نقطہ نظر

ٹیڑھی انگلی

جب انکساری سے کہنے پر وہ شخص سیٹ سے نہ اٹھا، تو پھر گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالنا پڑا۔

یہ آلوک کمار ساتپوتے کے افسانچوں کی چھٹی قسط ہے۔ گذشتہ افسانچے یہاں پڑھیں۔


ٹیڑھی انگلی

ٹرین کی جنرل بوگی میں کافی بھیڑ تھی۔ وہ کسی طرح اندر پہنچا۔ اندر سیٹ پرایک شخص لیٹا ہوا تھا۔ اس نے بڑی ہی خاکساری سے اس شخص سے کہا: ”بھائی صاحب، آپ لیٹے رہیے، پرذرا سا دب کر جس سے میں ٹک سکوں۔“ اس کا یہ کہنا تھا کہ وہ شخص اس پر بگڑ گیا۔ یہ سوچ کر کہ تھوڑی ہی دور جانا ہے، اس سے کیوں الجھوں، وہ کھڑا رہا۔

اگلے اسٹیشن پر انجینئرنگ کالج کے دو طالبِ علم ٹرین میں چڑھے اور یہ کہہ کر، کہ یہ بیٹھنے کی جگہ ہے، اس جناب کا کالر پکڑ کر انہیں اٹھا دیا، اور آس پاس کھڑے لوگوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔

اب سبھی کھڑے ہوئے مسافر بیٹھے ہوئے تھے، اور وہ لیٹا ہوا شخص سب سے نظریں چراتا ہوا کھڑا تھا۔

لاٹھی کی اہمیت

ایک کتا اپنے خانہ بدوش مالک کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کا مالک جس جس گاؤں میں ڈیرہ ڈالتا، اسے اپنے ساتھ لے جاتا۔ گاؤں میں گھومتے وقت بھی وہ اسے اپنے ساتھ ہی رکھتا۔ مالک اپنے ہاتھ میں ایک لاٹھی بھی لے کر چلتا تھا، جس سے گاؤں کے دوسرے کتے، اس کے کتے پر دور سے ہی بھونک کر رہ جاتے، اور نزدیک آنے کی ہمت نہیں کر پاتے تھے، جبکہ اس کا کتا یہ سوچتا تھا کہ مالک بوڑھا ہو چلا ہے، اس لیے وہ میرا اور لاٹھی کا سہارا لے کر چلتا ہے۔

وہ سوچتا کہ انسان بھی کتنا دوسروں کے سہارے جینے والا ہوگیا ہے۔ وہ بڑے غرور سے اپنے کان کھڑے اور سر اونچا کرکے چلتا، اور سوچتا کہ انسانوں نے بھی کیسی کیسی کہاوتیں گھڑ لی ہیں کہ اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے۔ میں نے انہی کی گلی میں شیر بن کر دکھا دیا ہے۔ دھیرے دھیرے اس کتے میں غرور بڑھنے لگا۔

ایک دن اس کا مالک بازار کرنے کے لیے پاس کے ہی ایک قصبے میں گیا ہوا تھا، اور کتے کو گھر پر ہی چھوڑ گیا تھا۔ وہ کتا اکیلا ہی گاؤں کے دیگر کتوں پر رعب ڈالنے نکل پڑا، اور آوارہ کتوں کے پاس پہنچ گیا۔ بس پھر کیا تھا، اسے اپنی اوقات اور لاٹھی کی اہمیت سمجھ میں آگئی۔

دو واقعات

پہلا واقعہ: ایک چوراہے پر روتی ہوئی ایک عورت ہر کسی سے اپنے کھوئے ہوئے بچے کے بارے میں پوچھتی۔ لوگ تبصرے کرتے ہوئے نکل جاتے "پیدا تو کر لیتے ہیں لیکن سنبھال کر نہیں رکھ سکتے اپنی ناجائز اولادوں کو"

دوسرا واقعہ: اسی چوراہے پر چیتھڑے پہنا ہوا ایک آدھا پاگل سا شخص کوڑے کے ڈھیر میں کچھ کھوج رہا ہے۔ لوگوں کے پوچھنے پر وہ کہتا: ”ہزار روپے کا ایک نوٹ“۔

کچھ دیر بعد اس چوراہے پر کھڑا ہر شخص کچرے کے ڈھیر میں نوٹ کھوجنے میں جٹ جاتا ہے۔

ایک جدید آدمی

وہ تپتی دوپہر میں کوٹ، ٹائی لگا کر گھومنے نکلا۔ گھومتے گھومتے وہ ایک جان پہچان والے کے گھر پر پہنچا۔ وہاں ناشتہ پیش کیے جانے پر اس نے تھوڑا سا ہی کھایا اور باقی کا چھوڑ دیا، جبکہ اسے بڑی ہی تیز بھوک لگی ہوئی تھی۔ چائے بھی اس نے آدھی ہی پی۔ پھر اس نے پاس ہی رکھے اسٹول پر سے انگریزی اخبار اٹھا لیا اور صرف صفحے پلٹ کر اسے وہیں پر جیسے کا ویسا واپس رکھ دیا۔

تھوڑی دیر بعد میوزک پلیئر کو دیکھ کر اس نے کلاسیکل میوزک سننے کی فرمائش کی اور میوزک شروع ہونے پر وہ باقاعدہ سر بھی ہلانے لگا، ساتھ ہی وہ اپنی ان حرکتوں پر وہاں موجود لوگوں کا تاثر جاننے کے لیے نیم نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ ان کے روکھے چہروں کو دیکھ کر وہ بڑا ہی ناامید ہوا، اس پر وہ اٹھا، اور واپس اپنے گھرلوٹ آیا۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ آدمی کون ہے؟ شاید وہ آدمی آپ کے پڑوس میں، یا آپ کے گھر میں، یا پھر شاید آپ میں ہی رہتا ہو، ایک جدید آدمی

بدلہ

اس نے اسے کاٹ چکے مچھر کو اپنی مٹھی میں زندہ پکڑ لیا، اور اسے اس کے پنکھوں سے پکڑ کر وہیں گھومتی ہوئی دو لال چیونٹیوں کے حوالے کر دیا۔ ان دونوں چیونٹیوں کے بیچ پھڑپھڑاتے ہوئے اس مچھر کو دیکھ کر اسے خوشی کا احساس ہونے لگا۔

دونوں چیونٹیاں اب اس مچھر کو اپنے ٹھکانے کی طرف لے جانے لگی، تبھی انہیں دو چیونٹیاں اور مل گئی۔ اب وہ مچھر اور زیادہ تڑپ کر پھڑپھڑانے لگا۔ ایسا دیکھ کر اس شخص کو اور زیادہ خوشی ہونے لگی۔ تھوڑی ہی دیر بعد چیونٹیاں اس مچھر کو کھینچتی ہوئی اپنے ٹھکانے کے قریب لے گئی۔ اس مچھر کی تڑپ جلد ہی خاموش نہ ہوجائے، یہ سوچ کر اس نے اسے چیونٹیوں سے چھڑا لیا۔ مچھر مرنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اسے بڑی ہی مایوسی ہوئی اور آخر میں اس نے اسے ان چیونٹیوں کے حوالے کردیا۔

اب اس کے چہرے پر جیت کا احساس تھا۔

کشمکش

وہ بس میں بیٹھا مونگ پھلی کھا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بس چل پڑی۔ اگلے اسٹاپ پر ایک عورت اپنے دودھ پیتے بچے کے ساتھ بس میں چڑھی، لیکن بس میں بھیڑ ہوجانے کی وجہ سے وہ کھڑی ہی رہی۔

وہ سوچنے لگا کہ لوگوں میں انسانیت نام کی چیز ذرا بھی نہیں رہ گئی ہے۔ کوئی بھی اٹھ کر اس بیچاری کو جگہ نہیں دے رہا ہے۔ کیا زمانہ آگیا ہے۔ تبھی

اسے اس کے دل نے چٹکی لی، "تم میں اگر انسانیت ہے تو تم خود ہی کھڑے ہو کر اسے جگہ کیوں نہیں دے دیتے؟ اس نے اپنے دل کو سمجھانے کی کوشش کی۔ میں تو کھڑا ہوجاتا، پر کیا کروں، کھڑے ہونے پر میرے گٹھنے درد کرنے لگتے ہیں۔"

اسی وقت اس عورت کی درخواست بھری نظریں اس پر پڑیں۔ اس نے نظریں چرالیں، تبھی اس کے دل نے کہا: ”اب نظریں کیوں چرا رہے ہو؟" اس نے پھر اپنے دل کو سمجھانے کی کوشش کی، "کھڑے رہنے پر جیب کٹنے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں اورچونکہ میری جیب میں پیسے بھی بہت ہے اس لیے میں چاہ کر بھی کھڑا ہو کر اسے جگہ نہیں دے پا رہا ہوں۔"

اس کشمکش کے دوران ہی اس عورت کی منزل آگئی اور وہ بس سے اترگئی۔ اب اس نے پھر اپنے دل کو سمجھانے کی کوشش کی، "میں تو کھڑا ہو کر اسے جگہ دینے ہی والا تھا کہ وہ اتر گئی۔"

اب دل سے آواز آنی بند ہو گئی تھی۔ شاید اس کا دل شکست خوردہ ہوگیا تھا۔

آلوک کمار ساتپوتے

آلوک کمار ساتپوتے افسانہ نگار ہیں اور اب تک ان کی تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ وہ ہندوستانی ریاست چھتیس گڑھ کے سرکاری رسالہ کے مدیر بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔