دنیا

دنیا میں سزائے موت کے 10 طریقے

ہر ملک میں ملزمان کو سزائے موت دینے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے جن سے ہوسکتا ہے آپ واقف نہ ہوں۔
|

دنیا میں سزائے موت کے 10 طریقے

فیصل ظفر اور عاطف راجہ



دنیا کے مختلف ممالک میں سزائے موت کو ختم کردیا گیا ہے تاہم پاکستان سمیت بیشتر ملک ایسے ہیں جہاں اب بھی مختلف جرائم پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔

مگر ہر ملک میں ملزمان کو سزائے موت دینے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے جن سے ہوسکتا ہے آپ واقف نہ ہوں۔

یہاں دنیا بھر میں سزائے موت کے طریقوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

زہریلا انجیکشن

کریٹیو کامنز فوٹو

زہریلے ٹیکے کے ذریعے سزائے موت امریکا میں دی جاتی ہے جس کا اصول یہ ہوتا ہے کہ ایک ٹیکا ایک فرد کو لگے گا اور اسے جو لگاتا ہے اس کا چہرہ چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ بیشتر امریکی ریاستوں میں کوئی فرد ہی اس زہریلے ٹیکے کو قیدیوں کو لگاتا ہے جبکہ کچھ جگہ مشینوں کو بھی استعمال کیا گیا تاہم تیکیکی خرابیوں کے باعث اسے ختم کردیا گیا۔

عام طور پر زہریلے ٹیکے کے لیے پینتھاہول کو استعمال کیا جاتا ہے جو عام طور پر آپریشن کے دوران مریضوں کے لیے بے ہوش کرنے کے لیے بھی استعمال ہے تاہم اس کی مقدار 150 ملی گرام رکھی جاتی ہے جبکہ سزائے موت کے قیدی کے لیے یہ مقدار پانچ ہزار ملی گرام ہوتی ہے، جبکہ پوٹاشیم کلورائیڈ اور دیگر زہروں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

برقی کرسی

فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

سزائے موت کے اس طریقہ کار پر بھی امریکا میں ہی عمل کیا جاتا ہے تاہم الاباما، فلوریڈا، ساﺅتھ کیرولائنا، ورجینیا اور دیگر چند ریاستوں تک ہی محدود ہے۔

اس طریقہ کار میں قیدی کو کرسی پر دھاتی پٹیوں سے باندھ دیا جاتا ہے جبکہ ایک گیلا اسفنج اس کے سر پر رکھ دیا جاتا ہے جس کے بعد عام طور پر پہلے 2 ہزار والٹ بجلی کو پندرہ سیکنڈ تک کرسی پر چھوڑا جاتا ہے جس سے قیدی بے ہوش اور دل کام کرنا چھوڑ دیتا ہے جبکہ اکثر دوسری بار بھی کرنٹ چھوڑا جاتا ہے جو اندرونی اعضاء کو نقصان پہنچاتا ہے۔

اس سزا پر سب سے پہلے عملدرآمد 1890 میں نیویارک میں ہوا تھا۔

گیس چیمبر

کریٹیو کامنز فوٹو

گیس چیمبر کے ذریعے سزائے موت پر عملدرآمد بھی امریکا میں ہی ہوتا ہے تاہم اسے سب سے پہلے جنگ عظیم دوئم کے دوران جرمن قید خانوں میں اپنایا گیا تھا جس کے ذریعے لاکھوں افراد کا قتل عام ہوا۔

اب اس طریقے پر امریکا کی 5 ریاستوں میں ہی عملدرآمد ہوتا ہے تاہم آخری بار اس طریقے سے سزائے موت 1999 میں دی گئی تھی، اس کے بعد سے یہ چیمبر کام نہیں کررہے بلکہ اس کی جگہ قیدیوں کو گیس چیمبر یا زہریلے انجیکشن میں سے کسی ایک کے انتخاب کا موقع دیا جاتا ہے۔

اس طریقے میں قیدیوں کو چیمبر کے اندر بند کرکے پوٹاشیم سائنائیڈ کو چھروں کی شکل میں وہاں موجود کرسی کے نیچے بنے ایک چھوٹے سے خانے کے ذریعے چھوڑا جاتا ہے۔

چوکہ یہ چیمبر مکمل طور پر بند ہوتا ہے اور زہریلی گیس کو چھوڑا جاتا ہے تو قیدیوں کی سانس تھم جاتی ہے جبکہ کہا جاتا ہے کہ یہ بہت تکلیف دہ طرقیہ ثابت ہوتا ہے۔

فائرنگ

کریٹیو کامنز فوٹو

فائرنگ کے ذریعے سزائے موت دینے کا طریقہ دنیا بھر میں سب سے عام ہے اور 70 سے زائد ممالک میں اسے اپنایا گیا ہے، اگرچہ بیشتر ممالک میں فائرنگ اسکواڈ کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاہم صرف ایک شخص کو ہی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

سوویت یونین کے دور میں صرف ایک گولی سر میں ماری جاتی تھی جبکہ چین میں اب بھی اس پر عملدرآمد ہوتا ہے۔

اسی طرح تائیوان میں پہلے قیدی کے جسم میں سن آور ادویات کو داخل کیا جاتا ہے اور پھر اس کے دل پر فائر کیا جاتا ہے۔

فائرنگ اسکواڈ

رائٹرز فوٹو

فائرنگ اسکواڈ کو استعمال کرنے کا طریقہ اکثر ممالک میں مختلف ہوتا ہے تاہم عام طور پر قیدی کی آنکھوں پر سیاہ پٹی اور ہاتھ پیر رسی سے باندھے جاتے ہیں۔

اس کے بعد کئی افراد پر مشتمل اسکواڈ قیدی پر فائرنگ کرتا ہے اور عام طور پر ایک شوٹر ایک گولی ہی فائر کرتا ہے۔

یہ طریقہ قدیم روم کے تیر اندازوں سے متاثر ہوکر اپنایا گیا، جو سزائے موت کے قیدیوں کو درخت پر باندھ کر تیر برساتے تھے۔

اس طریقے کو متعدد ممالک میں سزائے موت کے لیے اپنایا گیا ہے جن میں امریکا، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، جنوبی افریقہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

پھانسی

کریٹیو کامنز فوٹو

سزائے موت کا یہ طریقہ پاکستان، افغانستان، کیوبا، مصر، ایران، انڈونیشیاءاور ہندوستان سمیت کئی ممالک میں اپنایا گیا ہے اور اس کے لیے قیدی کو پھانسی گھاٹ پر کھڑا کرکے گلے میں رسی کا پھندہ باندھا جاتا ہے اور پھر تختہ کھینچ لی جاتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ جھٹکے سے کچھ گہرائی میں جاتا ہے اور اکثر گردن ٹوٹنے سے مر جاتا ہے، جبکہ ایسا نہ ہونے پر دم گھوٹنے سے بھی موت واقع ہوجاتی ہے۔

سر قلم کرنا

کریٹیو کامنز فوٹو

سعودی عرب، جاپان اور کئی دیگر ممالک میں سزائے موت کے لیے سر قلم کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے، جس کے لیے ایک تیز دھار تلوار کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ویسے یہ طریقہ کار بہت پرانا ہے اور قدیم روم اور یونان میں اس پر عملدرآمد کے لیے واقعات تاریخ میں درج ہیں۔

گلوٹین

کریٹیو کامنز فوٹو

گلوٹین درحقیقت ایک ایسی مشین ہوتی ہے جس میں لکڑی کے آٹھ سے 10 فٹ اونچے فریم میں بہت بھاری بلیڈ لگا دیا جاتا ہے اور کھٹکا ہٹانے پر بلیڈ تیزی سے نیچے آتا اور قیدی کا سر تن سے جدا ہوجاتا۔

یہ طریقہ کار انقلاب فرانس کے بعد فرانس میں مقبول ہوا تھا اور اس پر عملدرآمد بھی اسی ملک میں ہوتا تھا، تاہم 1981 میں وہاں سزائے موت دینے کے عمل کو کالعدم قرار دینے کے بعد اس پر عملدرآمد روک دیا گیا۔

سنگسار کرنا

کریٹیو کامنز فوٹو

ملزمان پر پتھر برسا کر انہیں ہلاک کرنے کا عمل جسے سنگسار کرنا بھی کہا جاتا ہے، موجودہ عہد کا نہیں بلکہ قدیم یونان میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے۔

تاہم اب یہ اسلامی ممالک کی حد تک محدود ہے جن میں زنا کی سزا کے لیے اس پر عملدرآمد ہوتا ہے، ان ممالک میں افغانستان، نائیجریا، ایران، سوڈان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات قابل ذکر ہیں، جبکہ 1979 میں ضیاءالحق کے دور حکومتت میں حدود آرڈنینس کے تحت پاکستان میں بھی اس طریقے کو اپنانے کی منظوری دی گئی تاہم اس پر سرکاری طور پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔

آہنی پھندے سے گلا کھونٹ کر مارنا

فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

یہ اس فہرست میں درج دوسرا طریقہ ہے جو اب کسی ملک میں استعمال نہیں ہوتا، تاہم اب بھی اس کی تربیت کچھ ممالک کے جلادوں کو دی جاتی ہے، اس سزائے موت کے لیے قیدیوں کو ایک کرسی کی شکل کی مشین میں بٹھا کر اس کا گلا ایک ٹھوس پٹی سے باندھ دیا جاتا تھا، جسے سختی سے کسا جاتا تو دم گھونٹنے سے قیدی کی موت واقع ہو جاتی۔