صحت

سوشل میڈیا کی لت نفسیاتی امراض کا باعث

سوشل میڈیا کی لت میں مبتلا نفسیاتی امراض کے شکار افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، ماہرین۔

حالیہ مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیس بک کے پوسٹس پر کم لائیکس یا کمنٹس ملنے پر لوگوں کے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوکر ہسپتال میں داخل ہونے کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

رانچی انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائیکیاٹری کے شعبہ کلینیکل سائیکالوجی کے چیف ڈاکٹر امول سنگھ رنجن کے مطابق عمر کےمختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے کم از کم 20 مریض سوشل میڈیا پر ضرورت سے زیادہ وقت گزارنے کے باعث ان کے ہسپتال میں منتقل کیے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ورچیول دنیا اب لوگوں کی زندگی کا اہم حصہ بن چکی ہے۔ ہم سوشل میڈیا کی لت کے باعث ہسپتال میں داخل کروائے گئے مریضوں کی تعداد پر حیران رہ جاتے ہیں۔'

اسمارٹ فونز کے استعمال میں اضافے کے باعث سوشل میڈیا کا استعمال صرف شہروں میں ہی نہیں بلکہ دیہاتوں میں بھی کثرت سے شروع ہوگیا ہے تاہم ڈاکٹرز کو خدشہ ہے کہ اس کے باعث لوگ حقیقی دنیا سے دور ہورہے ہیں اور نفسیاتی امراض کا شکار بن رہے ہیں۔

ڈاکٹر رنجن نے یہاں ایک لڑکی کی مثال دی جو کاؤنسلنگ سیشن کے دوران فیس بک پر اپ لوڈ کی گئی اپنی ایک تصویر اور اس پر ملنے والے ردعمل کے حوالے سے ہی بات کرتی رہی۔

انہوں نے بتایا کہ مریضہ نے پورے سیشن کے دوران صرف سوشل میڈیا دوستوں کے بارے میں ہی بات کی جن سے وہ کبھی نہیں ملی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مریضوں کا علاج کاؤنسلنگ کے ذریعے ممکن ہے تاہم اگر انہیں زیادہ عرصے سوشل میڈیا سے دور رکھا جائے تو وہ پرتشدد حرکتیں شروع کردیتے ہیں۔

ڈاکٹر نیہا سید کے مطابق متعدد افراد فیس بک پر نقل اتارے جانے یا پھر ان کی فرینڈ ریکیوئسٹ مسترد کیے جانے پر خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر ماہ کم از کم دس ایسے کیسز ان کے سامنے آتے ہیں جو سوشل میڈیا کے باعث ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں خودکشی کا رجحان بھی موجود ہوتا ہے۔

بشکریہ ٹیک وارم