کھیل

جب پاکستان 4 کھیلوں کا حکمران بنا

ہم نے پاکستانی اسپورٹس کا عروج 1994 میں دیکھا جب ہم دنیا میں کسی ایک نہیں بلکہ چار مختلف کھیلوں پر حکمرانی کررہے تھے۔

جب پاکستان 4 کھیلوں کا حکمران بنا

بانوے میں کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کی کہانی لگ بھگ کرکٹ کے ہر چاہنے والے کے ہی نہیں ہر پاکستانی کے دل میں بھی زندہ ہے۔

اس ایونٹ کے میچز کی ہائی لائٹس، فوٹیجز، ٹی شرٹس، دو ان سوئنگنگ گیندیں، میچ کی آخری گیند پر کیچ، سیمی فائنل میں تاریخی اننگ غرض بانوے کے ورلڈکپ کے ہر پہلو سب کچھ لوگوں کے دلوں کے قریب ہے۔

یہاں تک کہ آج بھی ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ٹیم اس یادگار لمحے کو پھر سے دوہرائیں اور وہ کامیابی حاصل کریں جو عمران خان کے ساتھیوں نے اپنے زمانے میں حاصل کی تھی۔

پاکستان کرکٹ کی دنیا میں 1996 کے ورلڈکپ تک چیمپئن رہا جس کے دوران 1994 ایسا سال تھا جب عالمی سطح پر پاکستان کرکٹ چیمپئن کی حیثیت کو دو سال ہوئے تھے ۔

تو 1992 کی کامیابی اب بھی بہت بڑی مانی جاسکتی ہے تاہم اسکواش اور ہاکی جیسے دیگر کھیل ایسے ہیں جن میں اس زمانے میں حاصل کی گئی متعدد کامیابیوں پر زیادہ توجہ نہیں دی جاسکی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ کیونکہ ہم ان کھیلوں میں کامیابیوں کے اتنے عادی ہوگئے تھے کہ ہم انہیں غیرمعمولی تصور کر ہی نہیں سکتے تھے۔

جی ہاں آپ صحیح پڑھ رہے ہیں، پاکستان ہاکی اور اسکواش میں ٹائٹلز اور میڈل لینے کا اتنا عادی ہوچکا تھا کہ ایک میچ میں بی شکست اس زمانے کے اخبارات میں ہیڈلائنز بن جایا کرتی تھیں۔

ہاکی

دہائیوں کی بالادستی کے بعد پاکستانی ہاکی میں زوال کے آثار اس وقت سامنے آنا شروع ہوئے جب 1988 کے سیﺅل اولمپکس میں قومی ٹیم راﺅنڈ مرحلے سے آگے بڑھنے میں ناکام رہی، تاہم پاکستان نے 1992 کے بارسلونا اولمپکس میں کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا اور 1994 میں تو وہ ایک بار پھر عروج پر نظر آیا۔

ہاکی پر پاکستانی بالادستی قابل فہم ہے کیونکہ اسے قومی کھیل کی حیثیت سے فروغ دیا جاتا تھا۔ پاکستان ہاکی انتظامی طور پر بہت متحرک تھی اور عام حالات اچھے ہونے کے باعث پاکستان اہم ٹورنامنٹس کی میزبانی کرتا تھا۔ لاہور نے مارچ 1994 کی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کی جہاں پاکستان نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد فائنل میں جرمن ٹیم کو پنالٹی اسٹروکس پر شکست دے کر ٹرافی اپنے نام کی۔

مگر یہ اختتام نہیں تھا، اسی سال دسمبر میں ہاکی پرستاروں نے ایک اور سنسنی خیز مقابلہ اس وقت دیکھا جب پاکستان نے نیدرلینڈ کو ایک بار پھر پنالٹی اسٹروکس پر شکست دے کر سڈنی میں 1994 کے ہاکی ورلڈ کی ٹرافی اٹھائی۔ یہ قومی ٹیم کی چوتھی اور اب تک کی آخری ورلڈکپ ٹرافی ثابت ہوئی۔ منصور احمد کی ہیروانہ گول کیپنگ، لیفٹ ان شہباز سنیئر کی برق رفتاری، دفاعی کھلاڑیوں کو اپنی ڈربلنگ سے بے بس کرکے گول کرنے والے کامران اشرف اس ٹیم کے فیچرز میں سے شامل تھے جس کی قیادت ' ہاکی کے میرا ڈونا (شہباز سنیئر)' کرتے تھے اور بدقسمتی سے یہ آخری ٹیم ہے جس نے پاکستان کے لیے ورلڈکپ جیتا۔

اسکواش

بچپن سے ہم یہ خبریں سن سن کر بیزار ہوچکے تھے کہ ایک پاکستانی ( پہلے اسی کی دہائی کے آخر میں جہانگیر خان اور ان کے بعد نوے کی دہائی میں جان شیر خان) نے برٹش اوپن، ورلڈ اوپن، ہانگ کانگ اوپن اور دیگر اسکواش ٹورنامنٹس کو جیت لیا ہے۔

اس زمانے میں تو ایسی افواہیں بھی گلی کوچون میں گردش کرتی تھیں کہ ایسا فارمیٹ اسکواش میں متعارف کرایا جارہا ہے جس میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایک غیر پاکستانی کھلاڑی تو کم از کم فائنل تک پہنچے یا اولمپک کمیٹی اسکواش کو اولمپک گیمز کا حصہ اس لیے نہیں بنارہی کیوںکہ صرف پاکستانی خانز ہی اس کو جیتے گے۔

عام طور پر فائنل مقابلے میں دو پاکستانی کھلاڑیوں کے درمیان ہوتے اور وہ ہی دیکھنے والے میچ بھی ہوتے وگرنہ دیگر میچز میں تو ایک ہی کہانی سامنے آتی کہ ایک خان نے اپنے حریف کو روند کر رکھ دیا کئی بار تو وہ ایک سیٹ ہارے بغیر بھی جیت جاتے۔

1994 کا سال بھی مختلف نہیں تھا، جہانگیر خان اسکواش کی دنیا سے ریٹائرمنٹ لے کر جاچکے تھے اور اب اس کھیل پر صرف جان شیر خان کی حکمرانی تھی تو اگلے کئی برسوں تک رہی، اسی لیے یہ سال بھی جان شیر کے نام رہا، یہاں تک کہ انہوں نے 1992 سے 1996 تک لگاتار برٹش اوپن اور ورلڈ اوپن کے ایونٹس اپنے نام کیے۔

اسنوکر

سب سے حیرت انگیز نتیجہ 1994 میں اسنوکر میں سامنے آیا جب پاکستان کے محمد یوسف نے آئس لینڈ کے جونسن کو نو کے مقابلے گیارہ فریمز سے شکست دے کر جوہانسبرگ میں منعقد ہونے والے آئی بی ایس ایف ورلڈ اسنوکر چیمپئن جیت لی۔ محمد یوسف کی بطور کھلاڑی صلاحیتیں طویل عرصے تک تاریکی میں گم رہی جس کی وجہ کرکٹ کی دیوانگی، اسکواش میں حکمران ملک تھا جس کا قومی کھیل ہاکی ہے۔

گمنام پس منظر سے تعلق رکھنے والے محمد یوسف اسنوکر اور بلیرڈ برادری میں جانی پہچانی شخصیت تھی اور ان کی تاریخی کامیابی نے اسنوکر کو مقامی عوام میں مقبول کرایا اور اسپانسر شپ ڈیلز کے راستے کھول دیئے۔ متعدد نوجوان اور ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں نے محمد یوسف کے نقش قدم پر چلنا شروع کیا اور اب تک متعدد پاکستانی کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر خود کو منوا چکے ہیں۔

اب دو دہائیوں بعد دیگر متعدد شعبوں کی طرح پاکستان میں کھیل بھی ناقابل یقین تنزلی کا شکار ہیں۔ اب تو ایسا شاذ و نادر یا غیر متوقع ہی ہوتا ہے کہ ہم پاکستنا کو ہاکی کے آخری مرحلے یا اسکواش کے کسی ٹورنامنٹ میں پہنچتے دیکھیں۔

کھیلوں پر بہت کم توجہ، بدعنوانی انتظامیہ اور سوچ میں تبدیلی نہ لانے جیسے عوامی کو یدکھتے ہوئے آئندہ دہائیوں میں بھی ایسے نتائج کی ہی توقع کی جاسکتی ہے۔

اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہم نے پاکستانی اسپورٹس کا عروج 1994 میں دیکھ لیا تھا جب ہم دنیا میں کسی ایک نہیں بلکہ چار مختلف کھیلوں پر حکمرانی کررہے تھے۔