تجھ کو کسی کی کیا پڑی!
شمالی شام اور عراق کے کچھ علاقوں پر گذشتہ دو سال سے زائد عرصے سے داعش کا قبضہ ہے اور اُن کے زیرِ نگیں علاقے میں نہ تو سالوں کی عمر پانے والے انسان محفوظ ہیں اور نہ ہی صدیوں کی عمر پانے والے آثارِ قدیمہ۔
ابھی قدیم میسوپوٹیمیا کی تہذیب کے وارث شہر ''بابل'' کے آثار کی تباہی کا الم گہرا تھا کہ خبر ملی کہ شام میں واقع پالمائرہ شہر میں جہاں ان دنوں داعش کا راج ہے، وہاں موجود قدیم عہد کے رومی و یونانی معبدوں میں بارود نصب کر دیا گیا ہے۔ پھر یہ اطلاع آئی کہ وہاں رہائش پذیر ان آثار کے تحفظ اور تحقیق پر مامور خالد الاسعد نامی ضعیف ماہرِ آثارِ قدیمہ کا سر قلم کر دیا گیا ہے۔ قصور یہ تھا کہ وہ بوڑھا قدیم بت پرستی کے عہد کی عمارات کا محافظ تھا۔
ابھی تصاویر جاری ہوئی ہیں کہ سب سے قدیم معبد کو بارود کے ذریعے تباہ کر دیا گیا ہے۔ یونیسکو اور دیگر عالمی اداروں کے مذمتی بیانات جاری ہو رہے ہیں۔ شام کی حکومت کا کہنا ہے کہ داعش سے صرف شام کی سالمیت کو ہی خطرہ درپیش نہیں ہے بلکہ یہ تنظیم شام کے تہذیبی ورثے، شناخت، اور شاندار ماضی کو بھی تاراج کردینا چاہتی ہے۔
جوں ہی تہذیبی ورثہ، شناخت، اور شاندار ماضی جیسے الفاظ نے دروازہء ذہن پر دستک دی تو یکلخت کچھ چھناکے سے ٹوٹ گیا۔
عکسی مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ''پاکستان میں ثقافتی محکموں کے کسی اہلکار سے اگر پوچھا جائے کہ ہماری ثقافت کیا ہے تو وہ فوری طور پر ناچ گانا، مصوری، اور ممکن ہے کہ پتنگ بازی کا نام لے کیوں کہ اس کی نظر میں یہی ہماری ثقافت ہے اور اس پر گلہ بھی کیوں کریں کہ اگر کبھی کسی غیرملکی سربراہ کی نرگسی حس کی تسکین بجا لانی ہو تو سرکاری طور پر ایسی ہی کسی تقریب کا اہتمام ہمارے ثقافتی محکموں کی ذمہ داری قرار پاتا ہے۔
پھر مفتی جی ہی فرماتے ہیں کہ اگر یہی سوال کسی سیاستدان، نامور صحافی، یا محب الوطن دانشور سے پوچھ لیا جائے تو وہ نظریہ پاکستان کا تحفظ، تصورِ پاکستان کی آبیاری، پورے جوش و ولولے سے قائد اور اقبال کے فرامین کی روشنی میں تحریکِ پاکستان، قراردادِ پاکستان، اور دو قومی نظریے کی بات شروع کردے گا ''کیونکہ اسی مزاج کے حامل شخص کو سرکار سے حب الوطنی کی سند عطا ہوتی ہے۔
ذرا گہرائی میں چلے جائیں تو اسی طرح کے صالح فکر افراد اردو زبان کو ہی اوڑھنے بچھونے پر زور دیتے ہوئے عرب کے صحراؤں اور وسط ایشیاء کے سبزہ زاروں میں جا نکلیں گے اور جھٹ سے اپنی مقامی، علاقائی اور لسانی شناخت سے جڑے ہوئے افراد کو غدار اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دے دیں گے۔"
پیرس کی کچی آبادی میں رہائش پذیر اپنا سب کچھ علمی اداروں کے نام کر دینے والے پاکستان کے ادارہ برائے آثارِ قدیمہ کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مونسیو کریال نے عکسی مفتی صاحب سے ملاقات کے وقت اُن کے اس سوال پر کہ وہ یونیسکو کے چیئرمین کیوں نہیں لگ جاتے، جواب میں کچھ ایسا جملہ کہا کہ ان کے الفاظ سے صرف مفتی جی کی ہی نہیں میری آنکھیں بھی حیرت سے کھل گئیں۔ ''مفتی! پاکستان کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ چیئرمین یونیسکو سے کہیں بلند تر ہے۔ یونیسکو کا چیئرمین کیا ہوتا ہے سوائے ایک دفتری ملازم کے؟ پاکستان کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کا ڈی جی دنیا کی تین خوبصورت تہذیبوں کا وارث ہوتا ہے، موہنجوداڑو، گندھارا، اور مغل عہد کے قلعے اور عمارات''
کبھی سوچا بھی ہے؟
(مفتی صاحب کی سوچ پڑھنے کے لیے ان کی تحریر کردہ کتاب ''پاکستانی ثقافت'' سے رجوع کیجیے یہاں وہ سوچ درج کرنا مناسب امر نہیں ہے۔)
شنید ہے کہ یونیسکو نے سرد جنگ کے خاتمے کے دنوں میں عالمی ورثے کے تحفظ کی مہم کی کامیابی کے بعد انٹیلیکچوئل پراپرٹی اور کیوریٹو رائٹس کے تحفظ کی مہم کا آغاز کیا تھا۔
حیف! کہ وطنِ عزیز سے منسوب دو خبریں جی جلاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ بی ایس اے نامی عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 86 فیصد شرح کے ساتھ دنیا کے پہلے تین ممالک میں شامل ہے جہاں پائریسی اور انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کی شدید خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
دوسری خبر یہ ہے کہ پاکستان سے چوری ہو کر برطانیہ اور اٹلی اسمگل ہونے والے تین سو سے زائد ناقابل بیان مالیت کے حامل قیمتی نوادرات، جنہیں اِن ممالک میں موجود پاکستانی سفارتخانوں کے حوالے کر دیا گیا تھا، پچھلے 8 سالوں سے وطن واپس نہیں لائے جا سکے کہ اس کے لیے فنڈز مہیا نہیں ہیں۔ جس جگہ ان نوادرات کو اسٹور کر کے رکھا گیا ہے وہاں ان کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
سوچتا ہوں کہ ہماری شناخت، ہمارے ماضی، اور قدیم روایات کے حامل ان آثارکو تو کسی دولت اسلامیہ العراق و الشام سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، پھر میں ان سلامتی اور تحفظ کے لیے نوحہ کناں کیوں ہوں؟ سر جھٹک کر کام میں لگئے صاحب!
تجھ کو کسی کی کیا پڑی، اپنی گزار تُو!
لکھاری کو سیاسیات، ثقافت اور تاریخ پڑھنے کا شوق ہے اور وہ مذاہبِ عالم کی بھول بھلیوں میں آوارہ گردی کر کے ان کے اسرار و رموز کا کھوج لگانا چاہتے ہیں۔ وہ بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ShozabAskari@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔