نقطہ نظر

حیدرآباد کے دستکار جوگی

جوگی بانس اور پھوس سے دستکاری کے ایسے شاندار نمونے تیار کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔

وہ سڑک، جو فاطمہ جناح روڈ، جو کہ پہلے گدو بندر روڈ کہلاتی تھی، اور اب ٹھنڈی سڑک کے نام سے مشہور ہے، سے حیدرآباد پریس کلب کے درمیان موجود ہے، وہاں ایک پوری دنیا آباد ہے۔

سڑک کے دونوں جانب فٹ پاتھوں پر بیٹھے ہوئے مردوں اور عورتوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جو وہاں بیٹھے بانس اور پھوس (reed) سے دستکاری کے نمونے بنارہے تھے۔ اس کے پیچھے ان کے دستکاری کے نمونے، جس میں کرسیاں، پردے، میزیں، اور دیوار پر سجاوٹ کے سامان شامل ہے، سجے رکھے ہوتے ہیں۔

حیدرآباد کے باشندوں کے لیے یہ سب ایک عام نظارہ ہے، وہ اکثر یہاں سے اپنی مرضی سے مخصوص ڈیزائن، سجاوٹ کا سامان، اور فرنیچر بنواتے ہیں۔

دستکاری کے یہ نمونے ان کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لیکن یہ لوگ کون ہیں؟ اور کیوں اپنے دن شہر کے فٹ پاتھوں پر گزارتے ہیں؟

یہ لوگ خود کو جوگی کہتے ہیں۔ ان کی جڑیں مختلف ہیں، ان کا تعلق ہندوستان کے راجستھان اور گجرات اور پاکستان کے تھرپارکر سے ہے۔ جوگی سنسکرت کا لفظ ہے جو یوگی سے نکلا ہے۔ لفظ جوگی مذہبی عقیدت اور احترام کا احساس دلاتا ہے، لیکن اس تناظر میں جوگی سے مراد برادری ہے۔ شاید ان لوگوں نے دہائیوں تک ایک ساتھ رہنے کے بعد خود کو یہ عنوان دے دیا ہے۔

زیادہ تر گھرانے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ ان کے مطابق ان کے بزرگوں کے ان علاقوں میں اپنے گھر ہوا کرتے تھے البتہ وہ ان سے لے لیے گئے۔

ان کی زمین ان سے چھین لی گئی، اور جہاں وہ رہا کرتے تھے اب ان جگہوں پر بڑی عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ ابتدائی طور پر انہیں ان کا معاوضہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، البتہ اتنی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی کسی قسم کی مدد کی پیشکش نہیں کی گئی۔

ان کاریگروں کی زندگی نہایت مشکل ہے۔ اس بستی کے ارکان میں سے ایک آدمی نارنگ داس نے اپنے مسائل کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ "اس طرح سے زندگی گزارنا نہایت مشکل ہے۔ ہم سے بہت وعدے کیے گئے البتہ کسی پر بھی عمل درآمد نہیں کرایا گیا۔ ہم بہتر زندگیاں گزارنا چاہتے ہیں۔"

یہ اپنی راتیں چھوٹے حلقوں میں گزارتے ہیں، اور خاص طور پر اس چھوٹی سی جگہ میں گرمی کے موسم میں نیند بہت مشکل سے آتی ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ واپس آکر فرش پر سو جاتے ہیں۔

جوگی بستی کے ایک اور رکن اشوک کا کہنا تھا کہ اسے بہتری کی کوئی خاص امید نظر نہیں آتی۔ وہ اور اس کے ساتھ موجود کچھ اور آدمی پاکستان چھوڑ کر ہندوستان میں آباد ہو کر ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔

مسلسل سماجی دباؤ ان کے مصائب میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ اشوک کا مزید کہنا تھا کہ ان کے دادا دادی نے ان سے بہتر زندگی گزاری، اور وہ یہاں پاکستان بننے سے پہلے بھی موجود تھے۔ البتہ افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی ان کی کہانیاں سننے کو تیار نہیں ہے۔

کہانیاں، کہ کیسے سارا دن سخت گرمی میں خوبصورت دستکاری کی جاتی ہے تاکہ اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرا سکے، اور جو بچے تعلیم حاصل کرنے کی عمر کے تھے، اب اپنے والدین کے ساتھ یہی کام کرتے ہیں۔ سندھ حکومت سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اشوک کا کہنا تھا کہ حکومت نے بچوں کے لیے مفت تعلیم کا وعدہ بھی کیا تھا، البتہ اسے پورا نہیں کیا۔

فٹ پاتھوں پر یہ لوگ گاہکوں کا انتظار کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے دن بھی آتے ہیں کہ انہیں کئی دن تک ایک آرڈر بھی نہیں ملتا۔ اور تب وہ ایک امید لے کر اپنا کام اٹھائے حیدرآباد کی سڑکوں پر روانہ ہوجاتے ہیں کہ شاید وہ کچھ فروخت کر سکیں۔

بستی میں ایک عیسائی خاندان بھی ہے، جو ہندوستانی ریاست گوا سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس خاندان کے ایک بچے 'لیون' سے بات کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ لوگ گھر پر اردو زبان کے بجائے کافی اچھی انگریزی بولنا جانتے ہیں۔

البتہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ان لوگوں کہ ساتھ اس زمین پر، جہاں ان کے بزرگ رہا کرتے تھے، ایسا سلوک کیا جاتا ہے۔

ہم وطنوں کی جانب سے بھلا دیے گئے ان لوگوں کی جدوجہد جاری ہے، مگر امیدیں ماند پڑتی جا رہی ہیں۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔

انگلش میں پڑھیں۔


ذیشان احمد ادبییات، موسیقی، فلموں، ماضی، اور مستقبل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر ImZeesh@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

سید ذیشان احمد

ذیشان ٓاحمد ادبییات، موسیقی، فلموں، ماضی، اور مستقبل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرImZeesh@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔