نقطہ نظر

دو آسکر، دو رویے

شرمین عبید چنائے کے آسکر جیتنے پر ہم بحیثیتِ قوم دو بالکل متضاد رویوں میں منقسم ہیں۔

شرمین عبید چنائے نے دوسرا آسکر کیا جیتا، لوگوں (بالخصوص سوشل میڈیا)میں بحث و مباحثے کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔کسی نے کہا "آسکر جیتنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ پاکستان کا نیگیٹو امیج ابھارو اور آسکر آپ کا"۔ کسی نے طنز کیا "یہ لوگ ابھی تک ایدھی کو نوبل دینے کا سوچ رہے ہیں اور یہ میڈم دو دو آسکر لے آئیں "۔ ایک اور خاتون نے پوسٹ کیا "میں شرمین کو چیلنج کرتی ہوں کہ وہ یہ ایوارڈ مسرت مصباح کو دے دیں کیونکہ وہ اس شعبے میں شرمین سے بہتر کام کر رہی ہیں "۔

یہ ہے تصویر کا ایک رخ! دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو شرمین کے آسکر جیتنے کی خوشی کچھ یوں منا رہے ہیں جیسے آسکر لا کر کسی نے ان کے گھر میں پڑے خالی کارنس پر سجا دیا ہو۔

بدقسمتی سے مجھے ان دونوں ہی پہلووٗں سے اتفاق نہیں۔ بلاشبہ پاکستان میں ایسی بے شمار اچھائیاں ہیں جن پر قلم اٹھانے کی، اور لوگوں کو اس بارے میں آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہر معاشرے کی طرح ہمار ا معاشرہ بھی برائیوں سے پاک نہیں۔

کیا ان تمام برائیوں کو نہ بتانے اور ان پر پردہ ڈالے رکھنے سے وہ ختم ہو جائیں گی؟وہ تمام ناسور جو غیرت کے نام پر اس معاشرے کو زہر آلود کر رہے ہیں، چھپے رہیں گے؟ کب تک ہم اپنے گھر کا کچرا قالین کے نیچے چھپاتے رہیں گے، اور کہتے رہیں گے کہ ہمارا گھر صاف ہے؟ ایک حب الوطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے مجھے بھی اپنے وطن کے اچھے پہلووں پر بات کرنے کا جنون ہے اور یقیناً ہم سب کو اس ضمن میں کام کرنے کی بھی ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ مسائل کو سامنے لایا جائے، ان پر بات کی جائے، بحث کی جائے اور ان کے سدِ باب کے لیے بھرپور اقدامات کیے جائیں۔

دنیا بھر میں تحقیقی صحافت کو اہم مقام حاصل ہے اور ایسی کئی فلمیں، ڈاکومینٹریز، اور ویڈیوز منظرِ عام پر آ چکی ہیں جن میں مختلف معاشروں بشمول امریکا میں پلتے کئی معاشرتی مسائل کو موضوعِ بحث لایا گیا ہے۔اسی آسکر میں "بہترین فلم اور بہترین اوریجنل اسکرین پلے" کے ایوارڈز جسِ فلم کو دیے گئے وہ بھی ایک گھناؤنے معاشرتی مسئلے کا احاطہ کرتی ہے۔

شرمین عبید چنائے سے آپ کو ذاتی اختلاف تو ہو سکتا ہے مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کی کئی مثالیں موجود ہیں؟خود ہمارا میڈیا کئی بار اس موضوع کو زیرِ بحث لا چکا ہے اور اس ضمن میں ایک بلِ بھی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے؟

سوال یہ ہے کہ آسکر پر بحث کرنے کے بجائے ہم اس بارے میں بات کیوں نہیں کرتے کہ اس مسئلے کے سدِ باب کے لیے حکومتی اقدامات کیا ہیں؟ اس کی روک تھام کے لیے کوششیں تیز کیوں نہیں کرتے؟ بعض حضرات نے یہ بھی کہا کہ یہ مسئلہ تو کچھ دیگر ممالک میں بھی موجود ہے، ان پر ایسی ڈاکومینٹری کیوں نہیں بنائی گئی؟ یعنی مسئلے سے انکار نہیں، اعتراض اس بات پر ہے کہ میرا گھر کیوں؟

اگر ایسے اعتراضات اٹھانے سے مسائل حل ہوتے ہیں تو چلیے کچھ اور موضوعات بھی تلاش کر لیتے ہیں، ورنہ یقین مانیے کہ کہ ہم صرف احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔

کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کا سب سے پہلا مرحلہ اسے تسلیم کرنا ہوتا ہے، اور یہ ڈاکومینٹری بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔جیسے ایک ماہر سرجن کسی ناسور کو جڑ سے اکھاڑ نے کے یے اس پر تیز ترین نشتر سے چیرا لگاتا ہے، یہ ڈاکومینٹری بھی ایسا ہی چیرا ہے، جس کی چبھن ہم سب کو محسوس ہو رہی ہے۔

وہ تمام لوگ جو معترض ہیں کہ غیرت کے نام پر اسلامی مملکتِ پاکستان میں قتل کیے جاتے ہیں، کیا اس مسئلے کی موجودگی سے انکار کر سکتے ہیں؟ آسکر جیتنے کی وجوہات پر طنز کرنے سے زیادہ مناسب کیا یہ نہ ہو گا کہ ہم اقرار کریں کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کی حقیقت پر بحث کریں؟

نیز یہاں یہ بھی بتانا مناسب ہے کہ اس ڈاکومینٹری میں کچھ ایسے کردار بھی ہیں جو بہت مثبت انداز میں دکھائے گئے ہیں اور وہ بھی پاکستانی ہی ہیں جو اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتے بلکہ ڈٹ کر ہر مشکل کا سامنا کرتے ہیں۔

اب ذرا آئیے ان کی طرف جو "پاکستان میں آسکر آنے" کی خوشیاں منانے میں مگن ہیں اور جن کے سوشل میڈیا اسٹیٹس، ٹوئیٹس اور انسٹاگرام تصویریں صرفٖ اس بات پر مسرور ہیں کہ ایک پاکستانی نے ایک بار پھر آسکر جیت لیا ہے۔

میرا ان تمام لوکوں سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ آسکر جیتنا زیادہ اہم ہے؟ یا ایک ایسے موضوع پر جو پوری دنیا میں پاکستان کا نام ایک ایسی ریاست کے طور پر پیش کر رہا ہے جہاں غیرت کے نام پر ہر سال ہزاروں لڑکیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے، دکھ منانے کا مقام ہے؟

مزیدِ برآں، شرمین، جو کینیڈین نژاد پاکستانی ہیں، پر آسکر "پاکستان" لانے کا شور مچانا کم از کم میری ناقص عقل سے تو بالاتر ہے۔ بحیثیتِ پاکستانی، مجھے تو درحقیقت شرمندگی ہے کہ یہ بہترین ایوارڈ ایک ایسے موضوع کو سامنے لانے پر ملا ہے جو باعثِ تذلیل ہے۔

حیرت کا مقام تو یہ بھی ہے کہ ہم ہر ایسے پاکستانی کی، جو دوہری شہریت رکھتا ہے، کسی بھی جیت پر کب تک پاکستان کا ٹھپّہ لگا کر خوش ہوتے رہیں گے؟ شرمین عبید چنائے ہی کیا، پاکستانی امریکن نرگس ماولوالہ ہوں، یا پاکستانی یورپیین عامر خان، یا پھر وسائل کی عدم دستیابی اور حکومت کی نظراندازی کے باعث آسٹریلیا منتقل ہو جانے والے باڈی بلڈنگ چیمپئین عاطف انور، ہم ان کے پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ان کی جیت کی خوشیاں مناتے ہوئے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کی جیت اور کامیابیوں میں ان کی پاکستان میں پیدائش اور خاندان کا تعلق پاکستان سے ہونے کے علاوہ پاکستان کا کیا عمل دخل ہے؟

مجھے ان تمام لوگوں کے پاکستانی ہونے یا پاکستان سے ان کی محبت پر ہر گز کوئی شبہ نہیں لیکن اتنا دکھ ضرور ہے کہ ان کی کامیابیوں میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں! شرمین کے بارے میں بھی میرا اربابِ اختیار اور کامیابی کے نشے میں سرشار عوام سے یہی سوال ہے کہ آسکر جیتنے میں سوائے اس کے کہ ڈاکومینٹری پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں ہے، ہمارا کیا کردار ہے؟

شادیانے بجائے جا رہے ہیں کہ اب اس ڈاکومینٹری کے بعد وزیرِ اعظم نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف سخت قانون سازی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تو کیا تیسری بار وزیرِ اعظم بننے والے نواز شریف کو اس سے پہلے علم نہیں تھا کہ پاکستان میں یہ بھی کوئی مسئلہ ہے؟ اس مسئلے پر قانون سازی کے لیے اگر ڈاکومینٹری بننے کا انتظار کیا گیا، تو یہ تو خود ہماری غلطی ہے۔ آپ پہلے ہی سخت قانون سازی کر کے مسائل کو جڑ سے اکھاڑنے کی سعی کریں تاکہ کسی کے پاس جواز ہی نہیں رہے۔

آئیے اس بحث کو چھوڑیں اور خود سے ایک سوال کریں کہ کب تک ہمارے معاشرے میں پلتے ایسے مسائل شرمین اور ان جیسے دوسرے ڈائریکٹرز کے دنیا کے سامنے لانے پر ہماری توجہ حاصل کرتے رہیں گے؟ کب تک ہم انتظار کریں گے کہ کوئی اور مسئلہ آسکر نامزدگی کے باعث سامنے آئے گا اور بحث کا مرکز بنے گا۔کب تک ہم خود کو یہ جھوٹے دلاسے دیتے رہیں گے کہ "یہ ہم نہیں"۔

آئیے اپنے اسٹیٹس اپ ڈیٹس، ٹوئیٹس، اورپوسٹس کا رخ اس مسئلے کی طرف موڑیں، جو اس ساری بحث میں کہیں بری طرح نظرانداز ہو رہا ہے۔

شاذیہ کاظمی

شاذیہ کاظمی ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں اور ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ٹی وی ڈرامے اور ریڈیو پروگرامز بھی تحریر کیے ہیں۔ انِہیں دو PAS ایوارڈز بھی ملِ چکے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: shaziya@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔