نقطہ نظر

خواتین: روشن مستقبل کی امید

مشکلات کے باوجود ہماری خواتین جس مقام تک پہنچی ہیں اسے دیکھتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں تصور کرنا مشکل نہیں ہے۔

واقعات کے حالیہ تسلسل کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ملک کے سیاسی مبصرین اور سانحات سے بھرپور تاریخ کے طالب علموں میں امید کی ایک کرن روشن ہوئی ہے، تو یہ بلاشبہ ایک خوش آئند بات ہے۔

جب ایسے کالم نگار اور مصنف جو دہائیوں تک محرومیوں کی وجہ سے مجبور ہو کر مایوسیوں کے پیامبر بنے ہوئے تھے، وہ اگر تبدیلی کی ایسی علامات کو دیکھنا اور تسلیم کرنا شروع کردیں تو ایسا ماننے میں کوئی حرج نہیں ہوگا کہ کچھ مثبت تبدیلی آنے کو ہے۔

اس پرامیدی کے ساتھ ساتھ ایک دوسری بحث بھی مختلف اخباروں، خاص طور پر انگریزی اخباروں، کے کالم سیکشن کی زینت بنی ہوئی ہے جس کی توجہ کا محور ہے کہ کیا پاکستان کا معاشرہ کبھی لبرل بن سکے گا یا اسی طرح قدامت پرست رہے گا۔ صاف کہوں تو اس بحث میں کسی کی طرفداری کرنے کے لیے میری دانشوارانہ قابلیت اتنی زیادہ نہیں ہے۔

اس کے باوجود میں ضرور اپنا کچھ حصہ ڈالوں گا۔ جو بات مجھے اپنے ملک کے مستقبل کے لیے پرامید بناتی ہے، بلکہ ہمیشہ مجھے کل کے بارے میں امیدوں سے سرشار رکھتی ہیں، وہ پاکستان کی خواتین ہیں۔

جی ہاں خواتین، جو کافی تعداد میں بے نامی کے ساتھ ملک کے دور دراز علاقوں میں مشقت کر کے گھریلو آمدنی میں نصف سے زیادہ حصہ ڈالتی ہیں مگر المیہ ہے کہ وہ مقام، اجرت اور دوسرے پہلوؤں کے لحاظ سے آج بھی مساوی حیثیت کی حامل نہیں ہیں۔

جب تک ہماری ریاست نے سالہا سال تباہی کے راستے پر گامزن رہنے کے بعد بریک لگا کر یو ٹرن نہیں لیا، اس وقت تک میرے ذہن میں آخری امید یہی بچی تھی کہ ایک دن ملک کی نصف آبادی اٹھ کھڑی ہوگی اور اجتماعی خودکشی کی جانب گامزن ہم لوگوں کو بچا لے گی۔

میں خواتین کو لے کر اتنا پر امید کیوں ہوں؟ چلیے میں آپ کو بتاتا ہوں۔ میری تیسری سالگرہ سے قبل میں پولیو وائرس کا شکار ہو گیا تھا۔ پولیو کے سنگین نقصانات سے آگاہی نہیں تھی لہٰذا ٹیکے بھی نہیں لگے۔ یہاں تک کہ چند ماہرینِ امراضِ اطفال کو اس بیماری کے بارے میں پتہ بھی نہیں تھا، اور کئی ہفتوں تک میرا ٹائیفائیڈ کے مرض کے لیے علاج چلتا رہا۔

میری والدہ قد و قامت کی تو اتنی زیادہ نہیں تھیں مگر حوصلے بلند و بالا رکھتی تھیں۔ میری بیماری سے انہیں شدید صدمہ پہنچا تھا مگر کبھی بھی انہوں نے اس افسردگی کی کوئی علامت اپنے چہرے پر عیاں نہ کی تھی۔

ان سالوں کے دوران میری زندگی میں انہوں نے مجھے نہ صرف دوبارہ چلنا سکھایا بلکہ مجھ میں کبھی ہار نہ ماننے کا حوصلہ بھی پیدا کیا۔ ہم راولپنڈی میں رہتے تھے اور اکثر دوسرے گھرانوں کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے مری جایا کرتے تھے۔

میری والدہ مجھے پیٹھ پر اٹھا کر ہر اس بلند مقام تک لے جاتیں جہاں دوسرے بچے کھیلنے جاتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ضرورت پڑتی تو وہ مجھے اوپر پہاڑوں پر بھی لے جاتیں تاکہ میں خود کو پیچھے نہ محسوس کروں۔ اس طرح میں خود اعتمادی کے ساتھ بڑا ہوا اور اپنی معذوری کو معمولی پریشانی کے سوا زیادہ کچھ نہیں سمجھا۔

میری کمان اب والدہ سے میری ٹیچرز کے حوالے ہو چکی تھی۔ وہ تمام ہی خواتین تھیں۔ ان سے پڑھنا محض سال کا 'کورس' نہ ہوتا، بلکہ انہوں نے مجھے عزت، برابری اور سلیقے کا بھی درس دیا۔ سب ہی نے مجھے یقین دلایا کہ میری معذوری کے باوجود مجھ میں کامیابی کے لیے ضروری تمام خصوصیات موجود ہیں۔

ہاں میری ایک یا دو اساتذہ ایسی ضرور تھیں جو دیگر مرد اساتذہ کی طرح ہی تھیں، مگر مجموعی طور پر چاہے میرا خاندانی حلقہ ہو، دوست ہوں، یا میری پروفیشنل زندگی، خواتین نے مجھے اپنے پروفیشنلزم اور احساسِ ذمہ داری سے ہمیشہ متاثر کیا ہے۔

کچھ عیب جو یہ تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ مثالی کرداروں میں شامل زیادہ تر خواتین کا تعلق اشرافیہ، دولتمند، مغربی تعلیم یافتہ، بالائی متوسط طبقے سے ہے جو کہ ملک کی بلند ترین سماجی و معاشی سطح پر یا اس کے نزدیک موجود ہیں۔

میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ صرف تین خواتین کا ذکر کروں گا، جن میں مختار مائی، کائنات سومرو اور ملالہ یوسفزئی شامل ہیں، یہ تمام کس طبقے سے تعلق رکھتی ہیں؟ یا تو ان کا تعلق متوسط طبقے سے یا نچلے طبقے سے ہے، اور دیکھیے کہ انہوں نے اپنی ہمت اور حوصلے سے کیا کیا حاصل کیا ہے۔

یہ سچ ہے کہ میں زیادہ خواتین کے نام لینے سے خود کو اس لیے روک رہا ہوں کیونکہ مضمون لکھنے کے لیے میرے پاس محدود لفظوں کی تعداد ہے لیکن پھر بھی، آپ سنجیدگی سے اپنے ارد گرد دیکھیں اور ہر شعبے میں ان کی جہدوجہد سے حاصل ہونے والی شاندار کامیابیوں کو تسلیم کریں۔

میرے صحافتی کریئر کے دوران مجھے پاکستان کے دو باہمت ترین ایڈیٹرز کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جو دونوں ہی خواتین تھیں۔ ان کی زیرِ ادارت نکلنے والے دو نیوز میگزین ان کے وژن اور سچ کے لیے ان کی لگن کو ظاہر کرتے تھے۔

جس تکثیری معاشرے اور عقلیت پسندی کی ترویج وہ اپنے میگزین کے صفحات کے ذریعے کرتی تھیں، وہ ترویج نہایت مشکل حالات اور وقتوں کے دوران کی جاتی تھی، اور پھر بھی ہم رپورٹرز کی ہر سچ تک پہنچنے اور اسے تحریر کر دینے کی آزادی ہوتی تھی، اور ہمیں کسی بھی چیز پر 'نا' سننے کو نہیں ملتا تھا۔

آج بھی ہماری خواتین ساتھی معروضی صحافت کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔ ڈان کے کالمی صفحات کے نئے انداز کا کریڈٹ اخبار کی پہلی خاتون کالم ایڈیٹر زبیدہ مصطفیٰ کو جاتا ہے جن کے ساتھ میں نے بھی کام کیا تھا۔

آج بھی ادارتی ٹیم میں موجود خواتین غیرمعمولی قابلیت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ رپوٹرز کی بائے لائنز بھی اپنی کہانی آپ بیان کرتی ہیں۔ دوسری جانب میڈیا میں، پارلیمنٹ میں، عدالتوں میں، طب میں، سائنس میں، آرکیٹیکچر میں، یعنی جہاں کہیں بھی آپ دیکھیں گے، تو آپ کو بڑی تعداد میں شہروں میں رہنے والی تمام طبقات کی عورتوں کی شمولیت سے ایک انقلاب برپا ہوتا نظر آئے گا جو امتیازی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور اپنے مرد ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ رہی ہیں۔

اس معاشرے میں جنم لینے والی امید کی نئی کرن کو تقویت دینے اور ایک روشن مستقبل کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے صرف ایک چیز کی ضرورت ہے، اور وہ یہ ہے کہ خواتین کو ہراول دستے میں ان کا کردار ادا کرنے دیا جائے، ایسا ماحول پیدا کیا جائے جہاں وہ اپنی مرضی سے زندگی جی سکیں، اور پھر دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے۔

مذہب، ثقافت اور رواج کے نام پر پیدا کی گئی مشکلات کے باوجود ہماری خواتین کس کس مقام تک پہنچی ہیں، اسے دیکھتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں تصور کرنا مشکل نہیں ہے۔

قابلیت اور صلاحیت ہی ہمارے بہتر مستقبل کی ضمانت ہے، نہ کہ صنفی امتیاز۔

لکھاری ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

abbas.nasir@hotmail.com

یہ مضمون ڈان اخبار میں 12 مارچ 2016 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abbas.nasir@hotmail.com ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔