'اپنی زندگی تو نمک ہوگئی ہے صاحب'
کسی ریگستان سے اگر بارش روٹھ جائے تو برسوں تک وہاں زندگی کے آثار دکھائی نہیں دیتے، اور ریگستان میں پانی کے بنا زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ تپتی ریت پر جینے والے یہ لوگ قحط کی صورت میں پانی والے علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنے ساتھ اپنے پالتو جانور بھی لے چلتے ہیں۔
جیسے ہی قدرت مہربان ہوتی ہے اور بادل برستے ہیں تو بے جان ریت میں گھاس اگتے ہی زندگی لوٹ آتی ہے۔ درختوں کی شاخوں پر نئی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں، پرندے چہچہاتے ہیں، ریت کے ٹیلے اور خالی میدان گھاس اور پودوں کی سبز چادر اوڑھ کر کئی آنکھوں کو اس بات کا پیغام دیتے ہیں کہ جانے والے لوٹ آئے ہیں۔ ضلع سانگھڑ کے علاقے 'اچھڑو تھر' (سفید تھر) کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اسے اچھڑو تھر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہاں کی ریت سفید رنگت کی ہے۔
یہاں ہر طرف ریت ہے، مگر ریت کے ٹیلوں کے دامن میں چند ایسی بھی جھیلیں ہیں جہاں سے نمک نکلتا ہے۔ ہوا چلتی ہے تو ریتیلے میدان کی سطح سے ریت اس طرح اڑتی ہے، جیسے کوئی سانپ رینگ رہا ہو۔ میں جس جھیل کی جانب گیا تھا، اسے نمک والی جھیل کہا جاتا ہے مگر اس کا نام ایک نمبر جھیل بھی ہے۔ یہ جھیل آٹھ ایکڑ تک پھیلی ہوئی ہے۔