آتی ہی ہوں گی۔ دیکھو کتنی دیر ہوچکی ہے، اوپر سے کھانے پینے کے انتظامات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔“ گذشتہ نا خوشگوار تجربوں سے اکتائی ہوئی سارہ کہتی ہے: "جی امی! ہوجاتی ہوں تیار۔ ان لوگوں نے کون سا مجھے دیکھتے ہی پسند کرلینا ہے، ہر بار کی طرح آئیں گے، اپنی تواضع کروائیں گے، اور پھر کوئی نہ کوئی خامی نکال کر چلے جائیں گے۔"

ایک سارہ ہی نہیں جو آئے روز ان حالات کا مقابلہ کرتی ہے اور رشتے کے لیے آنے والوں کے چبھتے سوالات کے نشتر سہتی ہے۔ پاکستان کے مڈل کلاس گھرانوں میں یہ رجحان تعلیم اور ترقی کے باوجود ختم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو لڑکیوں کے ان حالات سے گزرنے کی مختلف وجوہ ہوتی ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ پاکستان میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہونا بھی ہے۔ اسی لیے یہاں لڑکیوں کی شادیاں مناسب وقت پر ہونا اور ان کے لیے مناسب رشتے کی تلاش کرنا لڑکی کے ماں باپ کے لیے کٹھن ترین مرحلہ ہوتا ہے، اور کم و بیش ہر گھر میں ہی لڑکیوں کو ان دشوار اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، جو لڑکی اور اس کے گھر والوں کے لیے شدید کوفت کا باعث بنتے ہیں۔

لڑکی دیکھنے کے لیے آنے والوں کے سوالات بھی ایسے ہوتے ہیں جیسے فوج میں سپاہی بھرتی کرنے آئے ہیں: "کتنی عمر ہے، قد کتنا ہے، تعلیم کہاں تک حاصل کی ہے۔" اس موقع پر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے بیٹے کے لیے لڑکی دیکھنے آئے ہیں، کسی پلاٹ یا گاڑی کا سودا طے کرنے نہیں۔

پڑھیے: لڑکا ریاضی میں کمزور، دلہن کا شادی سے انکار

ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ لڑکیوں کی مائیں اس موقع پر اپنی بیٹی کی خوبیاں گنوانے میں پیش پیش ہوتی ہیں، جبکہ دوسری جانب لڑکوں کی مائیں بھی اپنے فرزند کو کسی شہزادے سے کم نہیں سمجھتیں۔ شہزادے کے لیے شہزادی کی تلاش میں وہ لڑکیوں کا ہر زاویے سے جائزہ لیتی ہیں، اور اس جانچ پڑتال میں وہ ذرا بھی شرم یا عار محسوس نہیں کرتیں۔ لڑکی پر ایسے ایسے سوالات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے جو بعض اوقات اسے شرم سے پانی پانی کردیتے ہیں۔

لڑکی پسند کرنے کے دوران نہ صرف لڑکے کے اہل خانہ، بلکہ خود لڑکے کا بھی دماغ بھی آسمان پر ہوتا ہے۔ اس سوچ کو دوہرا معیار کہیں یا خودپسندی کہ لڑکا کتنا ہی نکما، بدشکل، یا ان پڑھ ہو، اسے ہونے والی دلہن خوب صورت اور تعلیم یافتہ چاہیے ہوتی ہے۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے اور بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق لوگوں نے اپنی سوچ کو بھی ڈھال لیا ہے، مگر لڑکی پسند کرنے کے پیمانے پر نظر ڈالیں تو بدقسمتی سے ہم آج بھی اسی پرانی روایتی سوچ پر قائم ہیں۔

ہمارے اس قدامت پسند معاشرے میں لڑکے کی ماں ہونا اعزاز کی بات سمجھا جاتا ہے اور وہ عورت لڑکے کی ماں ہونے کے زعم میں یہ تک بھول جاتی ہے کہ جو امتحان وہ دوسروں کی بیٹیوں کے لے رہی ہے، ان کا سامنا ماضی میں وہ خود بھی کرچکی ہے، جنہیں نہ بھولتے ہوئے دوسروں کی بیٹیوں کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ مگر یہاں لڑکے کی ماں کا اپنے ماضی کے تجربوں کو دہراتے ہوئے مطالبہ ہوتا ہے: ”میری ہونے والی بہو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہر طرح کے گھریلو امور میں طاق ہونی چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر شوہر کے ساتھ معاشی معاملات میں بھی ہاتھ بٹا سکے، مگر عمر کی زائد نہ ہو۔“

ذرا ہوش کے ناخن لیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کم عمر بھی ہو؟ یہ تضاد نجانے کتنی ہی لڑکیوں کے سروں میں سیاہی سے سفیدی لے آتا ہے اور وہ والدین کے گھر میں ہی بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لڑکے والوں کا یہ حوصلہ شکن رویہ بے بس والدین کی اپنی بیٹی بیاہنے کی خواہش کو ماند کرتا چلا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: لڑکی کی عمر گذر گئی

بعض دفعہ لڑکے کے والدین بے رحم خریدار کی شکل میں لڑکی کا وزن، قد، اور چہرے کے خدوخال کا معائنہ کر رہے ہوتے ہیں، یہ بھولتے ہوئے کہ ان کا بیٹا کوہ قاف سے آیا شہزادہ نہیں، یا اس لڑکی نے اپنے خدوخال خود تخلیق نہیں کیے ہیں جو اس کا اتنا کڑا امتحان لیا جارہا ہے۔

اگر لڑکے والے اپنی کڑی شرائط پر پورا اترنے والی لڑکی پسند کر بھی لیتے ہیں، تو اس کے بعد اگلا مرحلہ لڑکی کے والدین کے لیے پہلے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ شادی کے انتظامات کی طویل فہرست ان کے سپرد کر دی جاتی ہے، جسے ممکن بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ لہٰذا بیٹی کو رخصت کرنے کے لیے والدین قرض لیتے ہیں، یا اپنی عمر بھر کی جمع پونجی بیچ دیتے ہیں، اس بات کا ڈر دل میں بٹھائے کہ کہیں ان کی بیٹی گھر نہ بیٹھی رہ جائے، زمانہ کیا کہے گا، وغیرہ وغیرہ۔ اس موقع پر مجبور والدین کا مقصد ہر مشرقی سوچ رکھنے والے ماں باپ کی طرح جلد از جلد بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہونا اور اسے اپنے گھر آباد دیکھنا ہوتا ہے۔

اگر ہمیں اپنے معاشرے سے اس فرسودہ طریقے سے لڑکی پسند کرنے کی سوچ کو بدلنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں خود سے شروعات کرنی ہوگی، کیونکہ یہ فرسودہ سوچ ہمارے معاشرے کو صحت مند معاشرہ بنانے کے بجائے مزید تنزلی کی جانب لے جارہی ہے۔

لڑکے والوں کے ان اقدامات کی حوصلہ شکنی کے لیے پہلا قدم لڑکی کے والدین کو اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنی بیٹی کو شو پیس کی طرح سجا کر لڑکے والوں کے سامنے پیش نہ کریں۔ لڑکے والوں کو اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوتا ہے کہ زیادہ تر لڑکیوں کے ماں باپ کسی بھی صورت میں جلد سے جلد لڑکی کی شادی چاہتے ہیں، لہٰذا وہ بھی ہر طرح کا جائز و ناجائز مطالبہ منوانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس لیے بیٹی کو بوجھ کے بجائے رحمت سمجھیں، جب اس کی شادی کا درست وقت آئے گا، تو خدا کی مدد سے یہ مرحلہ بخوبی سر ہوجائے گا۔

دوسری جانب لڑکے والوں کو بھی اپنا لڑکی پسند کرنے کا پیمانہ تبدیل کرنا چاہیے۔ انہیں اپنے گھر کی بہو اور بیٹے کی بیوی تلاش کرتے یہ پہلو مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے، لہٰذا لڑکی کے منفی پہلوؤں کے بجائے مثبت پر زیادہ غور کریں، اسی سوچ پر چل کر ان کا گھرانہ ایک خوشگوار زندگی بسر کر سکے گا اور ان کی آنے والی نسلیں بلند اخلاق اور اعلیٰ روایات کی حامل ہوں گی۔

مدیحہ خالد

مدیحہ خالد نے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا ہے۔ انہیں مطالعہ کرنا اور لکھنا پسند ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔