پاکستان

پی ٹی آئی کا دھرنا اور پاناما کیس : وزیر اعظم کے لیے دہرا خطرہ

سپریم کورٹ کا 3رکنی بنچ 20 اکتوبر کو پاناما پیپرز اسکینڈل کے حوالے سے دائر پانچ مختلف درخواستوں کی سماعت کرے گا۔

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے 30 اکتوبر کو اسلام آباد میں دھرنے سے چند روز قبل سپریم کورٹ 20 اکتوبر کو وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی نااہلی کے حوالے سے پاناما گیٹ کیس کی سماعت کرے گی۔

پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں دھرنے کے لیے 30 اکتوبر کی تاریخ کا اعلان کیا تھا تاہم اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ اس تاریخ میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل تین رکنی بنچ پاناما پیپرز اسکینڈل کے حوالے سے دائر پانچ مختلف درخواستوں کی سماعت کرے گا۔

سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ وزیر اعظم نواز شریف، ان کے داماد اور وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو نااہل قرار دے۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما لیکس:عمران خان کی نواز شریف کو محرم تک کی ڈیڈ لائن

سپریم کورٹ ایک ایک کرکے پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، ایڈووکیٹ طارق اسد، وطن پارٹی کے بیرسٹر ظفر اللہ خان اور آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواستوں کی سماعت کرے گی۔

پی ٹی آئی نے 10 اکتوبر کو سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ اس کے پٹیشن پر سماعت جلد شروع کی جائے جس کے بعد سماعت کے لیے 20 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔

سینئر وکیل حامد خان اور نعیم بخاری پی ٹی آئی کی نمائندگی کریں گے جبکہ اسد منظور بٹ جماعت اسلامی کی پیروی کریں گے اس کے علاوہ دیگر درخواست گزار بذات خود عدالت میں پیش ہوں گے۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی جانب سے پٹیشن دائر کیے جانے کے فوراً بعد سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے درخواستوں کو اعتراض لگاکر واپس بھیج دیا تھا۔

رجسٹرار نے موقف اپنایا تھا کہ دائر کی جانے والی درخواستیں غیر سنجیدہ اور فضول ہیں جس کے بعد رجسٹرار کے اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا تھا اور پی ٹی آئی نے اپنی درخواست پر اعتراض کو نہ صرف توہین آمیز بلکہ ذلت آمیز بھی قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں:30 اکتوبرکواسلام آباد بند نہیں ہوگا: ایاز صادق

27 ستمبر کو چیف جسٹس کے چیمبر میں ہونے والی سماعت میں رجسٹرار آفس کے تمام اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے اپیلوں کو منظور کرلیا گیا اور یہ فیصلہ دیا گیا کہ درخواستوں پر لگائے گئے اعتراضات درست نہیں اور اب تین رکنی بنچ ان درخواستوں کی سماعت کرے گا۔

پی ٹی آئی وزیر اعظم، ان کے داماد ریٹائرڈ کیپٹن محمد صفدر اور وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے مبینہ طور پر پاناما اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزام میں ان کی نااہلی چاہتی ہے۔

پی ٹی آئی نے عدالت پر زور دیا ہے کہ وہ مبینہ طور پر لوٹ کر ملک سے باہر بھیجی گئی رقم کی واپسی کے احکامات جاری کرے اس کے علاوہ برٹس ورجن آئی لینڈز اور دیگر ملکوں میں قائم کی جانے والی کمپنیوں اور ان کے ذریعے خریدی جانے والی جائیداد کا بھی حساب لیا جائے۔

پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف، ان کے اہل خانہ اور اسحٰق ڈار نے بچوں کے نام سے بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کے لیے منی لانڈرنگ اور کرنسی اسمگلنگ کی۔

پی ٹی آئی کا یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے برٹش ورجن آئی لینڈز اور ٹیکس کی جنت کہلانے والے دیگر ملکوں میں آف شور کمپنیاں قائم کیں، جعلی فارن کرنسی اکاؤنٹس بنائے، متحدہ عرب امارات میں اسٹیل ملز (گلف اسٹیل ملز) قائم کی اور یہ بھی نہیں بتایا کہ رقم دبئی کیسے منتقل کی گئی اس کے علاوہ کمپنی کو 90 لاکھ ڈالر میں فروخت کردیا گیا اور رقم غیر اعلانیہ طور پر اپنے پاس رکھی۔

جماعت اسلامی گرفتاریاں چاہتی ہے

جماعت اسلامی کی جانب سے پارٹی کے امیر سراج الحق نے سپریم کورٹ کو دی جانے والی درخواست میں زور دیا ہے کہ عدالت وزارت پارلیمانی امور، انصاف و قانون کے سیکریٹریز، وزارت خزانہ، کابینہ ڈویژن اور قومی احتساب بیورو کے ذریعے وفاقی حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ پاناما اسکینڈل میں ملوث ملزمان کو گرفتار کریں اور عوام کے پیسہ واپس پاکستان لائیں کیوں کہ یہ پیسہ غیر قانونی طریقے سے پاکستان سے آف شور کمپنیوں میں منتقل ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

اس کے علاوہ ایڈووکیٹ طارق اسد نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے اہل خانہ اور دیگر افراد کی جانب سے آف شور کمپنیوں کے ذریعے کی جانے والی سرمایہ کاری کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کا جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔

انہوں نے موقف اپنایا کہ کمیشن منی لانڈرنگ میں مبینہ طور پر ملوث وزیر اعظم کے اہل خانہ کو ہی نہیں بلکہ منی لانڈرنگ اور ٹیسک چوری میں مبینہ طور پر ملوث ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف ، سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک ، ملک ریاض، سیف اللہ خاندان و دیگر کو بے نقاب کرنے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔

بیرسٹر ظفر اللہ خان نے اپنی پٹیشن میں سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی یا پینل تشکیل دیا جائے اور اگر پارلیمنٹ میں اس معاملے پر اخلاف رائے پایا جائے تو سیاسی جماعتوں کو وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانی چاہیے۔

شیخ رشید نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ میموگیٹ کمیشن کی طرز پر انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے جو وزیر اعظم نواز شریف کے اہل خانہ پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کرے۔

**یہ خبر 15 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی **